محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔
٭ زعفرانی حکومت کے عہدیدار سرگرم عمل ہیں۔
٭ اب وقت ہے کہ اپنی جائیدادوں کا قانونی تحفظ کیا جائے۔
٭ زعفرانی حکومت کے سربراہ کے احکامات کی تعمیل ہورہی ہے۔
٭ جائیدادوں کی ضبطی اور بھاری جرمانے حکومت کے ذرائع آمدنی بن جائیں گے۔
٭ وراثت ٹیکس بہت جلد منظور ہوگا۔
٭ بھاری ٹیکس لاگو ہوگا۔
کچھ خبریںایسی ہوتی ہیں جو بہت ہی اہم ہوتی ہیں اور خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں لیکن وہ اخباروں کی زینت بنتی ہیں اور نہ ہی ٹیلی ویژن چیانلس میں ان کے بارے میں تشہیر ہوتی ہے۔ ایسی خبریں ایک فرد سے دوسرے فرد تک پہنچتی ہیں۔ ایسی ہی کچھ خبریں ہمارے علم میں لائی گئیں جن کا ذریعہ ٹیلی فونی گفتگو تھی جو ان حضرات کی جانب سے کی گئی تھی جو انکم ٹیکس عہدیداروں اور انفورسمنٹ ڈائرکٹریٹ عہدیداروں کے نشانے پر تھے۔ ان اطلاعات کے مطابق ان کو نوٹس وصول ہوئی تھی جس میں ان کی جائیدادوں کی تفصیل اور ان کے حصول کے ذرائع فراہم کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ایسی جائیدادیں بے نامی جائیدادیں تھیں جن کے خریدار نوجوان ‘ گھریلو خواتین اور کنواری لڑکیاں تھیں‘ اور جن جائیدادوں کی بھاری قیمتیں تھیں جن کی خرید کے ذرائع ‘آمدنی کے ذرائع سے بہت زیادہ تھے یا ان کی قیمت خریدار ادا نہیں کرسکتے تھے۔ کئی جائیدادیں تو کئی سال قبل خریدی گئی تھیں۔
ان میں بعض ایسے حضرات تھے جنہوں نے اپنی سرکاری ملاززت کے دوران یا تو خود کے نام پر ایسی جائیدادیں خریدی تھیں یا انہوں نے اپنے بیوی بچوں کے نام پر ایسی جائیدادیں خریدی تھیں۔ یہ تمام جائیدادیں بے نامی جائیدادوں کے زمرے میں لائی گئیں۔ ان جائیدادوں کی اطلاع فراہم کرنے والے یا تو ان کے اپنے رشتہ دار تھے جنہیں شائد محروم کردیا گیا تھا یا کچھ حاسد تھے ۔ کچھ ایسے بھی لوگ اطلاعات فراہم کرتے تھے جو ان محکمہ جات کے انفارمرس تھے جن کا پیشہ ہی ایسی اطلاعات کی فراہمی تھا جس پر ان کو کمیشن دیاجاتا ہوگا۔
شمالی ہند کی ہندی زبان بولنے والی ریاستوں کے انتخابی نتائج سے کچھ ایسے اشارے مل رہے ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آئندہ پارلیمانی الیکشن میں زعفرانی پارٹی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی اور یا تو خود اپنے طور پر یا کچھ دیگر پارٹیوں کے اشتراک سے دلی میں اپنی حکومت تشکیل دے گی اور آئندہ پانچ سال تک ہندوستان زعفرانی پرچم تلے رہے گا۔ اس بات کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ کٹر ہندوتوا اور سناتن دھرم شمالی ہندوستان کی اکثریت کے رگ و پئے میں تحلیل ہوگیا ہے اور صرف سناتن دھرم پر تنقید ‘ شمالی ہندوستان میں کانگریس پارٹی کی شکست کی وجہ بنی۔ علاوہ ازیں نریندر مودی کو منحوس کہنے کی راہول گاندھی کی بات نے جیتی ہوئی بازی پلٹ دی۔ اس کی دو وجوہات ہیں ۔ ایک تو کٹر ہندو دھرم اور نریندر مودی کو اوتار سمجھنے کا ہندوؤں کا اعتقاد اور مفت راشن کی آئندہ پانچ سال تک سربراہی اور خواتین کے لئے ماہانہ وظیفہ کی ادائیگی کا اعلان۔ زعفرانی پارٹی اپنے اقتدار کو مزید پانچ سال تک برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ لیکن تیسری بار زعفرانی پارٹی کی الیکشن میں جیت جو تباہیاں لائے گی اس کا اب اندازہ لگایاجاسکتا ہے اور جو بھی قانون سازیاں ہوسکتی ہیں وہ اس طرح ہوسکتی ہیں۔
