سیاستمضامین

تاریخ کا سب سے زیادہ مسخ کردہ باب؎ شیواجی گھرانے کے مسائل‘ بڑے بیٹے کی بغاوت اور قتل مسلمانوں سے قربت‘ برہمنوں سے دوری۔راجاؤں کی غداری‘ رشتہ دار مسلمان

دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف مسلم حکمرانوں پر مندروں کو لوٹنے کا الزام ہے حالانکہ ہندو راجاؤں نے بھی بہت سے مندروں سے ہیرے جواہرات‘ زیورات اور خزانے لوٹے ہیں اور بعض راجاؤں نے اپنے مفادات کے لئے مندروں کو منہدم بھی کیاہ۔1791ء میں مراٹھوں نے شاردا(شری نگر) کے مندر لوٹتے ہوئے اس کی توڑپھوڑ بھی کی تھی۔ اسے بعد میں مسلمان حکمران ٹیپوسلطان نے تعمیر کروایا تھا۔ کشمیر کا ہرش دیوراجہ تو مندروں سے دھات حاصل کرنے کے لئے مورتیوں کو پگھلاتا اور مورتیوں کو پگھلانے سے قبل ان پر انسانی غلاطت اور پیشاب ڈال کر ان کے تقدس کو پامال کیاکرتا تھا۔ مگر کسی نے بھی اس کے دور میں کوئی فساد نہیں کیا۔ اس سے متعلق تفصیلات کلہان کی ’ راج ترنگی‘ نام کی کتاب میں موجود ہیں۔

سلیم مقصود

شیواجی کی زندگی اور ان کے تاریخی واقعات اور حقائق کو جاننا مسلمانوں کے لئے بہت ضروری ہے ۔ شیواجی کی زندگی اور شیواجی خاندان کی تباہی اور اس کے بعد کے حالات پر بہت سے مورخین اور محققین نے بہت کچھ لکھا ہے اور ان موضوعات پر سینکڑوں کتابیں بھی لکھی جاچکی ہیں۔ ہم اپنے اس مضمون میں گویند پانسرے کی مرہٹی کتاب کے اردو ترجمہ کا حوالہ دیں گے یہ ترجمہ ایڈوکیٹ سید شاہ غازی الدین نے اگست2004ء میں کیا تھا۔ پانسرے کی کتاب کی ایک لاکھ سے زائد کاپیاں شائع ہوچکی ہیں۔ پانسرے مہاراشٹرا کے مشہور کمیونسٹ رہنما تھے۔ کامریڈ پانسرے 1932ء میں موضع کولہار میں پیدا ہوئے تھے ‘ پانسرے نے سنگھ پریوار کی بہت سی دورغ گوئیوں کا پردہ فاش کردیا۔ انہوں نے شیواجی کے سیکولر کردار پر مہاراشٹرا میں کئی سو لیکچر دیئے۔ انہوں نے برہمنوں کی کئی سازشوں کا پتہ بھی لگایا اور ان کی توہم پرستی اور ذات پات کے عقائد کے خلاف بھی تحریک چلائی جس کے سبب انہیں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ اور کئی سال بعد بھی ان کے قاتلوں کا پتہ نہ چل سکا۔
ان کی کتاب ’’ شیواجی کون تھے‘‘ کے چار اہم موضوعات ہیں (1) شیواجی خاندان کے حالات‘(2) برہمنوںسے شیواجی خاندان کی دوری۔(3) شیواجی کی مسلمانوں سے قربت اور (4) مسلمانوں کی شیواجی سے محبت۔
