دہلی

خواتین تحفظات بل پر دہلی میں کویتا کی زیرقیادت بھوک ہڑتال

کے کویتا نے کہا کہ دنیا کی تیز رفتار ترقی کی طرح ہندوستان کو تیزی کے ساتھ فروغ دینے کی ضرورت کیلئے خواتین کو ملک کی سیاست میں کلیدی رول ادا کرنا ہوگا۔ سیاست میں خواتین کی نمائندگی کے تناسب میں اضافہ کیلئے27 سال سے معرض التواء اس اہم خواتین تحفظات بل کو پارلیمنٹ میں منظور کرانا ہوگا۔

نئی دہلی: دہلی شراب پالیسی اسکام کیس میں انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کے سامنے پیش ہونے سے ایک دن قبل بی آر ایس قائد کے کویتا نے جمعہ کے روز پارلیمنٹ کے جاریہ بجٹ سیشن کے دوسرے حصہ میں معرض التواء خواتین تحفظات بل کو منظور کرانے کے مطالبہ پر دہلی میں ایک روزہ بھوک ہڑتال احتجاج کی قیادت کی۔

متعلقہ خبریں
تکو گوڑہ سے جھوٹ کی تشہیر، بی آر ایس قائد کے ٹی آر کا الزام
منیش سسوڈیہ کی درخواست عبوری ضمانت پر ایجنسیوں کو نوٹس
جی او 3 سے خواتین کے حقوق سلب کرنے کی کوشش: کویتا
گیانگسٹر نعیم کی ضبط کردہ اراضیات کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ
اکسائز پالیسی کیس، وزیر کیلاش گہلوت کی پوچھ تاچھ کے لئے طلبی (ویڈیو)

 پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کا دوسرا حصہ 13مارچ سے شروع ہوگا۔ سی پی آئی (ایم) قائد سیتا رام یچوری جنہوں نے یہاں جنتر منتر پر6گھنٹوں طویل ہڑتال پروگرام کا افتتاح کیا، نے بھی مودی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پارلیمنٹ کے جاریہ سیشن میں خواتین تحفظات بل متعارف کرائے۔

 بی آر ایس قائد کی بھوک ہڑتال میں جن قائدین نے شرکت کی ان میں شیام راجک(آر جے ڈی)، سیما شکلا(ایس پی)، این سی پی کے ترجمان، تلنگانہ کی وزیر تعلیمات پی سبیتا اندرا ریڈی کے ساتھ ریاستی وزیر بہبود خواتین واطفال ستیہ وتی راتھوڑ، اے پی کی ویمن آرگنائزیشنوں کے قائدین شامل ہیں۔

سنجے سنگھ اور چترا سرورا (اے اے پی)، نریش گجرال(اکالی دل) انجم جاوید مرزا(پی ڈی پی)، سمیع فردوس(این سی) سشمیتا دیو(ٹی ایم سی)، کے سی تیاگی(جے ڈی یو)، سیما ملک(این سی پی)، نارائنہ کے (سی پی آئی)، پرینکا چترویدی(شیو سینا)، کانگریس کے سابق قائد کپل سبل نے ایک روزہ بھوک ہڑتال میں شرکت کا تیقن دیا۔

 اپنے افتتاحی خطبہ میں سیتا رام یچوری نے کہا کہ ہم یہاں اس بات کی طمانیت دینے کیلئے آئے ہیں کہ ہماری پارٹی خواتین تحفظات بل کو پارلیمنٹ میں متعارف کرانے تک کے کویتا کی تائید کرے گی۔ وزیر اعظم نریندر مودی جب پہلی بار2014 میں پارلیمنٹ میں داخل ہوئے تھے تب انہوں نے کہا تھا کہ ان کی حکومت، خواتین تحفظات بل پر ترجیح دے گی۔

مودی کی یقین دہانی کرائے 9سال کا عرصہ بیت گیا ہے مگر ابھی تک ایوان میں دوبارہ یہ بل متعارف نہیں کرایا گیا۔سخت مساعی کے بعد حکومت نے پنچایتوں میں خواتین کو تحفظات فراہم کئے ہیں۔

 اگر آپ پنچایتوں میں تحفظات دے سکتے ہیں تو پارلیمنٹ میں خواتین کو تحفظات کیوں نہیں دے سکتے۔ سماجی، معاشی اور سیاسی شعبہ جات میں خواتین کو جب تک یکساں مواقع نہیں دئیے جاتے تب تک ملک کی ترقی نہیں کرسکتا۔ اس بل کو پارلیمنٹ کے جاریہ اجلاس میں لانا اہمیت کا حامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس احتجاج میں ان کی پارٹی سی پی آئی۔ ایم، بھارت راشٹرا سمیتی کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔ کے کویتا نے کہا کہ دنیا کی تیز رفتار ترقی کی طرح ہندوستان کو تیزی کے ساتھ فروغ دینے کی ضرورت کیلئے خواتین کو ملک کی سیاست میں کلیدی رول ادا کرنا ہوگا۔

سیاست میں خواتین کی نمائندگی کے تناسب میں اضافہ کیلئے27 سال سے معرض التواء اس اہم خواتین تحفظات بل کو پارلیمنٹ میں منظور کرانا ہوگا۔1996 سے کئی سیاسی جماعتوں نے اس بل کو متعارف کرانے کی کوشش کی مگر یہ بل پارلیمنٹ میں منظور نہیں ہوا۔

 اگرچیکہ سشما سوراج، سونیا گاندھی اور برندا کرت نے اس بل کو منظور کرانے کی کافی جدوجہد کی۔ ان کا خیال ہے کہ اس تحریک کو آگے لیجانے کیلئے پرجوش قیادت کی ضرورت ہے۔ کے کویتا نے کہا کہ وہ ہندوستان کی خواتین سے وعدہ کرتی ہیں کہ جب تک پارلیمنٹ میں یہ بل متعارف اور منظور نہیں کرایا جاتا، تب تک ہمارا یہ احتجاج جاری رہے گا۔

 انہوں نے کہا کہ آج کی یہ بھوک ہڑتال تک آغاز ہے اور مستقبل قریب میں پورے ملک میں احتجاج منظم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مرکز کی موجودہ حکومت کے پاس بھاری اکثریت ہے۔ اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی حکومت سے انہوں نے مطالبہ کیا کہ وہ پارلیمنٹ میں بل کو متعارف کرائے۔

 ہم تمام سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ میں اس بل کی تائید کریں گے۔ آر جے ڈی لیڈر شیام راجک نے کہا کہ سیاست میں خواتین نمائندگی میں اضافہ کے بغیر ملک کی جمہوریت مستحکم نہیں ہوگی۔ اس بل کو پہلی بار 12 ستمبر1996 میں یونائیڈ فرنٹ، کی حکومت نے لوک سبھا میں پیش کیا تھا۔

جس میں پارلیمنٹ اور تمام ریاستوں کی اسمبلیوں میں خواتین کو 33فیصد تحفظات فراہم کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ واجپائی حکومت نے اس بل کو لوک سبھا میں پیش کیا تھا مگر منظور نہیں ہوپایا۔

 تاہم کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت نے مئی 2008ء میں اس بل کو راجیہ سبھا میں منظور کرالیا تاہم اس بل کو سیلکٹ کمیٹی کے حوالہ کردیا گیا۔2010 میں اس بل کو ایوان میں منظور کیا گیا تاہم بل کو لوک سبھا میں پیش کرنا باقی ہے۔