سب سے پہلے جو قانون سازی ہوگی وہ وراثت ٹیکس کی شکل میں ہوگی جس کا مسودہ بالکل تیار ہے اور صرف پارلیمنٹ میں پیش ہونے کی دیر ہے۔ تیسرے دور کی حکومت میں یہ قانون یقینی طور پر منظور کرلیا جائے گا جس کے نتائج اس قدر تباہ کن ہوں گے کہ ان کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ شائد اس سے پہلے بھی لکھا جاچکا ہے کہ 1985ء میں کانگریس نے اس قانون کو منسوخ کردیا تھا لیکن موجودہ صورت میں مالی وسائل میں بے تحاشہ اضافہ کرنے کے لئے اس قانون سازی سے بہتر اور کارگر کوئی حربہ نہیں۔ کیوں کہ ہر صاحبِ جائیداد کی موت کی صورت میں جب وراثت کا مسئلہ کھڑا ہوگا تو کل اثاثہ پر 35تا 70 فیصد وراثت ٹیکس لاگو کیا جائے گا۔ یہ قانون تمام مغربی ممالک ‘ امریکہ ‘ کیناڈا اور جاپان میں آج بھی لاگو ہے اور ان ممالک کی آمدنی کے کئی ذرائع میں سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
اب جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ زعفرانی پارٹی کے حق میں موافق ہوا کیا آندھی چل رہی ہے اور سیاسی پنڈتوں کے مطابق ان موافق حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرکزی حکومت پارلیمانی انتخابات جنوری یا زیادہ سے زیادہ فروری میں کرواسکتی ہے اور بہانہ بناسکتی ہے کہ اسکول کے امتحانات اور مقدس ماہ رمضان میں انتخابی عمل طلباء اور مسلمانوں کو مشکلات میں مبتلا کرسکتا ہے۔ دراصل موافق حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ اقدام کیا جاسکتا ہے۔
اگر خدانخواستہ ایسی صورت پیدا ہو جس کی پیش قیاسیاں کی جارہی ہیں تو مسلمانوں کو بہت ہی مشکل حالات کا سامنا کرناپڑسکتا ہے۔ یونیفارم سیول کوڈ لاگو ہوسکتا ہے ۔ علاوہ ازیں شہریت کے قانون پر عمل آوری شروع ہوسکتی ہے۔
حکومت کو اپنی اسکیمات پر عمل درآمد کے لئے پیسوں کی ضرورت ہوگی اور یہ پیسہ آئے گا کہاں سے متوفی افراد کی جائیدادوں میں حکومت کو وہ خزانے مل سکتے ہیں جن کا اندازہ نہیں لگایاجاسکتا۔ ہر صاحبِ جائیداد کو ایک نہ ایک دن اس دارِ فانی سے کوچ کرنا ہے پھر اس کے بعد جو کچھ کرنا ہے پھر اس کے بعد جو کچھ بھی اس نے چھوڑا اس کے ورثاء کا ہوگا اور اب وقوع پذیر ہونے والی صورت میں حکومت متوفی کے وارث کی حیثیت سے نمودار ہوگی اور چھوڑی ہوئی جائیداد سے ایک بہت بڑے حصہ کو حاصل کرلے گی۔ یہ آمدنی اس قدر زیادہ ہوگی کہ 85 کروڑ بھوکے عوام کو فی کس ماہانہ دس کلو اناج دیا جاسکتا ہے۔ لاڈلی بہنا اسکیم سارے ملک میں لاگو ہوسکتی ہے اور ہر خاتون کو ماہانہ3000 روپیہ دے جائیں گے۔ ہندوستان کے بھوکے پیاسے فاقہ کش عوام کو اور کیا چاہیئے۔
بے نامی قانون اور وراثت ٹیکس قانون (Inheritance Tax) سے ملک کے خزانے بھر جائیں گے۔ ورثاء اپنے حقِ وراثت سے محروم کردیئے جائیںگے۔ محنت سے کمائی ہوئی جائیدادیں جو بیٹوں بیٹیوں کے نام پر خریدی گئیں ضبط کرلی جائیں گی اور عوام ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
نریندر مودی پردھان منتری نے ایک بار کہا تھا کہ میں چن چن کر بدلہ لیتا ہوں اور یہ میری فطرت ہے میں نے ایک لاکھ ایجنٹس مقرر کئے ہیں جو بے نامی جائیدادوں کی نشاندہی کریں گے اور ان جائیدادوں کو ضبط کرلیا جائے گا۔ گویا ملک کمیونزم کی جانب گامزن ہے جب کہ ملک کی باگ ڈور معدودے چند سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے جن کو ملک کی دولت کو لوٹنے کی کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے کہ وہ جو چاہے کریں جس قدر بھی بینکوں کو لوٹنا چاہیں لوٹیں۔ ان کے سارے قرض معاف کردیئے جائیں گے اور انہیں بینکوں کو قرض کی شکل میں دوبارہ لوٹنے کا موقع دیاجائے گا۔
بے نامی جائیداد قانون اور وراثت ٹیکس قانون کی زد سے محفوظ رہنے کا طریقۂ کار
