سیاستمضامین

عفونت زدہ گٹر جیویمذہبی فسطائی دوکوڑی کااہنکار

فرقہ پرستوں کو غور کرنا چاہیے کہ یہ بغض و عناددیس کے مفاد میںبالکل بھی نہیں ہے لیکن یہ اوپن سیکرٹ کو ان کی کھوپڑیوں میں۔۔۔جن پر اقتدار کے متلاشی گدھ تالے ڈال بیٹھے ہیں۔۔۔ڈالنے کی ضرورت دن بہ دن بڑھتی چلی جارہی ہے۔ملک کی ترقی اور وِکاس امن سکون اور شانتی کے واتا ورَن میںہی ممکن ہے۔اعلیٰ وَادنی جاتیوں میں تقسیم کیا گیا یہ بھارتی سماج کا ذمہ دار کون ہے ؟ اور کیا یہ ملک کے مسلمانوں کی اور دین اسلام کی دین ہے!؟

ظفر عاقل

پلید فطرت پرجو پیدا ہوتے ہیں ان سے انسانی اقدار کی توقع عبث اور بیکار ہی ہوتی ہے۔نپور شرما اور جندل کے بعدعفونت زدہ مذہبی منافرت کے جوہڑ(گندہ تالاب)اورگٹر میں تلنگانہ کے ٹی راجہ نے بھی گنگا اشنان کیا ہے۔ملک کے مایہ ناز منصب پر بیٹھے پی یم مودی کو اب ثابت کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ ان کے بول اور بھاشن ہی بڑے نہیں ہوتے بلکہ ان کی نیتی اورایکشن بھی ان کی بلند بانگ لفّاظی کا جیتا جاگتا ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں۔RSS بھاگوت کے بیانات اورقول و فعل دراصل تضاد کی بربریت کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں اور اثرات بد بھارت کو بھوگنا پڑتا ہے؛لیکن یہاں بھی چپّی کا مون برت ہی سامنے آتا رہا ہے۔مثلاً ناری سمّان اگر صرف نعرہ نہیں ہے تب یہ کیوں کر ممکن ہے کہ بلات کاروں کی فوج ان کے ہاں بھرت ناٹیم میں جٹی ہوئی ہے اور ان پر کوئی مناسب ایکشن نظر نہیں آتا ہے۔یہی حال دین اسلام اور اس کی شخصیات کی کردار کشی سے متعلق بھی ہے۔راجہ کی معطلی کی نوٹس کا جائزہ لیجیے وہاں پر ایکشن کی وجہ واضح نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ کتنے ہی انسانیت دشمن درندے دندناتے ہوئے درندگی پھیلاتے پھر رہے ہیں کیوں کہ مناسب اور موزوں کاروائی نہیں کی گئی ہے۔ہاتھی دانت دکھانے اور کھانے کے ایک نہیں ہوتے ہیں۔
جن کے گھر کانچ کے ہوتے ہیں ان کو شوبھا نہیں دیتا کہ وہ مخالف کے اونچے دیدہ زیب مفید انسانیت محلوں پر پتھروں سے پریہار کریں۔لوک کتھاؤںکی رس ملائی نیز واقعیت کے ثبوت کی عدم موجودگی میں جو کچھ بھی پروسا جاتا ہے ان میںزمین کے ٹکڑوں کے لیے انسانی جانوں کے اتلاف‘ راجاؤں کی آپسی لڑائیوں اوربنی نوع انسان کی طبقاتی تقسیم اور اونچی ذات کے تفوق اور ادنیٰ کہے جانے والے طبقوں کی تذلیل کے سوا دھرا کیا ہے تحقیق طلب ہے؛اور جو کچھ قابل تذکرہ اگرہے بھی تب اس کومکھوٹے کے بغیر پیش کرنے کی ضرورت آج کے آدھونک کال میں اور بھی بڑھ جاتی ہے۔قدیم بھارتی سنسکرتی کو پسند اور لاگو کرنے کے مشتاق فسطائی بھگوائیوں کو ایک چیلنج تو یہ بھی درپیش ہے کہ وہ علی الاعلان منو واد کو پیش بھی نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ وہ انسانی اقدار و سماجی برابری کے مغائیر ہے۔