مضامین

تھیٹر اور فلموں میں گیتوں کی روایت

ہندوستان میں اکثر تاریخ دان کہتے ہیں کہ سنسکرت زبان کے شاعر اور ڈرامہ نگار کالی داس کا زمانہ چوتھی صدی عیسوی کا ہے۔ یہ بات اگر درست نہ بھی ہو تب بھی کالی داس کے بعد ہمیں برصغیر کی تاریخ میں ڈرامے کی کوئی روایت نہیں ملتی۔

 افضل رحمن

ہندوستان میں اکثر تاریخ دان کہتے ہیں کہ سنسکرت زبان کے شاعر اور ڈرامہ نگار کالی داس کا زمانہ چوتھی صدی عیسوی کا ہے۔ یہ بات اگر درست نہ بھی ہو تب بھی کالی داس کے بعد ہمیں برصغیر کی تاریخ میں ڈرامے کی کوئی روایت نہیں ملتی۔ تاوقتیکہ انگریزوں نے برصغیر میں کرسمس کے موقع پر مقامی زبانوں میں یسوع مسیح کی پیدائش، ان کو مصلوب کیے جانے اور پھر دوبارہ زندہ ہوجانے سے متعلق چھوٹے چھوٹے ڈرامے پیش کرنا شروع کیے۔ یہ بھی ڈرامے کی پاک و ہند میں کوئی مضبوط روایت نہیں بنتی۔ ہندوستان میں اس حوالے سے کسی زبان میں بھی اٹھارہویں صدی تک تمثیل یا ڈرامے کی روایت موجود نہیں ہے۔

پہلی مضبوط روایت جو ہمیں ملتی ہے، وہ اردو زبان میں ڈرامے کی ہے۔ انیسویں صدی کے آغاز میں اودھ کے حکمران واجد علی شاہ کے دربار سے منسلک شاعر امانت لکھنوی نے اندرسبھا کے عنوان سے برصغیر میں اردو کا پہلا سٹیج ڈرامہ تحریر کیا جس کی اہمیت تاریخ ساز ہے۔ اس ڈرامے میں سے ایک طرح سے برصغیر میں اردو زبان میں تھیٹر کی روایت شروع ہوئی۔

اندر سبھا، ڈرامہ کیا تھا، ایک گیتوں بھری کہانی تھی جو سٹیج ڈرامے کے انداز میں تحریر کی گئی تھی۔ امانت لکھنوی کو اردو زبان میں گیت کی روایت کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ ہندو مذہب میں موسیقی کو جو فضیلت حاصل ہے اس کو یہاں ڈراموں میں گیتوں کی شمولیت کی ایک وجہ سمجھا جاتا ہے؛ تاہم ہندوستان میں تھیٹر میں اور بعدازاں فلموں میں بھی جو گیتوں کی روایت پڑی، اس کی بڑی وجہ اردو زبان کا پہلا ڈرامہ اندر سبھا ہی سمجھا جاتا ہے۔

فلموں سے پہلے برصغیر میں پارسیوں کا تھیٹر معروف تھا۔ ان میں اہم نام کھٹاؤ کے تھیٹر کا ہے۔ بمبئی میں کھٹاؤ کے تھیٹر میں جو ڈرامے پیش ہوتے تھے ان میں بھی کافی تعداد میں گیت ہوتے تھے بلکہ بعض صورتوں میں تو گیتوں کی مدد ہی سے کہانی آگے بڑھتی تھی۔ پھر اردو میں احسن، بیتاب اور آغا حشرکاشمیری جیسے لکھنے والے آئے جنہوں نے عالمی ادب کی کہانیوں کے تراجم بھی اگر اردو زبان میں ڈرامے کی شکل میں پیش کیے تو وہ بھی گیتوں اور اشعار سے بھرپور ہوتے تھے۔

پھر آتا ہے فلم کا زمانہ۔ برصغیر میں مغرب سے پہلے تو خاموش فلموں کا دور آیا۔ ان فلموں میں چونکہ آواز کا عمل دخل نہ تھا لہٰذا یہ گیتوں سے مبرا ہوتی تھیں مگر یہ بہت مختصر دور ہے اور اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ جن تھیٹروں میں خاموش فلمیں دکھائی جاتی تھیں وہاں وقفوں میں فنکار گانے بجانے سے سامعین کو محظوظ کرتے تھے۔پھر 1931ء میں جب پہلی بولتی فلم عالم آرا بنی تو اس میں درجن بھر گیت تھے۔ اسی دور میں اندرسبھا کے نام سے جو فلم بنی اس میں 59 گیت تھے۔ اسی طرح اس دور میں شیریں فرہاد کے نام سے 42نغموں والی فلم بنی۔

