نصرت فاطمہ
ہم جس ملک میں موجود ہیں یہاں مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ اکثر اوقات ہم مارکیٹ جاتے ہیں اور کچھ چیزوں کی قیمتیں ہمیں چونکانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتیں۔
تو آج ہم نے ہم خواتین کا پسندیدہ موضوع چنا ہے۔ جو ہے تو مہنگائی لیکن ہم خواتین اس مہنگائی کو بھی خاطر میں کم ہی لاتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ کسی ملک کے بادشاہ کو اطلاع ملی کہ تانگے کا کرایہ بہت بڑھ گیا ہے. بادشاہ نے عام لباس پہنا، اور بھیس بدل کر کوچوان کے پاس پہنچ کر (کسی مشہور جگہ کا نام لے کر) پوچھا کہ محترم وہاں تک کا کرایہ کتنا لو گے۔
کوچوان نے بادشاہ کو پہچانے بغیر جواب دیا کہ میں سرکاری نرخ پر کام نہیں کرتا۔
بادشاہ:۲۰؟……کوچوان: اور اوپر جاؤ ……بادشاہ: ۲۵……کوچوان: اور اوپر جاؤ…… بادشاہ: ۳۰؟…… کوچوان: اور اوپر جاؤ…… بادشاہ: ۳۵؟…… کوچوان: مارو تالی
بادشاہ تانگے پر سوار ہوگیا۔ تانگے والے نے بادشاہ کی طرف دیکھااور پوچھا کہ فوجی ہو؟
بادشاہ: اوپر جاؤ……کوچوان: اشتہاری ہو؟…… بادشاہ: اور اوپر جاؤ…… کوچوان: جنرل ہو؟…… بادشاہ: اور اوپر جاؤ…… کوچوان: مارشل ہو؟……بادشاہ: اور اوپر جاؤ…… کوچوان: صدر تو نہیں ہو؟……بادشاہ: مارو تالی
کوچوان کا رنگ اْڑ گیا۔
کوچوان نے صدر سے کہا۔ مجھے جیل بھیجو گے؟…… بادشاہ: اوپر جاؤ…… کوچوان: جلا وطن کروگے؟ …… بادشاہ: اور اوپر جاؤ ……کوچوان: پھانسی لگاو گے؟
بادشاہ: مارو تالی……
اگر دو چار تالیاں ہر اْس ملک میں بج جائیں جہاں مہنگائی نے لوٹ مچا رکھی ہے تو شاید عوام کو کچھ راحت ملے۔
لیکن آج کے دور میں نہ تانگے بچے ہیں نہ ہی وہ رحم دل حکمراں۔ یہاں مہنگائی ہے تو اس میں قطعی کسی تانگے والے کا قصور نہیں اور نہ ان کا جو اپنا سامان مہنگا بیچنے پر مجبور ہیں۔ (یہاں تو اڈانی جیسا ڈاکو بھی ڈاکہ ڈال کر آزاد پھر رہا ہے)
اور حکومت اس کی حرکتوں پر تالی بجانے پر مجبور ہے۔ اوپر بیان کردہ واقعہ محض ایک دل خوش کن خواب ہی ہے۔ جس کا آج کے دور میں تو حقیقت بننا ناممکن ہی ہے۔ ویسے ان دنوں دل تو اتنا حساس ہورہا ہے، نہیں چاہ رہا کہ کسی پر طعن وتشنہ کساجائے۔ پچھلے دنوں ترکی اور شام کے کئی علاقے ایک تباہ کن زلزلے سے متاثر ہوئے اور مہلوکین و متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہی جارہا ہے۔ ہر دن ایک نیا واقعہ دیکھنے میں آرہا ہے،جنہیں دیکھ کر ہم مسلمانوں کا ایمان تازہ ہوجائے۔ کل ہی دیکھا کہ ایک آدمی بے بس سا گھر کے ملبے کو ہٹانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا تاکہ اس کے گھر والوں کی کچھ خبر مل سکے، لیکن وہ مجبور تھا کیوں کہ بھاری مشین کے ذریعے تو یہ کام کیا جاسکتا ہے، انسان اکیلا یہ کام نہیں کر سکتا،لیکن اس کی بے بسی دیکھ کر احساس ہوا کہ جس گھر کی مضبوطی کے لیے انسان ساری زندگی محنت کرتا ہے، زلزلہ آنے پر وہی چھت جب انسان پر گرتی ہے تو انسان کے لیے وہی مکان ایک جان لیوا بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔
ایک اور واقعہ دیکھنے میں آیا تھا کہ ایک معمر شخص نے جو رقم عمرہ کرنے کے لیے جمع کی وہ تمام رقم متاثرین کے لیے عطیہ کردی۔ سبحان اللہ۔ ایک اور واقعہ یوں بھی سامنے آیا کہ محض تین روز پہلے مالک مکان نے ایک کرایہ دار کو مکان سے نکال باہر کیا اور زلزلہ کے بعد مالک مکان اور کرائے دار دونوں ایک ہی پناہ گزین کیمپ میں موجود تھے۔ قدرت کا انوکھا انصاف ہی کہہ سکتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ زلزلے آنا بھی قدرت کی ایک آزمائش ہوتی ہے۔ ہم انسان تو یہ جانتے ہیں کہ اس کائنات کا رب سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ پھر بھی ہم سے خطائیں ہوتی رہتی ہیں اور اس کائنات کا رب وہ تو دنیا کا مالک ہے، میرے رب العالمین کی شان تو یہ ہے کہ وہ بس حکم دیتا ہے کہ ہوجا اور وہ ہوجاتا ہے۔ یہ بھی میرے رب کا ایک انوکھا انداز ہے ہمیں جگانے کا اور اس سے مانگنے کے لیے ہماری آزمائش کرنے کا، لیکن دعا ہر مومن کا ہتھیار ہے، اور جب تک یہ ہتھیار مومن کے پاس ہے اسے کسی کا ڈر نہیں۔
تو ہم ذکر کررہے تھے مہنگائی کا، جس کا اندازہ اور فکرنہ حکومت کو ہے اور نہ ہی ان ارب کھرب پتی سرمایہ کاروں کو۔ وہ تو عوام کو لوٹ کر فرار ہوجاتے ہیں۔
اور اسی طرح بات کو آگے بڑھائیں تو ہمارے ملک میں بھوک، بے روزگاری عام مسئلہ بن چکی ہے اور نامناسب سہولیات کے باعث بیماروں کو صحیح علاج بھی میسر نہیں۔دولت کی عدم مساوات بھی ایک الگ مسئلہ ہے اور یہی عدم مساوات جرائم کو فروغ دینے لگی ہے۔ بھوک چاہے پیٹ کی ہو یا پیسے کی ایک بھلے انسان کو بھی مجرم بناکرچھوڑتی ہے۔
کس کو الزام دیں کہ..
سنو جو بھوک ہوتی ہے..
بہت سفاک ہوتی ہے..!!
کسی فرقے کسی مذہب سے اس کا واسطہ کیسا
تڑپتی آنت میں جب بھوک کا شعلہ بھڑکتا ہے، تو وہ تہذیب کے بے رنگ کاغذ کوجلا کر راکھ کرتا ہے..
٭٭٭