ہزار ہا سال کی راگنی میں کتنے دور اکھنڈ بھارت کے رہے ہیںاس حقیقت کو کھول دیتا ہے کہ اکھنڈتا کا نعرہ مستانہ آج دراصل اقتدار ہتیانے کا صرف ایک بہانہ ہی ہے ۔ورنہ وہ اکھنڈتامیں شامل تمام ممالک پر اپنے دعوی پیش کرنے کی جرأت اور مردانگی دکھائی جاتی اور بھارت کے 140کروڑلوگ کا ساتھ ملتا ۔ چنانچہ دین اسلام اور اس کی برگزیدہ شخصیات پر حرف گیری کرنے والے مخنس(Impotent)فطرت شیکھنڈیوں کو غیر انسانی وَ غیر اخلاقی ان حرکات سے پرہیز کرنا چاہیے۔ہاں یہ مناسب وَموزوں ہوسکتاہے کہ وہ علمی وَمتلاشی انداز میں مناسب فورمس میں علمی بحث و مباحثہ کا مطالبہ کریں۔اور جواباً خود پرکیے جانے والے استفسارات کے جوابات کے لیے تیاربھی رہیں ۔چند ایک ماہ و سال کے ہاتھوں میں آئے اقتدار کے برہم میںبرہمانڈ کے خواب دیکھنا یاان نظریات کی بنیادوں پرکسی شوریدہ شعور بڑبولے کے وشوگرو کی ڈینگیں مارنادراصل خراب ہاضمے کے لچھن وَخواب کے ماسوا کیا ہے۔
دستور ہند کو ساکشی مان کر حلف لینے والے تلنگانہ گوشہ محل کے رکن اسمبلی ٹی راجہ نے آنحضرتؐ اور ازواج مطہرات کے تقدس پرکی گئی لاف زنی ناقابل معافی اور قابل سزا ہے؛لیکن اسلام اور مسلمان دشمن مغلظات کا سلسلہ اس گٹرجیوی کی جانب سے کوئی نیا نہیں ہے؛حکومت ‘انتظامیہ اور پولیس شروع ہی گردن ناپ دیتی تو ریاست کو بدنامی سے بچایا جاسکتا تھا۔ بھگوا پریوار میں اس طرح کے کئی ایک عمداًسرگرم پالتو کو پٹہ باندھ رکھا گیاہے تاکہ ان کی نفسانی خباثتوںکے اظہار سے سیاسی فوائد بھی اٹھائے جاسکیں۔حیرت تلنگانہ حکومت وَانتظامیہ پر ہے کہ اس طرح کے معاملات پر کاروائی بھی از خود کیوں نہیں کرتی ہے اور کچھ بادل نخواستہ کیا بھی جاتا ہے تب عوامی انتہائی ردّعمل کے بعد کیا جاتا ہے اور جس طرح کے کارندے انتظامیہ میں بھرے ہوئے ہیں وہ کاروائی بھی اس طرح کرتے ہیں کہ دو ایک گھنٹوں میں خاطی و مجرم کھلا چھوٹ کر پھر اودھم مچانے لگتا ہے۔اس ہاتھی دانت طرز اور عمل سے کیا حکومت کی پالیسی اور کردار کھل کر سامنے نہیں آجاتا ہے۔پیغمبر اسلام کی شان اقدس میں گستاخی پرمسلمان اپنی جانیں نچھاور کردیتے ہیں یہ حکومت کے علاوہ موافق وَمخالف یقینا سب ہی جانتے ہیں۔چنانچہ پہلی بار منافقانہ کاروائی کے نتیجے میں ملعون راجہ دو ایک گھنٹوں میں پولیس کسٹدی کے باہر آگیا ؛یہ KCR/TRSحکومت ‘انتظامیہ اور پولیس کی ناکامی یا پوشیدہ سیاسی مفاد پرستی کا مظہرمانا جارہا ہے۔تاہم مؤثر وَمسلسل مسلم احتجاج کی وجہ سے پھر پی ڈی ایکٹ پر کاروائی کی جاکر اس کو سلاخوں کے پیچھے بالآخر اس کوڈھکیل دیا گیاہے۔اور اسی میں KCR/TRSکی سیاست کامیاب اور اقتدار باقی رہ سکتا ہے۔ملک کی سیاسی سیکولر پارٹیوں کواور تمام ہی اپوزیشن کوبھی اپنے موقتی سیاسی مفاد کو پرے رکھنا ہی ہوگا۔نظریاتیBJP/RSSکا مقابلہ ان ہی کے طرز کو اپنا کر کامیابی کے خواب دیکھنا دراصل بچپنا ہی ہے؛اصلاًناکامی کی دلیل ہے؛بلکہ سیاسی بلوغت سے دوری کا نتیجہ او رثبوت ہے۔۔۔بلکہ شیکھنڈی نیتی طرز کی نامردانگی ہے۔ فطرت سے ہم آہنگ بھائی چارہ کی نیتی کو بنیاد بنائے بغیر بھارت کو اور خود اپنے سیاسی وجود کو بچایا نہیں جاسکتا ہے۔
