
سلیم احمد(ایم۔اے۔ایم فل عثمانیہ)
کہا جارہا ہے کہ حالیہ پانچ ریاستوں میں منعقد شدنی انتخابات یہ طے کریں گے کہ ملک میں اگلی حکومت کون تشکیل دے سکتا ہے۔ راجستھان اور تلنگانہ میں25اور30نومبر کو رائے دہی مقرر ہے۔ جبکہ 3دسمبر کو نتائج کا اعلان کردیاجائے گا۔
قومی سطح کے قائدین کی تمام تر توجہ اب ان دونوں ریاستوں کے چناؤ پر مرکوز ہے اور25نومبر کو میں رائے دہی ہوگی ‘ اس کے بعد تمام قائدین ریاست تلنگانہ کا رخ کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق بی جے پی کے قومی سطح کے قائدین میں وزیراعظم مودی کے علاوہ امیت شاہ مرکزی وزیر داخلہ تلنگانہ میں انتخابی جلسوں کو خطاب کریں گے۔ ان کے علاوہ کانگریس پارٹی کی جانب سے راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی اور ملکارجن کھرگے صدر کانگریس ان جلسوں کو مخاطب کرتے ہوئے تلنگانہ میں پارٹی کی کامیابی کے لئے مہم چلائیں گے۔
تلنگانہ میں جہاں سے بی آر ایس پارٹی جو سابق میں تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کہلاتی تھی کی جانب سے کانگریس سے کڑا مقابلہ درپیش ہے۔ دونوں جماعتوں کی جانب سے عوام سے رجوع ہوتے ہوئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے اپنی اپنی پارٹی کو کامیابی ہمکنار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
کانگریس کے ریاستی سربراہ ریونت ریڈی کی جانب سے اس ایقان کا اظہار کیا جارہا ہے کہ کانگریس تلنگانہ میں حکومت تشکیل دے گی اور چندرشیکھر راؤ موجودہ چیف منسٹر تلنگانہ ناکامی کے بعد سیاسی سنیاس لینے پر مجبور ہوجائیں گے۔
وزیراعظم مودی کی جانب سے کے سی آر کی جانب سے ان کے فرزند کے ٹی آر کو ریاست کا چیف منسٹر بنائے جانے میں تعاون کرنے کے راز کو افشاء کرنے کے بعد سے اس بات کو تقویت حاصل ہوچکی ہے کہ چندرشیکھر راؤ اپنے فرزند کے لئے سیاسی راہ ہموار کرنے کی غرض سے پارٹی میں نمبر دو قائد سمجھے جانے والے ایٹالہ راجندر کو نہ صرف پارٹی سے نکال باہر کردیا بلکہ پارٹی میں مضبوط گرفت کے حامل اور چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ کے حقیقی بھانجے ٹی ۔ ہریش راؤ کے سیاسی قد میں کمی لانے کی غرض سے سال2018ء کے اسمبلی انتخابات کے بعد وزارتی عہدہ تفویض کرنے میں تین تا چار ماہ کا عرصہ انہیں پارٹی کی سرگرمیوں سے دور رکھا گیا تھا۔ اس دوران یہ قیاس آرائیاں بھی زوروں پر تھیں کہ کے۔ٹی آر کو اگلے چھ ماہ کے عرصہ میں تلنگانہ کے چیف منسٹر کے عہدہ پر مامور کرتے ہوئے کے سی آر قومی سیاست میں اہم کردار انجام دیں گے۔ لیکن اس وقت ناموافق حالات کے سبب کے سی آر کو اپنے ارادوں کو ملتوی کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرنی پڑی کیوں کہ انہیں اس بات کا خوف بھی لاحق تھا کہ ہریش راؤ اور ایٹالہ راجندر پارٹی میں بغاوت کرتے ہوئے اراکین اسمبلی کو بغاوت پر آمادہ نہ کرلیں۔
چندرشیکھر راؤ نے ٹی آر ایس کو وسعت دیتے ہوئے بی آر ایس میں تبدیل کردیا اور اب جبکہ نریندر مودی نے پانچ سالہ عرصہ کے بعد کے سی آر کے راز پر سے پردہ فاش کرنے کے بعد کے سی آر نے اس بات کوتسلیم کرلیا ہے کہ وہ فرزند کو ریاست کی باگ ڈور حوالے کرنا چاہتے تھے اور اس راز کے افشاء کے بعد سے ریاست تلنگانہ میں پارٹی کے موقف میں کمی دیکھی گئی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کے سی آر ملک میں کانگریس پارٹی کی خاندانی حکمرانی کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور جب اپنے فرزند کو اقتدار کی حوالگی کا مسئلہ درپیش رہا تو پھر ان کے قول و فعل میں تضاد کھل کر عوام کے سامنے ظاہر ہوچکا ہے۔