شیواجی کے والد کا نام شاہ جی تھا‘ پرگنہ (پونا) ان کے والد کی جاگیر میں تھا۔ یہ علاقہ مغلوں اور عادل شاہی خاندان کی سرحد میں واقع تھا ۔ شیواجی بلا شبہ کھشتری ذات سے تعلق رکھتے تھے مگر وہ رانا پرتاپ سنگھ اور پرتھوی راج چوہان سے بہت مختلف تھے۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ شیواجی ہندو مذہب کے وفادار تھے۔ اس لئے انہیں ہر لڑائی میں ہندوؤں کی مدد سے کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ شیواجی ایک سیکولر حکمران تھے ‘ شخصی طور پر شیواجی مسلمانوں کے بہت قریب تھے۔ راجہ شیواجی کے سردار ‘ وطن دار ‘ جاگیر دار اور دیگر بہت سے ملازمین مسلمان تھے۔ شیواجی کے توپ خانے کا سردار مسلمان تھا جس کا نام ابراہیم خان تھا۔ دنیا کی کسی بھی فوج کے اسلحہ کے ذخیرے یا توپ خانے کا اعلیٰ افسر ہمیشہ ایک نہایت ہی وفادار اور حکمرانوں کا قریبی آدمی ہوا کرتا تھا۔ مگر شیواجی کی فوج میں ابراہیم خان کو یہ اعزاز حاصل تھا ‘ چھتر پتی شیواجی نے دور اندیشی اور دانش مندی سے اپنی بحری فوج بھی تیار کررکھی تھی جس کے شعبہ کا سربراہ ایک مسلمان سردار ’’دریاسارنگ دولت خاں‘‘ تھا۔ شیواجی کے بااعتماد اور مخصوص محافظوں میں ایک مسلمان مہتر بھی شامل تھا جس نے راجہ شیواجی کی جان بھی بچائی تھی ہم اس واقعہ کی تفصیل شیواجی سے مسلمانوں کی شدید محبت کے موضوع پر لکھی گئی باتوں کے وقت بتلائیں گے۔ شیواجی کے ایک قریبی نوکر کا نام قاضی حیدر تھا۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ ’’ سالیری‘‘ کی لڑائی کے بعد اورنگ زیب کی دکن میں تعینات فوج کے اعلیٰ افسروں نے شیواجی سے بہتر تعلقات قائم کرنے کی بات چیت کے لئے ایک برہمن وکیل کو روانہ کیا تھا اس کے برخلاف شیواجی نے مغلیہ فوج سے گفت و شنید کے لئے قاضی حیدر کو بھیجا تھا۔ 1660ء میں شیواجی نے جب رائے باغ کے قریب رستم زماں اور فاضل خاں کو شکست دی تو اس وقت ان کی فوج کا سردار سدی ہلال نامی مسلمان تھا۔ 1660ء میں جس وقت سدی جوہر نے نیپال گڑھ کے قلعہ کا محاصرہ کرلیا تو راجہ شیواجی کی فوج کے مشہور سپہ سالار نیتاجی پالکر کو اس مصیبت سے سدی ہلال اور اس کے لڑکے ہی نے نجات دلائی تھی۔ حالانکہ اس لڑائی میں سدی ہلال کا لڑکا زخمی ہوکر دشمن فوج کے ہاتھوں گرفتار بھی ہوگیا تھا‘ سبھا سدبھکر کے صفحہ 76کے مطابق شیواجی کی فوج کے ایک اہم سردار کا نام ’’ شاما خاں‘‘ تھا۔ مشہور مرہٹی مورخ ’راجواڑے‘ نے اپنی کتاب ’’ مراٹھوں کی تاریخ کے ذرائع‘‘ میں لکھا کہ شیواجی کے فوجی عہدیداروں میں نور خاں بیگ کے ساتھ ساتھ بہت سے مسلم سپاہی بھی شامل تھے۔ گرانٹ ڈف نے ا پنی کتاب مرہٹوں کی تاریخ میں لکھا کہ ’’ کوما جی نائک کے مشورے پر شیواجی نے اپنی فوج میں مسلمان سپاہیوں کو بھی شامل کیا ۔ شیواجی کے (اپنی) حکومت قائم کرنے میں یہ پالیسی بہت فائدہ مند ثابت ہوئی‘‘۔