ہماری سیاسی پارٹیوں بالخصوص بھگوا گروپ میں انتخابی وعدوں کے نام پر ہر ممکن و ناممکن العمل کی جھڑی لگادی جاتی ہے اور حکومتیں بھی بن جاتی ہیں۔لیکن زاعفرانی بی جے پی مذہبی منافرت ‘طبقاتی تقسیم اور اسلام و مسلمان دشمنی کو بنیاد بنا کرہی زندہ رہ سکتی ہے۔بھگواپارٹی ہند ؤںمسلمانوںکو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا اور ورغلاکر ہندو پولورائزیشن کارڈ کھیل کر جیت کے ڈھیر لگاتی ہے اور حکومتیں تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کرتی آئی ہے ۔دنیا جانتی ہے کہ اہانت رسولؐ پر مسلمان کٹ مرجانے تیار ہوجاتے ہیں؛مسلم دشمنی کی تان اب پیغمبر ؐ اور ان کے خاندان اور انکے صحابیوں پر توڑی جارہی ہے۔حالانکہ حال میں نپور شرما اور نوین جندل کی عفونت زدگی کے سبب بھارت کو بین الاقوامی بدنامی کا سامنا کرنا پڑا ہے جب کہ مذکورہ ملعونوں پر اب بھی پارٹی اور حکومت کی چھتر چھایہ برقرار ہے؛گرفتاری تک نہیں ہوسکی ہے۔ متوقع اسمبلی انتخابات کی وجہ سے بی جے پی کے ٹارگٹ پراب تلنگانہ ہے۔اسی لیے امیت شاہ کے حالیہ دورے کے بعدسیاسی اقتدار کے حصول کی خاطر ٹی راجہ سنگھ کو سامنے لایا گیا ہے؛ محسن انسانیت پیغمبر آخر الزماں کے خلاف ویڈیو جاری کرکے پھر ایک بار اسلام دشمنی کا کھیل شروع کیا گیاہے۔اس انتخابی چتر بازی کو ردّ کرنے میںاپوزیشن ناکام اور عدالتیں خوابیدہ ہیں۔
غور طلب ہے کہ ان حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔دنیا جانتی ہے کہ یہ ملت توہین رسالت مآبؐ کو ذرّہ برابر بھی برداشت نہیں کرتی ہے۔ردّعمل کی جذباتیت ‘جوش و جنون اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ ردّعمل فطری بھی ہے اور عشق رسولؐ کا مظہر بھی ہے۔یقینا اس بابت مصلحت کے نام پر بزدلی وَرخصت کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔البتہ سیدھی اور سچی راہ کی جانب موڑا ضرور جاسکتا ہے؛اور یقینا یہ کرنا بھی چاہیے۔تاہم قانون کو ہاتھوں میں لینے‘بے قصوروں پر ظلم کرنے اور پبلک پراپرٹی اور غیر متعلقہ کی جائدادوں کو تباہ کرنے وغیرہ کی اجازت نہ دین دیتا ہے اور نہ ہی دیس ۔۔۔جو کہ ہمارا اپنا ہے اور اس کی غلامی سے آزادی کی نیو مسلمانوں نے رکھی ہے۔چنانچہ اس کا خیال رکھا جانامقاصد مطلوب کے مفاد ہی میں ہے۔ان تمام سے اعلیٰ وَارفع اورضروری طریقہ ایک اور یہ بھی ہے کہ ۔۔۔