اس سے آپ اندازہ کرلیں کہ اتنی تعداد میں گیتوں کی موجودگی میں، بھلے وہ دو دو منٹ کے ہی ہوں، مکالموں وغیرہ کی کس قدر گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔

فلموں میں گیتوں کی یہ روایت برصغیر میں آج بھی زندہ ہے، اس کے باوجود کہ یہاں عالمی شہرت یافتہ فلمی ہدایتکار اور فلمساز پیدا ہوئے ہیں مگر ابھی تک ہماری فلم، گیتوں کے سحر سے آزاد نہیں ہوسکی۔ آج کل گیتوں کی تعداد کافی محدود ہوچکی ہے مگر بغیر گیتوں کے کم ہی کوئی فلم باکس آفس پر کامیاب ہوسکی ہے۔

ہندوستان میں ڈرامے کو گیتوں کے چنگل سے ریڈیو نے آزاد کروایا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ریڈیو پر کنٹرول انگریزوں کا تھا اور ان کے اپنے ہاں ایسی کوئی روایت موجود نہ تھی کہ ڈراموں کو گیتوں سے مزین کیا جائے۔ ان کے ہاں اگر ڈرامہ یا فلم کسی گانے والے یا گانے والی کی زندگی پر بنے، تب تو گانوں کی گنجائش ہوتی تھی وگرنہ وہ اپنی اس حس کی تسکین میوزیکل ڈراموں اور Operaوغیرہ سے پوری کرتے تھے۔ مغربی تہذیب میں موسیقی کا بہت مقام ہے اور میرا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس تہذیب کو موسیقی سے دور ثابت کیاجائے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ خالص سٹیج ڈرامے میں انگریزوں کے ہاں چونکہ ہماری طرح گیتوں کا استعمال نہیں تھا لہٰذا انہوں نے آل انڈیا ریڈیو میں ایسے ڈراموں کی ابتدا کروائی جو ہندوستان میں موجود اندرسبھا کی روایت سے ہٹ کر ہوتے تھے۔

اس کے لیے شروع شروع میں تو زیادہ تر انگریزی ڈراموں کے تراجم یا انگریزی، فرانسیسی یا روسی کہانیوں سے ماخوز ڈرامے ہی ریڈیو پر نشر ہوتے تھے۔ ان ڈراموں کا ترجمہ کرنے والے بعدازاں بلغراد ریڈیو ڈرامے لکھتے جو ہمارے سماجی اور معاشرتی مسائل سے متعلق ہوتے تھے۔ اس طرح یہ روایت مضبوط ہوتی گئی۔

جب پاکستان بنا تو یہی روایت ریڈیو پاکستان نے اختیار کی اور اس ادارے میں نامور لکھنے والوں نے ایسے ایسے معرکہ آرا ڈرامے لکھے جو اس ملک کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ فلموں میں گیتوں کی روایت کے زیر اثر ریڈیو میں بھی پچاس اور ساٹھ کے عشرے میں کوشش ہوئی تھی کہ ریڈیو ڈرامے میں گیت ڈالے جائیں مگر بغیر گیتوں کے ریڈیو ڈرامہ اس قدر مضبوط روایت بن چکا تھا کہ یہ کوشش ناکام ہوئی اور گیتوں بھری کہانیاں یا ڈرامے کوئی خاص شہرت حاصل نہ کرسکے۔ پاکستان میں جب ٹی وی آیا تو ٹی وی ڈرامے نے فلموں کے پیچھے چلتے ہوئے ڈراموں میں گیت شامل کرنے کی روایت سے گریز کیا اور ریڈیو نے جو مضبوط ڈرامے کی روایت قائم کی تھی اس کو اختیار کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارے ہاں ٹی وی ڈرامے کی روایت خاصی مضبوط ہے۔

آج کل غیر ملکی ٹی وی ڈراموں کو اردو میں ڈب کرکے پیش کرنے کا سلسلہ کافی مقبول ہورہا ہے مگر یہ بظاہر ایک وقتی سی بات ہے۔ ہمارے ڈرامہ پروڈیوسرز کو مقابلہ کرنا چاہیے۔ ہمارے ملک میں جو سرمایہ کار ہیں، ان کو کھل کر تعاون کرنا چاہیے۔ مضبوط روایت اور وافر سرمائے سے ہمارا ٹی وی ڈرامہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتا ہے۔