شیواجی ہندو راجہ تھے۔ دیوتاؤں اور سادھو سنتوں کو وہ پوجتے تھے مگر انہوں نے کبھی مسلمانوں کا ’’ ہندو کرن‘‘ نہیں کیا اور نہ ہی وہ اسلام کے خلاف تھے۔ شیواجی نے ’’ سورت‘‘ کو دو دفعہ لوٹا لیکن ایک دفعہ بھی انہوں نے کسی مسجد کو نہیں گرایا۔ شیواجی نے جہاں ملک میں دیوتاؤں کے مندروں اور دیواستھانوں کے چراغوں کی بتیوں اور چڑھاؤں کا انتظام کیا وہیں مسلمانوں کے پیروں ‘ مسجدوں اور ان کے چڑھاؤں وغیرہ کو بھی جاری رکھا۔ شیواجی اور دور کے مراٹھے درگاہوں کو عطیات دیا کرتے تھے۔ مسلم پیر‘ فقیر اور اولیاء کو اعزاز دیا جاتا تھا۔ شیواجی ایک مسلم بزرگ یاقوت بابا کو مانتے تھے۔ مسلم مورخ خانی خاں نے بتایا کہ شیواجی نے اپنی فوج کے لئے یہ قانون بنایا تھا کہ جہاں جہاں ان کی فوج لوٹ مار کرنے جائے وہاں مسجدوں‘ قرآن شریف کو کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچائے۔ کسی بھی (مسلم) عورت کو تکلیف نہ پہنچے۔ اگر کسی کے ہاتھوں قرآن پاک لگ جائے اور ان کی حفاظت کرنے والا کوئی نہ ہو تو اس کی حفاظت شیواجی خود کیا کرتے تھے۔ شیواجی کے 2نومبر1669ء کے مراسلے کے مطابق شیواجی نے حکم دیا تھا کہ ’’جس کا جو مذہب ہے وہ اس پر عمل پیرا ہو۔ اس میں کوئی دخل اندازی نہ کرے۔ (بحوالہ : چھتر پتی شیواجی مہاراج کے خطوط) شیواجی نے اورنگ زیب کو جزیہ کے نفاذ کے خلاف ایک مراسلہ فارسی میں روانہ کیا تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ ’’ قرآن درحقیقت ایشور کا کلام ہے ‘ یہ آسمانی کتاب ہے اس میں ایشور کو دنیا کا ایشور کہا گیا ہے۔ صرف مسلمانوں کا ایشور نہیں کہا گیا ۔ کیوں کہ ایشور کے پاس ہندو اور مسلمان مساوی ہیں ‘ مسلمان مسجد میں اذان دیتے ہیں اور یہ ایک طرح سے خدا کی تعریف ہے اور ہندو بھی مندروں میں گھنٹہ بجا کر ایشور کی تعریف کرتے ہیں اس لئے ذات اور دھرم کی بنیاد پر ظلم کرنا ایشور کے ساتھ ظلم کرنا ہوگا‘‘
شیواجی مہاراج کو مسلمان بہت چاہتے تھے۔ تاریخ میں ایسے کئی واقعات موجود ہیں جنہیں دیکھ کر شیواجی سے مسلمانوں کی چاہت کا سبب معلوم ہوتا ہے۔ کلیان کے مسلم صوبیدار ملانا محمد کی ایک بہت ہی حسین و خوب صورت بہو کو شیواجی کے دربار میں پیش کیا گیا۔ ملانا محمد سے شیواجی کی سخت دشمنی تھی۔ شیواجی نے اس نوجوان اور حسین بہو کو دیکھ کر کہا ’’ مجھے اسے دیکھ کر اپنی ماں یاد آتی ہیں اگر میری ماں بھی اتنی حسین ہوتی تو کیا ہوتا‘‘۔ اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ میری ماں خوبصورت ہوتی تو میں بھی خوبصورت ہی ہوتا۔ اس خاتون کو شیواجی نے چوڑیوں اور چولی سے سرفراز کرکے باحفاظت واپس روانہ کردیا۔ شیواجی کو مسلمان اس لئے بھی پسند کرتے تھے کہ اس دور میں جنگوں اور معرکوں میں ہندو مسلمان حکمران اپنے زنان خانے ‘ نوکرانیوں‘ ناچ گانے والی عورتوں کو ساتھ رکھتے تھے۔ شکست کی صورت میں ایسے حکمرانوں کی عورتوں کی عصمت دری کی جاتی تھی اور انہیں لونڈی بنادیا جاتا تھا۔ شیواجی نے یہ سخت حکم جاری کردیا کہ کسی بھی قسم کی مہم اور جنگ کے وقت کسی بھی قسم کی عورتوں کو ساتھ نہ رکھا جائے۔ اور نہ ہی کسی عورت کو لونڈی یا غلام بنایا جائے ۔ موجودہ دور کے لیڈروں اور سیاست دانو ںکو جو اپنے آپ کو شیواجی کا وارث سمجھتے ہیں ان کے اس حکم پر عمل کرنا چاہیے۔