جس طرح Pandemic سے محفوظ رہنے کیلئے ویکسین لی جاتی ہے تاکہ جان بچائی جاسکے بالکل اسی طرح ان دونوں قوانین کی زد سے محفوظ رہنے کے لیے بھی ایک مفید طریقہ ہے۔ وہ اس طرح کے حالات کچھ ایسے پیدا کردیجئے جو آپ کرسکتے ہیں ہوں یوں کہ اپنی بے نامی جائیدادوں کو اور تمام جائیدادوں کو اپنے بہت ہی قریب رشتہ دار (بیٹا۔ بیٹی۔ بیوی۔ بھائی وغیرہ) کے نام کسی قانونی طریقہ سے منتقل کردیجئے تاکہ (خدانخواستہ) بعد میں ورثاء کسی مصیبت کا شکار نہ بن جائیں اور آپ کی وراثت سے محروم رہ جائیں۔ ہندوستان میں بے روزگاری کے دور میں مکانوں‘ دوکانوں کا کرایہ ہی واحد ذریعہ روزگار ہے اور اگر وہی ذریعہ چھین لیا جائے یا دوسرے معنوں میں قانون کی آڑ میں جس پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے ‘ تو سمجھ جائیے صورت کتنی خطرناک ہوگی ۔ اگر جائیداد تقسیم ہوجائے اور ہر وارث اس کا قانونی مالک بن جائے تو کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ آج کل جائیدادوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ صورت تو ایسی ہے کہ کوئی اپنی تنخواہ پانے والا شخص اپنی ساری زندگی کی آمدنی کو جمع بھی کرلے تو اس قابل نہیں ہوگا کہ کوئی مکان خرید سکے۔ اگر جائیداد بے نامی قانون کی زد میں آجائے تو ضبط کرلی جائے گی اور ساتھ ہی مقدمہ کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔ دوسری جانب اگر وراثت قانون لاگو ہوتو تقریباً70 فیصد قیمت حکومت بطورِ ٹیکس وصول کرلے گی۔ ایسی صورت میں کہ بے نامی جائیداد کو بے نقاب کرنے اور قانونی کارروائی کرنے کیلئے (E.D) تیار کھڑی ہوئی ہے اور دوسری طرف وراثت قانون لاگو ہونے جارہا ہے تو یہ وقت ہے کہ آپ بھی کوئی مناسب قدم اٹھائیں۔ اس کے علاوہ ایک اور بلا بھی ہے جو ٹائٹلنگ ایکٹ کی شکل میں سارے ہندوستان پر منڈلارہی ہے۔
لیکن کوئی بھی نیا قانون قدیم اور رائج قانون کو بے اثر نہیں کرسکتا بشرطیکہ قانون کو صحیح طور پر اور مناسب ڈھنگ سے اپنے حق میں استعمال نہ کیا جائے ۔ ٹائٹلنگ ایکٹ قانون والی کچھ ایسی بھیانک ہے جو کسی بھی مالکِ جائیداد کو حقیقی مالک نہیں سمجھتی تاوقتیکہ Titling Officer سرٹیفکیٹ یا TITLE نہ جاری کرے۔
ایسی صورت میں جائیدادوں پر منڈلاتی ہوئی بلاؤں کو ٹالنے کا صرف ایک ہی مسلمہ طریقہ ہے جس کو بار بار دہرایا گیا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پر عمل آوری نہیں ہوئی یا اسے کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔اس بات پر آپ ایسی خطرناک غفلت کے متحمل نہیں ہوسکتے اور نہ کسی ایسی غفلت کا ارتکاب کرسکتے ہیں جس کا راست اثر آپ کی اولاد اور آپ کی جائیداد پر پڑسکتا ہے۔ جائیدادیں ضبط ہوسکتی ہیں اور اتنا بھاری ٹیکس عائد کیا جاسکتا ہے کہ جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
اس موضوع پر مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے News-24 ٹیلی ویژن چیانل پر (Inheritance Tax) لگا کر ایک گھنٹے بھر کے مباحثے سنیئے ۔ آپ کو اچھی طرح سمجھ میں آجائے گا۔ اب وقت مناسب ہے کہ اس قانون کو لاگو کیا جاسکے۔ حکومت پیسہ یعنی ٹیکس کی آمدنی چاہتی ہے اور اس آمدنی کو قانون سازی کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس ضمن میں آپ ایک مسلمہ قانون یعنی ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ کے دفعہ129 اور سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کی روشنی میں اولین فرصت میں اپنی جائیدادیں اپنے ورثاء میں تقسیم کرسکتے ہیں اور اس غرض کی تکمیل کے لیے آپ کو لاکھوں روپیہ بطور اسٹامپ ڈیوٹی ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ خود ایک قانون ہے جسے کوئی قانون رد نہیں کرسکتا۔
اس ضمن میں مزید تفصیلات کیلئے ذیل میں ہیلپ لائن دی جارہی ہے۔
040- 2353273 – 9908850090