تلنگانہ میں چالیس تا پچاس ایسے اسمبلی حلقہ جات ہیں جہاں سے مسلم طبقہ کے افراد کی تائید و حمایت کے سبب امیدوار بہ آسانی کامیابی حاصل کرنے کے موقف میں ہیں۔ اسی وجہ سے ریاست میں کانگریس کے علاوہ بی آر ایس کی جانب سے مسلم اقلیتی رائے دہندو ںکو لبھانے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ بی جے پی کے سرکردہ قائدین کی جانب سے مسلم اقلیتوں کو حاصل چار فیصد تحفظات کی برخواستگی کا دعویٰ کیا جارہا ہے جبکہ ریاست تلنگانہ میں بی جے پی کا موقف انتہائی کمزور ہے اور نہ ہی مذکورہ جماعت اقتدار میں آسکتی ہے لیکن بی آر ایس کے ساتھ بی جے پی کے تعلقات کافی مستحکم ہیں اور بی آر ایس کو اگر ریاست تلنگانہ میں حکومت سازی میں نشستوں کی کمی کی صورت میں بی جے پی ‘ بی آر ایس کی کھل کر حمایت کرسکتی ہے ایسی صورت میں بی جے پی ‘ بی آر ایس کو اپنی حمایت کے ذریعہ حکومت سازی میں تعاون کرتی ہے تو اس بات کے قوی امکانات پائے جاتے ہیں کہ وہ بی آر ایس پر دباؤ بناتے ہوئے اقلیتوں کے تحفظات کے علاوہ دیگر مسائل میں رکاوٹ پیدا کرے۔ شاید بی جے پی بالراست یہ پیغام دے رہی ہو کہ وہ بی آر ایس کے ساتھ حکومت میں ساجھے دار رہے گی۔ دوسری جانب مجلس جو پہلی دفعہ اپنی پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے کسی سیاسی جماعت کی کھل کر حمایت کررہی ہے اور اس ایقان کا اظہار کرتی دکھائی دے رہی ہے کہ بی آر ایس کو تیسری دفعہ اقتدار حاصل ہوگا اور مجلس تلنگانہ میں بی آر ایس کی اقتدار پر واپسی میں بھر پور تائید و حمایت کرے گی ۔ مجلس کی جانب سے کانگریس کے صدر کے علاوہ دیگر امیدواروں کی مخالفت کی وجہ سے مختلف مذہبی تنظیموں کو الجھن میں مبتلا کردیا ہے۔ سابق میں مسلم متحدہ محاذ کے علاوہ جماعت اسلامی و دیگر تنظیموں کی جانب سے مسلم مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ سیاسی جماعتوں کی تائید و حمایت کی جاتی رہی ہے لیکن اس دفعہ مسلم متحدہ محاذ ‘ جماعت اسلامی اور جمیعۃ العلماء کی جانب سے متضاد بیانات کے سبب مسلم ووٹ کے بکھرجانے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ جماعت اسلامی ہند کی جانب سے اس دفعہ متفقہ طور پریہ فیصلہ لیا گیا ہے کہ تلنگانہ کے جملہ119 اسمبلی حلقہ جات میں سے 69حلقوں میں کانگریس کی تائید و حمایت کی جائے گی جبکہ41 حلقہ جات میں بی آر ایس کی حمات کے علاوہ 7اسمبلی حلقہ جات میں مجلس کے امیدواروں کے حق میں تائید کی جائے گی۔ اس لحاظ سے مجلس کی جانب سے جہاں9 امیدواروں کو میدان میں اتارا گیا ہے صرف 7حلقوں میں تائید و حمایت ‘ جبکہ اظہر الدین کی جوبلی ہلز سے تائیدکی جارہی ہے ۔جبکہ علماء کی تنظیم جمعیۃ العلماء کی جانب سے اس بات کی اپیل کی گئی ہے کہ مقامی سطح پر اس بات کا فیصلہ لیا جائے کہ کس پارٹی کے امیدوار کی تائید وحمایت کی جائے۔
