سیاستمضامین

کرناٹک میں فرقہ پرستی کی کراری شکست‘ نتائج سکون بخش

رام پنیانی

کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج نہ صرف سکون بخش ہیں بلکہ یہ ملک کو ایک کرنے اور ہندوستان کے دستور کی اقدار کو دوبارہ قائم کرنے کی مہم کا آغاز بھی ہوسکتے ہیں۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ملک کے اتحاد اور ہمارے دستور دونوں پر ہی پچھلے کئی سالوں سے خطرے کے بادل منڈلارہے ہیں۔
2018ء میں کرناٹک میں منعقدہ انتخابات میں بی جے پی کو 104، کانگریس کو 80 اور جے ڈی (ایس) کو 37سیٹیں ملی تھیں۔الیکشن کے بعد کانگریس اور جے ڈی ایس نے مل کر حکومت قائم کی تھی جسے ’’آپریشن کنول‘‘ (جو بی جے پی کی جانب سے منتخبہ عوامی نمائندوں کو خریدنے کے عمل کا نام ہے) کے تحت گرادیا گیا اور ریاست میں بی جے پی نے اپنی حکومت بنالی۔ اس بار کانگریس کو 135 سیٹیں اور 43فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ صرف65سیٹوں اور 36 فیصد ووٹ کے ساتھ بی جے پی اس سے کافی پیچھے ہے۔
کرناٹک میں بی جے پی نے بابا بڈھن گری درگاہ (ایک صوفی مقدس مقام جس کے ہندو مٹھ ہونے کا دعویٰ کیاگیا تھا) اور ہبلی کے عیدگان میدان جیسے مسائل کے آس پاس سیاست کرکے اپنے لیے جگہ بنائی تھی۔ اپنی حکومت کے دور میں بی جے پی نے وہاں رام مندر، گائے بیف اور لو جہاد جیسے اپنے پرانے موضوعات کے علاوہ، حجاب، اذان اور حلال جیسے نئے موضوعات بھی اچھالے۔
بی جے پی کو انتخابات میں فائدہ پہنچانے کے لیے جھوٹ، سفید جھوٹ اور صرف جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا فلم ’’دی کیرالا اسٹوری‘‘ کو رائے دہی سے عین قبل ریلیز کیا گیا۔ اس فلم کی شان میں وزیراعظم تک نے قصیدے پڑھے۔
ہمیشہ کی طرح بی جے پی نے اس بار بھی ’’مودی کے جادو‘‘ کو اپنی انتخابی مہم کی اہم بنیاد بنائی۔ وزیراعظم اور امیت شاہ نے کرناٹک میں کافی عرصہ گزارا اور ڈھیر ساری ریالیاں روڈ شوز اور جلسے کیے۔ جس وقت بی جے پی زیراقتدار منی پور بھیانک تشدد کی گرفت میں تھا، وہاں پچاس لوگ مارے جاچکے تھے، ہزاروں بے گھر ہوگئے تھے اور کئی چرچوں کو زمین دوز کردیا گیا تھا، اس وقت پارٹی کے یہ دونوں اعلیٰ قائدین کرناٹک میں انتخابی مہم میں مصروف تھے۔ اس مدت میں وزیراعظم نے منی پور میں قیام امن کے لیے ایک بھی اپیل جاری نہیں کی اور نہ ہی انہیں وہاں بھڑکے تشدد کی آگ کو بجھانے کے لیے ریاست کا دورہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
الیکشن سے عین قبل انہوں نے یہ جھوٹ بھی پھیلایا کہ میسور کے مقبول حکمراں ٹیپو سلطان 1799ء میں چوتھی اینگلو میسور جنگ میں انگریزوں کے ہاتھوں نہیں مارے گئے تھے بلکہ دو ووکالیگائوں نے ان کا قتل کیا تھا۔ اس کا مقصد تھا اسلاموفوبیا پھیلانا اور ووکالیگاطبقہ کی حمایت حاصل کرنا۔ تاریخ کو اسی طرح توڑمروڑ کر بی جے پی نے شمالی ہندوستا ن میں کئی ریاستوں میں ووٹوں کی بھرپور فصل کاٹی ہے، مگر تاریخ کو مسخ کرکے اس کا استعمال فرقہ پرستی پھیلانے کے لیے کرنے کا بی جے پی کا پرانا کھیل کرناٹک میں نہیں چلا۔
کرناٹک میں انتخابات سے قبل ملک میںکئی بڑی سماجی تحریکیں ہوئی تھیں۔ مرکز کی بی جے پی حکومت کی جانب سے مجوزہ تین زرعی قوانین کے خلاف آزادی کے بعد کسانوں کی سب سے بڑی تحریک چلی تھی۔ اسی مدت میں قومی شہریت رجسٹر (این آر سی) اور شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے ذریعہ مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی کوشش بھی ہوئی۔ اسی پس منظر میں کانگریس کے راہول گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا نکالی۔ یہ یاترا کافی کامیاب رہی اور کسان اور شاہین باغ تحریک کے ساتھ مل کر اس نے ملک کا مزاج اور موڈ کو بدل دیا۔ یاترا میں نفرت کو بھگانے اور محبت کو جگانے کی بات کہی گئی۔ بے ایمان سرمایہ داروں سے بی جے پی کے قریبی تعلقات کا انکشاف کیا گیا اور بڑھتی غربت، بھوک، بے روزگاری اور دلتوں، خواتین اور قبائلیوں سے متعلق مسائل اٹھائے گئے۔