محسن انسانیتؐ کی سیرت و صفات عالیہ کو عام و خاص تک پہنچایا جائے تاکہ چودھویں کے چاند کی چاندنی اپنی تمام تر رفعتوں کے سنگ ناواقفوں اور بالخصوص سنگھیوںتک پہنچ جائے۔اور یہ اس لیے بھی کہ آنحضورؐ جتنے ہمارے اپنے ہیں ‘ اتنے ہی ان ناواقف اور مخالف فکر گم گشتہ راہ کے بھی ہیں۔استحضار دامن گیررہے کہ یہ وقت کا تقاضہ بھی ہے اور ملت کا منصبی فریضہ بھی ۔دنیا کی بھلائی اور آخرت کی فلاح و کامرانی بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔
ریاست بلکہ ملک بھر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی‘مذہبی رواداری اور بھائی چارہ کی فضاکی برقراری‘آپسی میل ملاپ اور گنگا جمنی تعلقات کی اُستوری اور آمرانہ فسطائی نظام سے گریز و روگردانی نیز سیکولر حکومتوں اور ان کی ساکھ کی پائداری ازبس ضروری ہے۔لیکن ان امور کی ذمہ داری کسی ایک پر نہیں بلکہ ہر دیس پریمی کے کاندھوں پر ہے کہ وہ ملک کو تباہی سے بچانے کے لیے منووادی فسطائی بھگوا فکر کو بھگانے کے اہم کام کوسر انجام دے۔مسلمانوں کے لیے اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ ان کے جائز حقوق کے حصول اوران کے اور ان کی آنیوالی نسلوں کے وجود و بقا سے منسلک معاملہ ہے۔ان ضروری ظاہری امور کے ساتھ مسلمانوں کا اپنے دین دھرم کی مکمل تابعداری کے بغیرممکن ہے ہی نہیں؛اور یہ حقیقت مسلمان جتنا جلدی جان جائیں اتنا ہی انکی دنیا وَآخرت کے مفاد میںہے۔
فرقہ پرستوں کو غور کرنا چاہیے کہ یہ بغض و عناددیس کے مفاد میںبالکل بھی نہیں ہے لیکن یہ اوپن سیکرٹ کو ان کی کھوپڑیوں میں۔۔۔جن پر اقتدار کے متلاشی گدھ تالے ڈال بیٹھے ہیں۔۔۔ڈالنے کی ضرورت دن بہ دن بڑھتی چلی جارہی ہے۔ملک کی ترقی اور وِکاس امن سکون اور شانتی کے واتا ورَن میںہی ممکن ہے۔اعلیٰ وَادنی جاتیوں میں تقسیم کیا گیا یہ بھارتی سماج کا ذمہ دار کون ہے ؟ اور کیا یہ ملک کے مسلمانوں کی اور دین اسلام کی دین ہے!؟ اس پر اسرار حقیقت کو وہ سمجھیں؛اور دو چار فیصد اعلیٰ ذاتوںکی حکمرانی اور دیس کے دھن دولت پر ‘تمام وسائل مملکت پر ان کے قبضے کو پہچانیں ‘اور جانیں کے ان امور میں مسلمانوں کا کیا کوئی رول بھی شامل ہے؟مسلمانوں کی ہزار سالہ حکمرانی کا حاصل کیا ملک کو وشو گرو بنانے میں ‘اورترقی یافتہ اکھنڈ بھارت بنانے میںسرف نہیں ہوا ہے؟چنانچہ ملک کے مفاد میں ہندو مسلم بھائی چارہ از بس ضروری ہے۔
