طنز و مزاحمضامین

بہوبیٹی

مظہرقادری

چنوبھائی اُس وقت سخت نالاں ہوتے جب کوئی اپنی بہوکی تعریف کرے۔وہ منہ پرہی بول دیتے ہیں کہ یہ جھوٹ کا لبادہ چھوڑواورحقیقت بولو۔تب ہرکوئی اپنی بہوکا دکھڑا شروع کردیتا۔پہلے زمانے میں ضروربہو بیٹی ہوتی تھی، لیکن آج کی تاریخ میں کوئی بہوبیٹی نہیں ہے بلکہ ہرایک برہنہ شمشیرہے جوگھرآتے ہی سب سے پہلے نندوں کاپتّا کاٹ دیتی، پھرشوہرکے بھائیوں کا اورپھرماں باپ کا۔اورکچھ ہی عرصے میں شوہر کو بالکل نہتاکردیتی اورخودکردہ گناہ شوہر کسی کو بول بھی نہیں سکتا کیونکہ شادی کے شروع ہی سے اسے حکم کی تعمیل کی عادت ہوجاتی اورہربات پر جی ہاں،جی اچھا، جو آپ بولے بولنا شروع کردیتے۔مردکا زرہ بکتر اورڈھال اس کے اپنے گھروالے ہوتے ہیں جواس کے سچے ہمدردرہتے جس سے اس کا خون کارشتہ رہتا لیکن جب وہ ان سے کٹ جاتاتومجبورہوجاتا۔وہ دور گزر گیا جب بہوئیں گھرجوڑنے کے لیے آتی تھیں۔اب توصرف گھرتوڑنے آرہی ہیں،اب ہرلڑکی خودمختاری اورآزادی چاہ رہی ہے، کسی کی بات سننا اس کو گوارہ نہیں ہے،وہ صرف اورصرف من مانی کرنا چاہتی ہے۔اس کے پاس تین خطرنا ک ہتھیارہوتے ہیں۔پہلا رونا،دوسرا بچوں کو باپ سے چھڑاکر میکے چلے جاکر باپ کو بچوں سے ملنے کو ترسانا،تیسرا کھانا نہیں پکانا اورمردگھٹنے ٹیک دیتا اورجائزوناجائز بات پر راضی ہوتے جاتا۔باہر بلیک میل کرنے والوں کو پولیس فوری پکڑلیتی اور سزا دلواتی ہے، لیکن رو زانہ ہرگھرمیں ہونے والی اس بلیک میلنگ کے لیے کوئی قانون یاسزا نہیں ہے۔پہلے زمانے کی بہوئیں خودبھی خوش رہتی تھیں اوراپنے سسرا ل والوں کو بھی راضی خوشی رکھتی تھیں لیکن آج کل کی بہوئیں نہ خودخوش ہیں نہ کوئی سسرال والے ان سے خوش ہیں۔یہ لوگ اس بات کو نہیں سمجھ رہے ہیں کہ زندگی سائیکل کا پہیہ ہے، آج بہوکے روپ میں اوپر رہتا اورکل ساس کے روپ میں نیچے آجاتا۔ یعنی یہ لوگ جوآج اپنی ساس کے ساتھ بُراسلوک کررہے ہیں کل وہ ان کی زندگی کاحصہ بننے والا ہے جو کھلی حقیقت ہے۔بہوسے ساس بننے تک کا سفرپھربھی طویل رہتا لیکن فوری نتیجہ یوں سامنے آتا آپ اپنے شوہر کی بہنوں کو گھرمیں نہیں آنے دیتی۔آپ کے بھائی کی بیوی آپ کو اپنے گھرنہیں آنے دیتی، آپ اپنی بھاوج کو منہ نہیں لگاتی،آپ کی نند آپ کومنہ نہیں لگاتی،آپ اپنے ساس سسرے کو بے عزت کرکے گھرسے نکال دیتی،آپ کی بھاوج آپ کے اماں باوا کو بے عزت کرکے گھرسے نکال دیتی،آپ اپنے مردپر زبردستی کرکے اس کے اماں باواکا گھراپنے نام پر کرلیتی ہیں،آپ کی بھاوج آپ کے اماں باوا پر زبردستی کرکے ان کا گھر اپنے نام پر کرلیتی۔پہلے زمانے میں آپ اپنے ساس سسرکے ساتھ ہنستے بولتے ان کے گھر میں رہتے تھے اورآپ کے اماں باوا اپنی بہوبیٹی کے ساتھ اپنے گھرمیں ہنسی خوشی رہتے تھے، لیکن جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