تلنگانہ میں برسراقتدار بی آر ایس کی جانب سے مجلس پر انحصار نہ کرتے ہوئے ریاست میں بذات خود مسلم طبقہ کے بااثر افراد سے ملاقاتیں کرتے ہوئے پارٹی کے حق میں انتخابی مہم چلارہی ہے۔ بی آر ایس اقلیتی قائدین اپنی جماعت کے امیدواروں کی کامیابی کے لئے اب میدان میں سرگرم ہیں۔ ان قائدین کی جانب سے اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ ممکنہ حد تک پارٹی کی مسلم اقلیتوں کے لئے مختلف اسکیموں جن میں خاص طور پر اقلیتی طبقہ کے افراد کے لئے اقامتی مدارس کے قیام کے علاوہ شادی مبارک اسکیم و دیگر اسکیموں کی افادیت سے عوام کو روشناس کرواتے ہوئے پارٹی کے امیدواروں کے حق میں ووٹ کے حصول کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس کے برخلاف کانگریس کی جانب سے بھی راست اقلیتوں کے درمیان پہنچتے ہوئے کانگریس دور حکومت میں اقلیتوں خاص طور پر مسلم طبقہ کے افراد کو چار فیصد تحفظات کی فراہمی سے روزگار اور تعلیمی میدان میں حاصل ہونے والے فوائد بیان کرتے ہوئے مسلم طبقہ کے افراد کو کانگریس کی جانب سے مستقبل میں حکومت سازی کی صورت میں اقلیتوں کے لئے پارٹی کے ڈکلریشن کا حوالہ دیتے ہوئے رائے دہندوں کو لبھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ووٹ کی اہمیت اور افادیت کو سمجھیں او راپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں۔ دولت کے بل بوتے پر ووٹ کے خریدار مل جائیں گے لیکن اگلے پانچ سال تک ان ووٹ کے خریداروں کے دیدار کو عوام ترس جائیں گے۔ ان قائدین کی کامیابی کے بعد وہ اپنے مقام ومرتبہ کے علاوہ اپنی دولت میں اضافہ کرنے میں لگ جائیں گے۔ موجودہ صورتحال میں عوام حلقہ کی ترقی و بہبودی اور مستقبل میں درپیش مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے چند روپیوں کی خاطر اپنے ووٹ کو فروخت کرتے ہوئے بعد میں پچھتاتے نظر آتے ہیں۔ریاست میں برسراقتدار سیاسی جماعتوں کے قائدین حصول اقتدار کے بعد عوام کو بھلا بیٹھتے ہیں اس وجہ سے کہ انہوں نے ووٹ کی قیمت ادا کی تھی۔
خاص طور پر مسلم اقلیتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ مسلمان خاص طور پر شہری علاقوں میں قیام پذیر افراد اس وجہ سے ووٹ ڈالنے سے گھبراتے ہیں کہ انہیں ووٹ ڈالنے کے لئے لمبی قطاروں میں ٹھہرنا پڑے گا۔ پانچ سال میں ایک دفعہ ووٹ ڈالنے کا موقع ملتا ہے اور اپنی پسند کے عوامی نمائندہ کو چننے میں آپ کا ایک ووٹ بھی قیمتی ثابت ہوسکتا ہے۔ بہر صورت اپنے ووٹ کا استعمال کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام متحدہ ووٹ سیکولر جماعت کے امیدوار کے حق میں استعمال ہوں اور وہ امیدوار مستقبل میں مسلمانوں کے دینی و عائلی مسائل میں رکاوٹ نہ بنے۔ فرقہ پرست ذہنیت کے حامل امیدوار اور جماعتوں سے اتحاد کے امکانات کی صورت میں ایسی جماعت کے امیدوار کو ووٹ دیا جائے جو کسی قومی جماعت یا پھر فرقہ پرست ایجنڈہ کی حامل جماعت سے اتحاد کے ذریعہ اپنی بگڑی قسمت کو مذکورہ جماعت کی تائید و حمایت سے حکومت سازی کا خواہاں ہو۔ ایسی سیاسی پارٹی کو ووٹ دیا جائے جو آپ کے ووٹ کے حصول کے ذریعہ ایک مضبوط اور پائیدار حکومت کا قیام عمل میں لائے اورمستقبل میں آپ کے بنیادی مسائل کے علاوہ دینی و شرعی معاملات میں مداخلت کا موجب نہ بنے ۔ فرقہ پرستی کا چولااوڑھے ہوئے سیاستدانوں کو پہچانیں اور ان کی حمایت سے قبل سابقہ کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے قیمتی ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے تمام امت مسلمہ کو مستقبل میں درپیش مسائل کے حل کو نظر میں رکھتے ہوئے ووٹ کا استعمال کریں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