اس یاترا نے یقینی طور پر راہول گاندھی کی شبیہہ کو بدل دیا۔ انہیں ’’پپو‘‘ کہہ کر ان کا مذاق اڑانے والوں کو بھی سمجھ میں آگیا کہ وہ ایک انسانیت نواز لیڈر ہیں جن کے سروکار عام آدمی کے مسائل ہیں۔ وہ ان سیاستدانوں میں سے نہیں ہیں جو دن میں کئی بار کپڑے بدلتے ہیں اور اپنی چوڑی چھاتی کے گیت گاتے ہیں۔
کانگریس نے ریاست کے لوگوں سے جو وعدے کیے وہ بے روزگاروں، خواتین اور غریب طبقہ کی فلاح و بہبود سے متعلق تھے۔ موجودہ حالات میں بھی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارٹی نے بجرنگ دل اور پی ایف آئی ( جو کالعدم ہے) یکساں قرار دیا اور کہا کہ نفر ت پھیلانے اور تشدد پھیلانے والی تنظیموں پر پابندی عائد کی جائے گی۔
مودی اینڈ کمپنی بس ایسے ہی موقع کے انتظار میں تھی۔ نریندر مودی نے فوری اس مسئلہ کو پکڑ لیا۔ انہوں نے کہا کہ اعلان کیا کہ پہلے کانگریس نے بھگوان رام کو جیل میں رکھا اور اب وہ بھگوان ہنومان کے ساتھ یہی کرنے جارہی ہے۔ انہوں نے سپردگی اور طاقت کی علامت بھگوان ہنومان کو بجرنگ دل سے جوڑدیا۔ ایک ایسی تنظیم سے جس کا انتخابی منشور تشدد کے راستے ہندو انقلاب پر زور دیتا ہے اور اس کے کئی قائدین اور کارکنوں کا نام تشدد سے جڑے معاملات میں سامنے آتا رہا ہے۔ وہ اپنے جلسوں کے آخر اور شروع میں ’’جئے بجرنگ بلی‘‘ کا نعرہ بلند کرنے لگے۔
کئی لوگوں کا خیال تھا کہ کانگریس نے تفرقہ پسند موضوعات کو اچھالنے میں ید طولیٰ رکھنے والے لوگوں کو ایک نیا مدعا دے دیا ہے۔ مگر آخر کار ثابت یہی ہوا کہ کانگریس کا یہ جراتمندنہ فیصلہ صحیح تھا اور اس نے بی جے پی کے فرقہ وارانہ مہم کی ہوا نکال دی۔ کانگریس قائدین نے بھگوان ہنومان کا تقابل بجرنگ دل سے کرنے کو ہنومان جی کی توہین قرار دیا اور رائے دہندوں کو یہ صحیح لگا۔
کانگریس نے عوام الناس سے جڑے مسائل کو اٹھایا، وہیں بی جے پی نے فرقہ پرستی کے کھیل کا سہارا لیا۔ انتخابی نتائج کے تجزیہ سے پتا چلا ہے کہ کانگریس کو غریب، نچلی ذاتوں اور دیہی رائے دہندوں کی بھرپور حمایت حاصل ہوئی جبکہ بی جے پی کا ساتھ دینے والوں میں شہری، اعلیٰ ذات کے اور دولتمند رائے دہندے تھے۔ کئی تجزیہ نگار لنگایت اور ووکالیگا طبقات کے ضمن میں نتائج کا تجزیہ کررہے ہیں، مگر ایسے لگتا ہے کہ بی جے پی کو پسند کرنے والوں میں اعلیٰ ذات کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھی آمدنی والے مرد رائے دہندوں کی اکثریت ہے۔
بہرحال یہ پکا ہے کہ ان انتخابی نتائج کا ہندوستانی سیاست پر گہرا اثر پڑے گا۔ راہول گاندھی اور کانگریس کی شبیہہ بہتر ہوگی او ران کا حوصلہ بڑھے گا اور یہ بھرم ٹوٹے گا کہ مودی اور بی جے پی ناقابل تسخیر ہیں۔ اگر کرناٹک میں جو کچھ ہوا، اس کے معنی عوام الناس تک ٹھیک ڈھنگ سے پہنچائے جائیں تو اس سے فرقہ پرستی کا بول بالا کم ہوگا۔
ایک اور بات جو واضح ہوگئی وہ یہ ہے کہ اگر عام انتخابات میں بی جے پی اور کانگریس میں راست مقابلہ ہوتا ہے تو بی جے پی کو دھول چٹائی جاسکتی ہے۔ ان نتائج سے ان لوگوں کو حوصلہ ملے گا جو مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک کی سیکولر اور جمہوری اقدار کے تحفظ کیلئے اپوزیشن کو متحد ہونا چاہیے۔اس الیکشن میں شہری سماج کے گروپس نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے ’’ایڈیلو کرناٹک‘‘ (جاگو کرناٹک) اور ’’بہو وادی کرناٹک‘‘ (تکثیریت کرناٹک) جیسی مہمات چلاکر بی جے پی حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کیا۔ کمزور طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لیے پابند عہد شہری سماج کی تنظیموں کو اسی طرح کا کردار آنے والے انتخابات میں ادا کرنا چاہیے تا کہ ملک اس راستے پر پھر سے گامزن ہوسکے جو راستہ ہماری تحریک آزادی اور دستور نے دکھایا ہے۔