عدل وانصاف اور اصول پسند غیر مسلم فرد و سماج اور ان کے باشعور تعلیم یافتہ گروہ کی ذمہ داری تقاضہ کرتی ہے کہ وہ ان سنجیدہ موضوعات پر دیس ہت میں سنجیدہ غور کریں‘ تولیں اور پرکھیں ۔بھارتی تہذیب وَسنسکرتی عموماً بھائی چارہ اور میل ملاپ کی دھروہر(ورثہ) رہی ہے۔اور اس میں کبھی بگاڑ اور تباہی آئی ہے تب یہ مفاد پرست اعلیٰ ذات کی نیچ کاریگری رہی ہے۔دیارَہند میں جنمے بدھ مت کا دیس نکالا ایک اعلیٰ ذات برہمن پُشیہ مترا شونگھا(185-149ق م) کی مفاد پرستی اور ملک وَاقتدارپر قبضہ کرنے کی سازش رہی ہے جس نے سپہ سالار رہتے ہوئے اپنے ہی راجا کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر اشوک آعظم کی موریا سلطنت کو ختم کردیا تھا؛اور اپنا راج پاٹ قائم کیا تھا؛ اور اس کے لیے آج کی طرح بقیہ جات برادری کا بے دریغ استعمال کیا تھا۔مسلمان اور دین اسلام اس بھارت کی مٹی کا حصہ ہیں۔دو پانچ فیصد مسلم مرزا سید پٹھان جو صدیوں سے یہیں پیداہوتے آئے ہیں کے علاوہ بقیہ برادری ایک ایشور کی تلاش میں مسلمان ہوگئی ہے اور اس کا انہیںانسانی حق بھی ہے تب دشمنی کی بنیاد باقی ہی نہیں رہتی ہے۔اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے۔نیز بھارت کی بین الاقوامی شبیہ کے خسارے اور بدنامی کے خمیازے سے بچنا چاہیے۔باہر کی دنیا میں اندر کے بھارتیوں کی گردنیں ان لچھنوں سے شرمسار ہی ہوتی رہیں گی۔سرمایہ کی آمد اور وکاس کا ناش ہوگا۔کیا بھارت کی بیٹی امریکہ کی نائب صدرKamla Harrisان کارناموں کو دہرانے میں فخر محسوس کرے گی۔بلکہ خودبھگوا پریوار بشمولBJP/RSSپر لازم ہے کہ وہ اپنے انداز سونچ وفکر میں تبدیلی لائے۔ضرور انہیں حق حاصل ہے کہ وہ راج پاٹ کریں لیکن انہیںدیس کے مفاد میں اپنی فکر تبدیل کرنا لازمی اورضروری ہے۔جس دستور اور سیکولر سیڑھی کو استعمال کرکے وہ لال قلعہ کی فصیل پر وہ چڑھ بیٹھے ہیں اسی کی لاج رکھ لیں؛اور اپنے ظاہر کی طرح اپنے باطن کو بھی بنا لیں۔انہیں یاد رکھنا ہوگا کہ وقتی کامیابی پائدار نہیں ہوتی ہے چنانچہ وہ اپنامذہبی منافرتی تانڈو جس کی وجہ سے وہ چھٹے سانڈ بنے دندناتے منہ مارتے پھررہے ہیں وہ فطرت کے خلاف ہونے کی وجہ سے جلد ہی ختم ہوجائے گا۔ بودھ نسل کش شونگھاکی حکومت بہت جلد ختم ہوگئی تھی چنانچہ آج زائد از دو ہزار برس بعد وہ پھر پُشیہ مترا شونگھا بننے کی کوشش نہ کریں۔
مسلم ائمہ علماء تنظیموں تحریکوں اور تمام ہی اجتماعی ہئیتوں کے ذمہ داروں نیز با شعورعقل و فہم و ذکا دانشوروں کااپنے مقام بلند کا لحاظ اور سنجیدہ غور وفکر و تدبر کیا اب بھی ہانکے پکارے دعوت نہیں دے رہا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر ہوں۔موقتی زندگی کا ثبوت دے کر اپنے حجروں اور دفاتر میں قید بند قیام پر لمبے عرصہ پر چلے جانے کے شیوہ کو ترک کرنا وقت کی اہم ضرورت اور دینی تقاضہ ہے۔علم و فہم کی جتنی جس کو فراہمی ہوتی ہے پکڑ اور پوچھ بھی اس سے سوا ہی ہوتی ہے اور وہ یہ تمام جانتے ہی ہیں۔مسلک اور فطری فرقہ بندی۔۔۔ جس کی اسلام میں اجازت ہوسکتی ہے۔۔۔ وہ آپسی سرپٹھول کا سبب ہر گز نہیں بننی چاہیے؛لیکن وائے افسوس کہ یہی ان تمام کی ذات اقدس کی کرامات کامظہر بن کر سامنے ہے۔