شیواجی کو بچانے میں اور شیواجی کا سوراج قائم کرنے میں بھی مسلمانوں نے قربانیاں دی ہیں کیوں کہ وہ شیواجی کو اپنا سردار ہی سمجھا کرتے تھے۔ مداری مہتر نے شیواجی کی جان بچانے کے لئے مسلمان ہونے کے باوجود بھی اپنی جان کی قربانی دینے کی کوشش کی تھی اور اس نے لوگوں سے صاف کہہ دیا تھا کہ شیواجی کی زندگی اس کی زندگی سے زیادہ اہم ہے اس دور میں مذہب پرستی نہیں تھی ۔ شیواجی کا داماد بابا جی نمبالکر خود مسلمان تھا’’ شیواجی کے ساتھ یہ ہمہ مذہبی واقعہ بھی ہوگیا تھا۔ شیواجی کی سات بیویاں اور دو لڑکے اور پانچ لڑکیاں تھیں ۔ شیواجی کے بڑے لڑکے نے اپنے والد کے خلاف بغاوت کردی تھی۔ یہ بغاوت دراصل شیواجی کی نوجوان ‘ کم عمر اور خوب صورت بیوی سُوریا بائی کے بیٹے راجا رام کو برسراقتدار لانے کی سازش کے سبب برپا ہوگئی۔ سمبھا جی کو رامائن کے رام کا کردار ادا کرکے کسی بن باس کو روانہ کرنے کے بجائے ضلع پونا کو روانہ کردیا گیا اور اس کا سوتیلا بھائی راجا رام دارالخلافہ ہی کا راجا بن گیا اور اس کی حکومت مرکزی وزراء کے ساتھ ’’ رائری قلعہ‘‘ میں قائم ہوگئی اور شیواجی کرناٹک فتح کرنے کے لئے روانہ ہوگئے۔ شیواجی کرناٹک کی فتح کے بعد واپس آکر مہاراشٹرا کو بھی اپنے دوسرے بیٹے راجا رام کے حوالے کرنا چاہتے تھے اور وہ ’’ خجی‘‘ صوبے کی فتح کے بعد اسے بڑے بیٹے سمبھا جی کو سونپنا چاہتے تھے۔ سمبھا جی نے دکن کے صوبیدار دلیر خاں کی باتوں میں آکر اپنے باپ کی دی ہوئی ریاست سے راہ فرار اختیار کی اور دلیر خاں کے ساتھ مل کر بھوپال گڑھ پر قبضہ کرلیا ۔ اپنی متعدد غلطیوں کے سبب بالآخر سمبھا جی کو قتل کردیا گیا۔
مشہور مورخ سرڈیسائی نے شیواجی سے مسلمانوں کی محبت کا ایک واقعہ لکھا ہے جس میں بتایا گیا کہ 1648ء میں بیجاپور سلطنت کی فوج کے لگ بھگ پانچ سو سے سات سو پٹھان سپاہی شیواجی کے پاس ملازمت کے لئے آئے۔ شیواجی کے ایک رفیق نے گوماجی نائک نے انہیں مشورہ دیا کہ ’’ یہ لوگ آپ کی ہر دل عزیزی سن کر آئے ہیں۔ اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اس مقصد کے ساتھ حکومت کرنا کہ صرف ہندوؤں ہی کو جمع کیا جائے اور دوسروں کو نظر انداز کیا جائے ناممکن ہے جسے راج کرنا ہے اسے ہر ذات اور ہر قوم کو اپنے اپنے مذہب پر قائم رکھتے ہوئے اپنے پاس جمع کرنا چاہیے‘‘ اورنگ زیب کی جانب سے شیواجی کے سب سے بڑے بیٹے سمبھا جی کا قتل خود اس کی بے شمار غلطیوں کا نتیجہ قراردیا گیا ہے۔ تاہم مشہور مورخ پروفیسر رام پنیانی نے سمبھا جی کے قتل کے لئے برہمنوں کو ذمہ دار ٹھہرایا کیوں کہ سمبھا جی کو برہمنوں سے سخت چڑ تھی اور دراصل برہمن سمبھا جی کے مسلمان صوبیدار دلیر خان سے قریبی تعلقات کو پسند نہیں کرتے تھے۔
