مضامین

تاریخ ہندکی سربفلک ہستی…… مولانا ابو الکلام آزاد ؒ

ڈاکٹر ہمایوں احمد

عام خیال بیانیہ سے قطع نظر گزشتہ صدی کے حقیقی واقعات کا بغور جائزہ لیاجائے تو برّصغیر پاک و ہند میں مولانا ابو الکلام آزاد کے مد مقابل کوئی اور تاریخی ہستی مشکل سے نظر آتی ہے۔ مولانا آزاد ؒ ایک طرف مکمل طور پر مذہبی فکر رکھنے والی علمی شخصیت نظر آتے ہیں تو دوسری جانب انتہائی متحرک اور فعال سیاسی رہنما۔ جفا کش مزاج والی اس نابغہ ہستی کو ہم دونوں اعتبار سے قدرت کا عطاکردہ ایک نایاب نمونہ پاتے ہیں۔ اس عظیم شخصیت کی پوری زندگی جیسی مصروفیت اور جتنی سراسیمگی میں گزری ہے، اس پر غور کریں تو انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ دنیا کی قومیں اپنے اپنے مزاج کے لیے پہچانی جاتی ہیں۔ پختہ عزم کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے والی جاں فشانی کو دیکھیں تو ذہن میں سب سے پہلے افغانی آتا ہے۔ دوسری جانب اسلامی اقدار والے علم و ذہانت اور انسان دوست مزاج کو لیں تو اہل مدینہ سے بڑھ کر اور کون ہوگا۔ اسی تناظر میں مولانا ابو الکلام آزاد کی فطرت کو قدرت کی طرف سے جو کچھ ملاہوگا اس کا کچھ اندازہ ہم لگا سکتے ہیں۔ ان کے والد کے آباؤ اجداد بابر کے زمانے میں حرات افغانستان سے آگرہ آئے اور پھر دلّی جاکر آباد ہو گئے۔ جب کہ ان کی والدہ مدینہ منوّرہ کے ایک بہت بڑے عالم کی بیٹی تھیں۔
ہر سال گیارہ نومبر اور بائیس فروری کے دن مولانا ابوا لکلام آزادکو دل پذیر انداز میں ان کی خطابت بلاغت و صحافت کے لیے یاد کیاجاتا ہے۔ بڑے انہماک سے لکھے ایک سے ایک دل آرا مضامین قوم کے اندرپائی جانے والی حرارت کااحساس جگاتے ہیں۔ اردو اخبارات کی پُر وقار تحریریں اکثر اوقات کسی نہ کسی نئے نقطے سے قارئین کے علم میں نئی معلومات کااضافہ کرتی ہیں۔ پھر بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں محرک مولانا کے تاریخی کارنامے اتنے ہیں کہ ان کی فہرست سازی آسان نہیں۔ عمومی طور پر مولانا آزاد کی علمی لیاقت اور خطابت کی مقنا طیسی کشش کی باتیں خوب ہو تی ہیں۔ عالم دین، مفسر قرآن، سیاسی رہنما، تحریک آزادی کے مرکزی کردار، اعلیٰ پائے کے مفکر، صحافت کے غازی، دور اندیشی والی تعلیم کی منصوبہ بندی کے ذریعہ جدید بھارت کے مستقبل ساز، ہندو مسلم اتحاد کے عظیم علمبردار۔۔۔۔۔ کی حیثیت سے مولانا آزاد کی اعلیٰ ترین خدمات کی باتیں کالموں اور مضامین میں تفصیل سے لکھی جاتی ہیں۔ بیداری اور شعور کو فروغ دینے کی خدمات کے باوجود ایک کانٹے کی بات دل میں خلش پیدا کرتی ہے۔ تحریک آزادی سے جڑے واقعات کا ترجیحی بنیاد پر ترتیب و تناسب کیا ہونا چاہیے، یہ سوال ہر تاریخی دن پر ہم سے جائز توجہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ مولانا آزاد کے متعلق یہ امر بہر صورت غور و فکر کا متقاضی ہے۔ قدرت کے تراشے ہوئے اس کثیر الجہت نگینے کے کس رخ پر سب سے پہلے روشنی ڈالی جائے یہ ایک ذہن رسا معاملہ ہے۔ مولانا ابوالکلام آزادکے شایان شان سب سے بڑا خراج عقیدت یہ ہے کہ ہم اس بات کو تسلیم کریں کہ آزادی کے عوض ملک کی تقسیم اور ساتھ میں ہونے والے خون خرابا کا روکا جانا بالکل ممکن تھا۔ وطن کی آزادی سے جڑے چند حقیقی واقعات ایسے ہیں جن کی تشنہ فریاد ہنوز اہل نظر کی نظروں سے محروم ہے۔ اپنی عدیم المثال قائدانہ لیاقت کی بدولت مولانا آزادبطور کانگریس صدر مکمل اتفاق رائے قائم کرکے بلاتقسیم آزادی کو ممکن بناچکے تھے۔ سب کچھ طے پاچکا تھا۔ دنیا بھر میں مولانا کے فارمولے کی تعریفیں ہورہی تھیں۔ اس بڑی کامیابی پر مولانا کے پاس لارڈپیتھک-لارنیس (Lord Pethic-Lawrence) اور سراسٹفرڈ کرپس(Sir Stafford Cripps)کے مبارک باد کے ٹیلی گرام بھی آئے تھے۔ تو پھر اچانک کیا ہوگیا؟ آخر لب چھوکے پیالہ ہاتھ سے کیسے پھسل گیا۔ یہی ہے وہ اہم ترین اور عظیم ترین سوال جس کی طرف ہمیں پوری ذہنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ کسی بڑے واقعہ کو کس زاویہ سے دیکھاجائے اس بات کا تعین ہمیں خود سے کرنے کا فن سیکھنا ہوگا۔ حقائق تو سامنے ہوتے ہیں مگر ان کے بیانیہ کو وضع کرنا بڑی بصیرت دور اندیشی اور دانائی کاکام ہے۔
انتہائی اہم واقعات کے پیش نظر تحریک آزادی کی تاریخ میں سن ۱۹۴۶ امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ اس عرصہ میں کانگریس کے ذی اثر صدر مولانا ابوا لکلام آزادکی تیز رفتار مصروفیات اور سب پر غالب فعّال کردار کو کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ مگر حصول آزادی کے بعد کسی خاموش خوف کی بناپر انہیں چرچا سے یکسر غائب کردیاگیا۔ باریکی سے کی گئی سخن سازی ایسی کہ اصل معاملہ کو رفع دفع کردینے کی نفاست بھری سازش پکڑمیں نہیں آتی۔ پہاڑ جیسی جسامت والے واقعات کا منظر عام سے غائب ہوجانا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے۔
برطانوی انتخاب میں چرچل کی شکست کے بعد لیبر پارٹی کی آمد پر ہی مولانا کی پیش بین نظر کو بدلے ہوئے حالات کا عندیہ مل چکا تھا۔ مولانا کی گہری نگاہ شروع سے لیبر کیبنٹ کا ہندوستان کے تئیں مثبت جذبے کا مطالعہ کررہی تھی۔ لیبر پارٹی کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ۴۶۔۱۹۴۵ کی سردی میں ایک پارلیمانی وفد ہندوستان روانہ کیاگیا۔ ۱۷/فروری ۱۹۴۶ کی شام والی ریڈیو نشریات میں ساڑھے نوبجے مولانا نے برٹش فیصلے کی رپورٹ سنی کہ برطانوی سرکار ہندوستان کی آزادی پر بات کرنے کے لیے ایک کیبنٹ مشن ہندوستان روانہ کرے گی۔ اس خبرکے آدھے ہی گھنٹے کے اندر ایسو سی ایٹیڈ پریس (Associated Press)کا ایک نمائندہ اس خبر پر ہندوستان کا رد عمل جاننے کے لیے مولانا کے پاس پہنچ گیا۔ مولانا نے اسے خوش آئند پیش رفت بتلایا۔ اسی اثنا فروری ۱۹۴۶ میں بطور کانگریس صدر مولانا نے عوامی نبض (Public Pulse) کا حال جاننے کے لیے ایک ملک گیر سروے کیا۔ پتہ چلا مکمل آزادی کے حق میں یکسر تبدیل ہو کر اب ایک نیا ہندوستان پیدا ہوچکا ہے۔ اسی بیچ۲۳/مارچ۱۹۴۶ کو برٹش کیبنٹ مشن ہندوستان پہنچا۔ اپنے ذہن میں مستقبل کا آئین اور آئین ساز مجلس کی تشکیل کا ایک واضح خاکہ لیے مولانا ۲/اپریل ۱۹۴۶ کو دہلی تشریف لائے۔ ۶/اپریل ۱۹۴۶ کو مولانا اور کیبنٹ مشن کے ممبران کے مابین پہلی اہم نشست منعقد ہوئی۔ سوال جواب اور ہر طرح کے جرح سے لبریز لمبے مذاکرات کے بعد بالآخر لارڈ پیتھک۔ لارنس (Lord Pethic-Lawrence) اور سراسٹفرڈ کرپس (Sir Stafford Cripps)نے مولانا کے مطالبات مشوروں اور منصوبوں سے مطمئن ہوکر اپنی رضامندی کااظہار کیا۔ بعد ازاں ۱۲/اپریل ۱۹۴۶ کو کانگریس ورکنگ کمیٹی (CWC) کا اجلاس طلب کرکے گاندھی جی سمیت تمام اراکین کو کیبنٹ مشن کے ساتھ ہوئی گفت و شنید اور طے پائے معاملات کا مولانا نے تفصیلی احوال بیان کیا۔ گاندھی نہرو پٹیل جیسے صف اول کے رہنماؤں کی موجودگی میں تمام تفصیلی رپورٹ سنی گئی۔ سی ڈبلیو سی میں طویل بات چیت کے درمیان مولانا نے اپنی مفصل اور مؤثر خطابت سے سب کو مطمئن کیا۔ اتفاق رائے قائم ہونے کے بعد اگلے قریب دو ماہ تک کانگریس کے صدر محترم کی سربراہی اور نگرانی میں سبھی متعلقہ فریقوں (Stakeholders) کے درمیان اور بھی تاریخی نوعیت کی میٹنگوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ اسی طرح مسلم لیگ کے خدشات کو بھی دور کرنے کی کوشش کی گئی، ساتھ میں کانگریس کے ممبران کو اعتماد میں لینے کے بعد جب کیبنٹ مشن کے ممبران بھی مطمئن ہو چکے تو اس پورے پلان کے اقرار ومعاہدہ سے منسلک بیان کو مولانا نے ۱۵/اپریل ۱۹۴۶ کو پورے ملک کے سامنے جاری کردیا۔ اس کے بعد۲۴/ اپریل ۱۹۴۶ کو مشن نے شملاسے دلّی آکر وائس رائے کو طے پاچکے معاملات کی مفصل رپورٹ سے آگاہ کیا۔ ۲۷/اپریل ۱۹۴۶ کو مزید بات چیت کی غرض سے کانگریس اور مسلم لیگ کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے اپنے نمائندہ نامزد کریں۔ مولانانے کانگریس کی طرف سے نہرو اور پٹیل کو نامزد کیا اور کچھ ہچکچاہٹ کے بعد گاندھی جی بھی اس میں شامل ہونے پر آمادہ ہوئے۔ ۲/مئی ۱۹۴۶ سے ۱۲/مئی ۱۹۴۶ تک شملا میں مولانا کی زیر سربراہی دس روزہ مذاکرات کے دوران لمبی بات چیت والی نشستوں کا دور چلتا رہا۔ لوگ مفاہمت کے قریب آتے گئے۔ اس کے بعد ۱۶/مئی ۱۹۴۶ کو انگلینڈ میں مسٹر ایٹلی (Mr.Attlee)نے ہاؤس آف کامنس میں کیبنٹ مشن پلان کا وہائٹ پیپر (White Paper) جاری کردیا۔ برطانیہ کا یہ قرطاس ابیض مولانا کے ۱۵/اپریل ۱۹۴۶ والے بیان سے بالکل مطابقت رکھتا تھا۔ دونوں دستاویزات ریکارڈ میں موجود ہیں۔ اسی اثنا جون ۱۹۴۶ میں مسلم لیگ کا ؤنسل کا سہ روزہ اجلاس منعقد ہوا جس کے آخری دن مسٹر جناح کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ مسلمانوں کے خدشات کے ازالہ کی کیبنٹ مشن پلان سے بہتر صورت نہیں ہو سکتی۔ مولانا کی شاندار سیاسی حکمت عملی کا یہ کمال تھا کہ ایک طرف تمام کانگریس آلہئ کار کو اعتماد میں لینے کے بعد مکمل اتفاق رائے قائم ہو چکا تھا تو دوسری طرف مسٹر جناح دباؤ میں آگئے تھے، کیوں کہ مشن پلان کو نہ ماننے کی صورت میں مسلم لیگ ممبران کا پارٹی سے انحراف کرکے کانگریس میں شامل ہوجانے کا ڈر تھا۔ ادھر مولانا کے زیر صدارت کانگریس ورکنگ کمیٹی نے اس بات کی تصدیق کردی کہ کیبنٹ مشن پلان اور مولانا کی اسکیم ایک ہی ہے۔ بالآخر ۲۶/جون ۱۹۴۶ کا وہ تاریخی دن آیا جب دیر تک چلنے والے طویل اجلاس میں کانگریس ورکنگ کمیٹی نے اپنے قرارداد (Resolution) میں کیبنٹ مشن پلان کو منظوری دے دی۔ یہ ایک شان والا عالی مرتبت واقعہ تھا۔ ملک تقسیم ہونے سے بچ گیا تھا۔ تحریک آزادی کا معاملہ گفت و شنید، آپسی مفاہمت سے اور بغیر کسی تشدد و تنازعہ کے طے پاگیا تھا۔ فرقہ پرستی کا قضیہ پیچھے چھوٹ گیا تھا۔ پورے ملک میں جشن کا ماحول تھا۔ چاروں طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ پھر ۷/جولائی ۱۹۴۶ کو بمبئی میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کااجلاس ہوا۔ سات سال (۱۹۳۹سے ۱۹۴۶) تک کانگریس کا صدر رہنے کے بعد مولانا نے صدر کا عہدہ نہرو کو سونپ دیا۔ لمبی بحث و مباحثہ کے بعد مولانا کی تقریر نے سامعین پر فیصلہ کن اثر ڈالا اور سی ڈبلیو سی میں جس کیبنٹ مشن پلان پر مہر لگ چکا تھا، اس کو اے آئی سی سی نے بھی بڑی بھاری اکثریت سے منظور کرلیا۔
مگر ۱۰/جولائی۱۹۴۶ کو بمبئی میں نہرو کے ایک بیان سے سارا کھیل بگڑگیا۔ صدر بننے کے تین ہی دن بعد نہرو نے ایک پریس کانفرنس میں یہ بیان دے دیا کہ انڈین نیشنل کانگریس کیبنٹ مشن پلان کی باتوں کو ماننے کے لیے پابند نہیں ہو گی۔ نہرو جی کا یہ بیان دونوں ایوانوں میں طے پاچکی بات کی روح کے بالکل منافی تھا۔ ان کی یہ بات کانگریس ورکنگ کمیٹی (CWC) اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی (AICC) کے ہاؤس میں پاس کی گئی قرارداد کی سیدھی خلاف ورزی تھی۔ ۱۰/جولائی ۱۹۴۶ کے سیاہ دن والے بیان کے بعد صورت حال یک لخت بگڑ گئی اور بگڑتی چلی گئی۔ انجام کار آزادی تو ملی مگر وطن عزیز ٹکڑوں میں بٹ گیا، لاکھوں معصوم جانیں لقمہئ اجل بن گئیں۔ کروڑوں انسانوں کی دنیا ہل گئی۔ یہ بتلانے میں کسی تامل کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ دس جولائی ۱۹۴۶ والاپنڈت نہرو کا غایت درجہ خلاف دستور فعل جوہری تاب کاری کی تباہ کاری سے بھی زیادہ مہلک تھا۔