ایک دین ایک خدا اور ایک رسول نیز کلمہ و قبلہ جیسی بے شمار سوغات جس ملت کو عطائے ربّانی شکل میںحاصل ہے۔۔۔اس کی ناقدری کے عذاب سے ڈرنے اور کانپنے کی ضرورت کیا ختم ہوگئی ہے۔یہ دین جو امانت برائے انسانیت ہے اور ذیشان نبی محترمؐ جو نبی آخر بھی ہیں اور رحمۃ للعالمینؐ بھی ہیں کیا ان کی سیرت و صفات کو بندگان خدا تک پہنچائے بغیر رضائے رب کا حصول ممکن بھی ہے!؟۔دیار ہند میں عرب تاجروں اور اولیائے عظام اسی عظیم الشان ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں اپنا پل پل پگ پگ اور جَن جن اورتمام ہی جاتیوں تک پہنچاتے رہے ہیں۔تبھی تو اس دیارپر انوار کی بارشیں ہوتی رہی ہیں جن کا ثبوت خود ہم اور ہماری سابقہ وَ موجودہ نسلوں کا وجود ہے۔چاہے وہ ٹی راجہ سنگھ جیسا سنکی ہو یا نپور و جندل یا بھگوت و بھگوا پریوارنیز مودی شاہ کی جوڑی کی جانب سے لائی گئی آفتیں اور نفرت و منافرت بھراماحول ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔یہ تمام ہمارے تغافل و فرار اور منصبی و دینی فریضہ سے عدم تعلق کے مظاہر ہ ہی ہیں۔تلخ کلامی کی یقینا معذرت ‘ لیکن بڑی بیماری کے سدھار کے لیے کیا کڑوی دوا غیر ضروری نہیں ہوتی ہے۔
ملت کے نوجوان امید صبح نو کی نوید بھروسہ اور آسرا ہوتے ہیں۔یقینا یہ اپنے دنیوی کیریر کے سجانے اور سنوارنے میں بے حد سنجیدہ بھی ہیں ؛اور ان کے والدین ان کو ان ہی امور میںالجھائے ہوئے بھی ہیں۔لیکن جو علم ان کو عطا ہوتا جارہا ہے کیا اس کا تقاضہ نہیں ہے کہ وہ اپنی دینی وسماجی ذمہ داریوںکی طرف بھی توجہ دیں۔قیادت کے اس فقدان اور بحران میں یقینا اس کی اہمیت اور ضرورت اشد ہوجاتی ہے۔دنیا بنانے میں اپنی توانائی کے آخری قطرے کو نچوڑنا ہی اگر مقصد زندگی بن جائے تب دیر سویر ان کو اپنی تہذیب و مذہب بھی تیاگنا ہی پڑے گا۔اس کا انجام اس کے سوا کیا ہوگا کہ کسی ایک دَور میں کوئی پیدا تو(برائے نام ہی سہی) مسلم ہوگا لیکن اس کی نسل اس جیسی باقی نہیں رہے گی؛اور آخرت کی پوچھ و پکڑ کا معاملہ بھی درپیش ہوگا۔چنانچہ لازم ہے کہ وہ اپنی زندگیوں میں توازن لائیں اور دین و دنیا دونوں کے تقاضوں کو حق ادا کریں۔
لکھیم پوری بربریت کے ماسٹر مائنڈ کی جانب سے کسان نیتا کو دوکوڑی کا بتایا جانا اوراونچی قیمتی کاروں کے مسافروں پر سڑک کے کنارے بھوکتے کتّوں سے تشبیہ دینا ضرور یہ بتا رہا ہے کہ فسطائی بھگوائی سونچ فکر کا دائرہ اور نشانہ صرف مسلمان ہی نہیں ہیں بلکہ سوائے اعلیٰ جات برادری کے تمام ہی اس قطار میں لائن حاضر کرویے جائیں گے۔اس عفونت زدہ دو کوڑی کے اہنکار بلکہ دو کوڑی سے بھی کم ترانسانی تفریق و تذلیل بھرے ان نظریات کو سمجھنے کی ضرورت بشمول مسلمان تمام ہی بھارتیوںکوہے۔اوراسی میں بھارت اور بھارتیوں کی بھلائی مضمر ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w