شیواجی گھرانے کو برہمنوں اور ہندوراجاؤں سے زیادہ نقصان : –
جس فوج کی دشمن کو حاصل ہونے والی مدد سے اور جس فوج کے داؤپیج سے شیواجی مہاراج کو شکست قبول کرنا پڑی اور شرمناک صلح کے ذریعہ اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ آگرہ جاکر قید ہونا پڑا اس فوج کا سردار راجہ جئے سنگھ تھا جو دراصل ہندو راجپوت تھا۔ اور شہنشاہ ہند کا ملازم تھا۔ شیواجی سے کونڈانہ علاقہ کا قلعہ فتح ہوا۔ اس کا قلعہ دار ایک ہندو مانو سرے تھا جو لڑائی میں مارا گیا ۔ بعض مسلمان حکمرانوں اور بادشاہوں کے خلاف جاٹوں‘ مراٹھوں‘ راجپوتوں اور سکھوں میں جو بغاوت کا جذبہ پیدا ہوا ‘ اس میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ اس کی اصل وجہ مرکزی حکومت کا ان کے ساتھ سخت رویہ تھا۔ اس دور میں اپنے حاکم سے وفاداری کا تصور اتنا قوی تھا کہ ’’ ہم مذہبی‘‘ کا خیال نہ کرتے ہوئے سردار‘ جاگیردار‘ اور سپاہی اپنے حاکم کی خدمت کیا کرتے تھے۔
صوبے ’’ وائی‘‘ کے صوبیدار افضل خاں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے تلجا پور کا مندر توڑ دیاتھا مگر الزام لگانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اس نے اپنے دور میں برہمنوں کی جاگیریں جاری رکھیں۔ اورنئی جاگیریں بھی عطا کیں۔ افضل خاں کے ساتھ تلجا پور کے مندر کے انہدام کے وقت پلاجی موہتے‘ شنکر راؤ جی موہتے‘ کلیان راؤ یادو‘ نائیک جی سراٹے‘ ناگوجی پانڈھر‘ پرتاپ تاؤ مورے‘ کاٹے‘ باجی گھورپڑے اور سمبھاجی راؤ بھونسلے جیسے سردار بھی جو چپ رہے۔ شیواجی مہاراج کو اپنی حکومت قائم کرنے کے لئے نہ صرف مسلم حکمرانوں سے لڑنا پڑا بلکہ مرہٹوں کے خلاف بھی انہیں کئی لڑائیاں لڑنی پڑیں۔ شیواجی کی سب سے بڑی مشکل یہ تھا کہ بیجاپور کے مسلم حکمرانوں کے تحت بڑے بڑے مراٹھا سردار گھرانے بھی تھے۔ اور ان کے دلوں میں شیواجی کی کوئی عزت اور احترام نہیں تھا۔ گھور پڑے‘ ساونت دلوی‘ سرودے‘ نمبالکر جیسے کئی مراٹھا سردار شیواجی کے خلاف تھے۔ سوال یہ ہے کہ شیواجی اگر سخت ہندو راجہ تھے اور وہ مسلم حکمرانوں سے لڑائی ہندو دھرم ہی کے لئے کررہے تھے تو مراٹھا سردار ان سے نفرت کیوں کرتے تھے؟ مراٹھا مورخ سرڈیسائی کے بیان کے بموجب ان سرداروں کو یہ خوف تھا کہیں شیواجی ان کے پاس جو کچھ ہے اس سے انہیں محروم نہ کردے۔ جس وقت شائستہ خان نے مراٹھا علاقوں پر حملہ کیا اس وقت نہ صرف شمال کے ہندو سردار اس کے ساتھ تھے بلکہ مہاراشٹرا کے سوکھا جی گائیکواڈ‘ ونکر راؤ کاکڑے ‘ سنبھا جی راؤ پوار‘ سرجے راؤ گھاٹکے‘ کملوجی راؤ‘ جسونت راؤ کاکڑے‘ تربنک راؤ کھنڈاگلے‘ کنکوجی راؤ پوار‘ سرجے داؤ گھاٹکے‘ کملوجی راؤ‘ جسونت راؤ کاکڑے‘ تربنک راؤ کھنڈاگلے‘ کنکوجی راؤ گاڑے‘ انتا جی داوکھنڈگلے‘ وتاجی راؤ کھنڈگلے بھی اس کی مدد کررہے تھے۔ سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ شیواجی کے خاندان کے خونی رشتہ دار تربنک راؤ بھوسلے ‘ جیواجی راؤ بھوسلے ‘ پرسو راؤ بھوسلے جن کا تعلق بھوسلے خاندان سے تھا وہ شیواجی کے عزیز ہوتے ہوئے بھی ان کے خلاف تھے۔ سنڈکھیڑ کے وتاجی راؤ جادھو اور رستم راؤ جادھو بھی شائستہ خان کی فوج میں شامل تھے۔ ان تمام افراد کا تعلق شیواجی کی والدہ ’ بھیجاماتا‘‘ کے خاندان سے تھے ۔ جاگیر کی لالچ میں ’لونی‘ کے کرشنا جی کال بھوربھی شائستہ خان سے مل گئے تھے۔ بالا جی ہونب کو شیواجی سے زیادہ شائستہ خان کی قربت پسند تھی۔ اس دور میں مذہب اور وطن سے ہندو سرداروں کی یہ محبت تھی۔ رام چندر آمتے نے اپنی کتاب کے صفحہ27 پر شیواجی کی ذہنیت کے بارے میں لکھا کہ ’’ ان کا کام طاقتور رہنا‘ دوسرے کے قبضے سے کچھ چھین لینا‘ ڈاکے ڈالنا تھا‘‘ انہوں نے شیواجی کی ذہنیت کے بارے میں یہ بھی لکھا کہ ’’ ادھر کے حالات کی ادھر کے لوگوں میں مخبری کرنا‘ اور ادھر کے حالات کی ادھر کے لوگوں میں مخبری کرنا اور اس کے ذریعہ اپنے ہی علاقوں میں دشمنوں کی پذیرائی کرنا ان کاکام تھا‘‘ ۔ اس طرح یہ لوگ اپنے ہی ملک کو نقصان پہنچانے کاکام کیاکرتے تھے‘۔ ان کے لئے مذہب اور وطن کی کوئی اہمیت نہیں تھی اس کا ثبوت خود سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کی درخواست کے باوجود مرہٹوں کی ان کی مدد نہ کرنے کے فیصلے سے مل سکتا ہے۔ مرہٹوں اور ہندو راجاؤں نے سراج الدولہ اور ٹیپو کی مدد اسلئے نہیں کی کہ اس سے ان کو کوئی فائدہ ملنے والا نہیں تھا اور وہ فرنگی حکومت سے دشمنی لینا نہیں چاہتے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف مسلم حکمرانوں پر مندروں کو لوٹنے کا الزام ہے حالانکہ ہندو راجاؤں نے بھی بہت سے مندروں سے ہیرے جواہرات‘ زیورات اور خزانے لوٹے ہیں اور بعض راجاؤں نے اپنے مفادات کے لئے مندروں کو منہدم بھی کیاہ۔1791ء میں مراٹھوں نے شاردا(شری نگر) کے مندر لوٹتے ہوئے اس کی توڑپھوڑ بھی کی تھی۔ اسے بعد میں مسلمان حکمران ٹیپوسلطان نے تعمیر کروایا تھا۔ کشمیر کا ہرش دیوراجہ تو مندروں سے دھات حاصل کرنے کے لئے مورتیوں کو پگھلاتا اور مورتیوں کو پگھلانے سے قبل ان پر انسانی غلاطت اور پیشاب ڈال کر ان کے تقدس کو پامال کیاکرتا تھا۔ مگر کسی نے بھی اس کے دور میں کوئی فساد نہیں کیا۔ اس سے متعلق تفصیلات کلہان کی ’ راج ترنگی‘ نام کی کتاب میں موجود ہیں۔