بہوئیں توفسادکی ڈالیاں ہیں، اصل فسادکی جڑاماں ہوتی ہے۔پہلے زمانے کی اماں اپنی بیٹی کورخصتی کے وقت بولتی تھی اِس گھر سے تمہاری ڈولی اٹھ رہی اورسسرال کے گھرسے ہی تمہاراڈولااٹھے گا۔لیکن آج کی مائیں بچی کو یہ نصیحت کررہی ہیں کہ وہ سسرال میں سب کاڈولااٹھالے۔ آ پ اپنی بیٹی کو دوسروں کا گھراجاڑنے بھیجے تودوسری آپ کی ہم خیال خاتون اپنی بیٹی کو آپ کاگھراجاڑنے کی ترغیب دے کر بھیجتی ہے۔آج کی اماں اپنی بیٹی کویہ درس دے رہی ہے کہ جتنا جلد ہوسکا میاں کو لے کر الگ ہوجاؤ،اگرمیاں باہر ہے توفوری باہر چلے جاؤ تاکہ یہاں رہ کر ساس سسرے کی خدمت نہ کرنا پڑے۔پہلے زمانے کی اماں اپنی بیٹی کو بولتی تھی میاں اورسسرال والوں کا خیال رکھو۔آج کی اماں بول رہی ہے پہلے اپنا خیال رکھو۔کبھی اچھی روٹی اورچائے مت بناؤ ورنہ ساری زندگی چولہے خانے میں گزرجاتی۔آج کل کاگھریلو اورازدواجی ماحول اتنا گھٹیا ہوگیا ہے کہ کوئی کسی سے خوش نہیں ہے۔بیوی سے میاں بیزارہے،اماں سے باوابیزاہے،ساس سے سسرے بیزارہے۔ایک بارایک ساس اپنے تینوں دامادوں کو اُس سے کتنی عزت اورمحبت ہے، آزمانے کے لیے پہلے دن پہلی بیٹی اوردامادکے ساتھ پکنک پر گئی اوردریا میں گرگئی توداماد فوری دریا میں کود کر ان کی جان بچاکر نکال لیا توساس خوش ہوکر اسے نئی کا رانعام میں دلادی۔دوسرے دن دوسری بیٹی اورداماد کے ساتھ تفریح میں جاکر پھرتالاب میں گرگئی تودوسرا داماداپنی جان پر کھیل کر اس کو بچالیا توساس خوش ہوکر اس کوانعام میں ایک موٹرسیکل دلادی۔پھرتیسرے دن اپنی تیسری بیٹی اورداماد کے ساتھ پکنک پر جاکر وہی حرکت کی اورتالاب میں گرگئی توتیسرے دامادنے سوچا کہ پہلے دامادنے جب ساس کی جان بچائی تواسے کارملی دوسرے دامادنے جب جان بچائی تواسے موٹرسیکل ملی اب اگروہ ساس کی جان بچائے گا توشاید اسے سیکل انعام میں ملے گی اورسیکل کے لئے کیوں اپنی جان داؤ پر لگاؤ ں سوچ کر تیسرا داماد انجان ہوگیا اورساس تالاب میں ڈوب کر مرگئی۔وہ گھرآکر سوگیا دوسرے روزصبح اٹھا توگھرکے سامنے نئی چمچماتی ہوئی مرسڈیز کارکھڑی ہوئی تھی اوراس پر ایک کارڈ لگاہواتھا جس پر لکھاتھا سسرے کی طرف سے انعام۔
آج ہم سب اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی دوزخ بناکر جی رہے ہیں۔ہم جوگڑھا دوسروں کے لیے کھودرہے ہیں تھوڑے ہی عرصے میں ہم خوداس گڑھے میں گررہے ہیں، لیکن ہماری آنکھ نہیں کھل رہی ہے۔خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ ایسی بہوئیں ابھی کم ہیں لیکن برائی کی وجہ سے ہمیں سماج میں زیادہ نظرآتی ہیں ورنہ بیٹی کے روپ کی آج بھی بہت ساری بہوئیں ہیں جونہ صرف خودکے لیے بلکہ گھروالوں کے لیے بھی باعث فخرہے اوراپنے ماں باپ کا نام روشن کررہی ہیں۔قسمت والے ہیں وہ ماں باپ جن کی بیٹیاں شادی ہوکر بہو بن تی ہیں اوراس سے زیادہ قسمت والے ہوتے ہیں وہ ساس سسر جن کی بہوئیں بیٹیاں بنتی ہیں۔٭٭٭

a3w
a3w