تبریز انصاری کو قتل کے ارادہ سے مارپیٹ نہیں کی گئی تھی۔لنچنگ کیس میں عدالت کی رولنگ
جھارکھنڈ کی ایک عدالت نے اس بات کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہ پرویز انصاری کو قتل کرنے کی نیت سے مارپیٹ کی گئی تھی، 10 مجرموں کو 10 سال کی سزائے قید سنائی ہے۔
نئی دہلی: جھارکھنڈ کی ایک عدالت نے اس بات کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہ پرویز انصاری کو قتل کرنے کی نیت سے مارپیٹ کی گئی تھی، 10 مجرموں کو 10 سال کی سزائے قید سنائی ہے۔
عدالت نے استغاثہ کے اس مطالبہ کو مسترد کردیا کہ 10 افراد کو عمرقید کی سزا دی جائے کیونکہ ان کے مارپیٹ کرنے کی وجہ سے 22 جون 2019 کو تبریز انصاری کی موت واقع ہوگئی تھی۔
مہلوک کے وکیل الطاف حسین نے جو باخبر وکیل کی حیثیت سے استغاثہ کی مدد کررہے تھے، مسلم مرر کو فون پر بتایا کہ عدالت اس نتیجہ پر پہنچی کہ اس مارپیٹ کا مقصد اُسے ہلاک کرنا نہیں تھا کیونکہ حملہ کے 4 دن کے بعد وہ جانبر نہ ہوسکا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ ایڈیشنل سیشن جج امیت شیکھر کی جانب سے سنائی گئی سزا کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا یہ امر کہ ملزمین کئی گھنٹوں تک اسے بری طرح زدوکوب کرتے رہے، ان کی نیت کو ثابت کرتا ہے۔ یہ ایک بدبختانہ حقیقت ہے کہ نچلی عدالت اس بات کو سمجھنے میں ناکام رہی کہ زخموں کی وجہ سے وہ 4 دن بعد فوت ہوگیا۔
4 سال طویل مقدمہ کے بعد 10 افراد مہیش مہلی، پریم چند مہلی، اتل مہلی، وکرم منڈل، پرکاش منڈل، چامونائک، مدن نائک، سناموپردھان، کمل مہتو اور بھیم سنگھ منڈا کو تعزیرات ہند کی دفعہ 304(1) (قتل غیرعمد) کے علاوہ دفعہ 295(B) (کسی عبادت گاہ کو تباہ کرنا یا نقصان پہنچانا)، 147(فساد کرنا)، 148(فساد کرنا، مہلک ہتھیار سے لیس ہونا)، 149 (غیرقانونی اجتماع اور 325/34 (مشترکہ ارادہ کے ساتھ کسی کو شدید چوٹ پہنچانا)۔
یہاں یہ تذکرہ مناسب ہوگا کہ قدم دیہہ میں اپنے آبائی مقام سے واپس ہوتے ہوئے 24 سالہ تبریز انصاری کو جو سرائے کیلا۔ خرسوان ضلع کا ساکن تھا اور اپنی خالہ سے ملاقات کیلئے مذکورہ مقام پر گیا تھا، مشرقی سنگبھوم میں جمشید پور دھاٹ کدیہ علاقہ میں 17 جون 2019 کو تقریبا 10 بجے شب ایک ہجوم نے روک لیا اوربائیک چوری کا الزام لگاتے ہوئے اس پر وحشیانہ حملہ کردیا اور تقریبا 8 گھنٹوں تک مارپیٹ کرتے رہے تھے۔
انصاری کے ساتھی کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن انصاری کو پکڑ لیا گیا تھا اور ایک برقی کھمبے سے باندھ کر بے رحمی کے ساتھ مارپیٹ کی گئی تھی۔ قاتل ہجوم نے اسے جئے شری رام اور جئے ہنومان کے نعرے لگانے پر بھی مجبور کیا تھا۔ حملہ کی اطلاع ملنے کے باوجود پولیس تقریبا 9 گھنٹہ کی تاخیر سے دوسرے دن صبح 7:30 بجے وہاں پہنچی تھی۔
انصاری کو ہندوؤں کے مذہبی نعرے لگانے اور زندگی کی بھیک مانگنے پر مجبور کئے جانے کا ایک ویڈیو وائرل ہوگیا تھا جس کے بعد پورے ہندوستان میں برہمی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ اُس کے خاندان نے الزام لگایا تھا کہ شدید زخمی ہونے کے باوجود پولیس نے اس کا علاج نہیں کروایا۔اُسے ابتدائی مرکز صحت لے جایا گیا تھا جہاں اُسے صرف ابتدائی طبی امداد دی گئی تھی۔ ڈسچارج کئے جانے کے بعد اس پر چوری کا الزام لگاکر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ پولیس نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ اس نے کوئی غلطی کی ہے۔
22جون 2019 کو انصاری نے سرچکرانے‘قئے اور سینہ میں درد کی شکایت کی تھی۔ پولیس نے اسے ہاسپٹل منتقل کیا تھا لیکن حملہ کے دوران لگنے والی چوٹوں کی وجہ سے وہ فوت ہوگیا تھا۔ مہلوک کی بیوہ نے سزا کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں مجرم ٹھہرایا جانا محض ایک ڈھکوسلہ ہے۔
شائستہ پروین نے سوال کیا کہ کیا یہ انصاف کے ساتھ مذاق نہیں ہے کہ ایک صحت مند شخص کو ہجوم کی جانب سے بے رحمانہ مارپیٹ کی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوجاتا ہے لیکن مجرموں کو صرف 10 سال کی سزائے قید ہوتی ہے کیونکہ عدالت کا یہ ماننا ہے کہ حملہ آوروں کا ارادہ قتل کرنے کا نہیں تھا۔ شائستہ نے کہا کہ وہ اعلیٰ عدالت سے رجوع ہوگی جب تک کہ اسے انصاف نہیں ملتا۔ اس نے کہا کہ اپنے شوہر کے قاتلوں کیلئے وہ سزائے موت سے کم کوئی سزا قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