مہاراشٹرا کے برہمنوں نے شیواجی مہاراج کی تاج پوشی کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ ہندو دھرم کے شاستروں کے مطابق راجہ بننے کا حق صرف برہمنوں اور کھشتریوں کو ہی حاصل ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ شک تھا کہ راجا شیواجی کھشتری نہیں تھے اور کچھ لوگوں کے مطابق چونکہ ان کی ابتدائی عمر میں چندر رسومات ہندو دھرم کے شاستروں کے مطابق ادا نہیں کی گئیں اس لئے وہ کھشتری باقی نہیں رہے۔ 11 سال کی عمر میں ان کے گلے میں ’’ مونج‘‘ (مقدس ڈوری) نہ ہونے اور نہ ان کی شادی ہونے کے باعث وہ راجہ نہیں بن سکتے تھے۔ مہاراشٹرا کے برہمنوں میں سے کوئی بھی برہمن راجہ شیواجی کی تاج پوشی کے لئے تیار نہیں تھا۔ پروفیسر رام پنیانی کے بیان کے مطابق تمام برہمنوں نے شیواجی کی تاج پوشی کی رسم انجام دینے کے انکار کے بعد کاشی (بنارس) کے برہمن گاگا بھٹ نے بہت سے انعامات کی لالچ میں ویدک طریقہ سے ان کی تاج پوشی اس شرط پر کی کہ شیواجی کی ذات کی کمی کے سبب انہیں اپنے ہاتھ کے انگوٹھے سے تلک نہیں لگائے گا بلکہ یہ رسم وہ اپنے پاؤں کے انگوٹھے سے پیشانی پر تلک لگا کر ادا کرے گا۔ راجا شیواجی نے اس رسم کی ادائیگی کے بعد گاگا بھٹ کے علاوہ دوسرے برہمنوں کو انعام و اکرام کے طور پر اتنا سونا دیا کہ انہیں قلعہ سے نیچے انعامات کو لے جانا دشوار ہوگیا تھا۔اس دور میں شیواجی کو نہ صرف برہمن ہی شودر یا کم ذات کا خیال کرتے تھے بلکہ خود ’’ کلی‘‘ کہلانے والے 96 مراٹھا کھشتری بھی انہیں کھشتری تسلیم نہیں کرتے تھے لوگ خود کو اونچی ذات کا سمجھنے والے ’’بھوسلے‘‘ نام کے مراٹھوں کو بھی کم درجے کا سمجھتے تھے۔ مختصر یہ کہ اونچی ذات والا برہمن ہو یا اونچی ذات والے مراٹھے۔ ابتداء میں تو وہ شیواجی کو راجہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔
پرانے زمانے میں فوجی عہدہ یا پیشہ ایک بہت ہی باوقار اور بااعتبار پیشہ تصور کیا جاتا تھا اس سے ذات پات ‘ فرقہ اور مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس دور میں راجہ مہاراجہ اور بادشاہوں میں کوئی فرقہ پرستی نہیں ہوا کرتی تھی۔ مہاراجہ پرتاپ سنگھ اور پرتھوی راج کی فوج میں مسلمان بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ خود شیواجی کے والد شاہ جی بیجاپور عادل شاہی خاندان کی حکومت میں ایک بڑے عہدے پر فائز تھے۔ شاہ جی کے خسر لکھو جی جادھو نظام شاہی کے منصب دار تھے۔

a3w
a3w