محمد ہاشم القاسمی
بھارت جوڑو یاترا آئین کی حفاظت کی یاترا ہے، آئین کے بغیر ہمارے ترنگے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ اس یاترا میں آپ کو نفرت، تشدد نظر نہیں آئے گا، ہر مذہب، ہر ذات، ہر علاقے، ہر زبان کے لوگ اس یاترا میں ساتھ چل رہے ہیں۔
بھارت جوڑو یاترا کا مقصد بی جے پی اور سنگھ پریوار کے نظریہ کے خلاف کھڑا ہونا ہے جو نفرت اور تشدد پھیلا رہی ہے۔
جب بھیڑ میں لگتا ہے، جب کوئی گرتا ہے، ہر کوئی اسے اٹھاتا ہے، اس کی مدد کرتا ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ تمہارا مذہب کیا ہے، تمہاری ذات کیا ہے، تمہاری زبان کیا ہے، یہ ہمارا پیارا ہندوستان ہے۔ امن کا ہندوستان، بھائی چارے کا ہندوستان ہے۔ یہ یاترا کنیا کماری سے کشمیر تک چلے گی اور اسے کوئی نہیں روک سکتا، کوئی طاقت اس پد یاترا کو نہیں روک سکتی، کیوں کہ یہ پد یاترا ہندوستان کی آواز ہے۔ اس پد یاترا میں لوگ ہم سے ملتے ہیں اور اپنا درد بیان کرتے ہیں۔پد یاترا میں لوگ ہمیں بے روزگاری، مہنگائی، کسانوں کے خلاف مظالم، عوامی کمپنیوں کی نجکاری کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ہماری پد یاترا کے بعد لمبی تقریریں نہیں کی جاتی ہیں۔ ہماری پد یاترا کا مقصد آپ کو سننا ہے، آپ کو بتانا نہیں، جمہوریت میں مختلف ادارے ہوتے ہیں، میڈیا ہے، پارلیمنٹ ہے، یہ تمام راستے اپوزیشن کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔ ہم سے میڈیا میں بات نہیں کی جاتی، پارلیمنٹ میں بولنا ہو تو وہاں ہمارا مائیک بند کر دیا جاتا ہے۔ ایوان کو چلنے نہیں دیا جاتا، احتجاج کرنے پر اپوزیشن کو حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ تو ایسے وقت میں ہمارے پاس ہزاروں کلومیٹر پیدل چل کر عوام کے درمیان جانے کا ہی راستہ باقی ہے۔ ہمیں اس راستے پر چلنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔مندرجہ بالا باتیں کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کے دوران مختلف مواقع پر کہیں۔
کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے میسور میں بارش میں بھیگتے ہوئے ایک پرہجوم ریلی سے خطاب کیا، اس موقع پر ان کی تقریر سننے کے لیے تیز بارش کے دوران بھی لوگ میدان میں ڈٹے رہے اور درمیان میں نعرے بھی لگاتے رہے، اس کی وجہ سے کانگریس میں زبردست جوش و خروش دیکھا جارہا ہے، اس موقع پر اپنی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کو بابائے قوم مہاتما گاندھی کے نام وقف کرتے ہوئے راہول گاندھی نے کہا کہ ”مہاتما گاندھی نے لوگوں کو ہمیشہ آگے بڑھنے، بے خوف رہنے اور خود مختار رہنے کا درس دیا ہے، اس لیے ان کے ماننے والوں کو یہ بات ہمیشہ گرہ میں باندھ کر رکھنی چاہیے۔ ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلنے والوں کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔“
اس پر کیف نظارہ پر کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے ٹویٹ کیا کہ ”شروعات میں، میں نے راہول گاندھی کو کور کرنے کی کوشش کی، لیکن پھر دیکھا کہ وہ بارش کے رکنے کا انتظار نہیں کرنا چاہتے تھے کیوں کہ ہزاروں لوگ انہیں سننے کے لیے بارش میں بھیگ رہے تھے تو میں بھی انہیں سننے لگا۔ انہوں نے اپنا خطاب جاری رکھا اور پوری طرح بھیگ گئے۔ ایک سچا ہندوستانی لیڈر۔“
راہول گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کے دوران کرناٹک کے میسور میںگرج چمک اور شدید بارش میں بھیگتے ہوئے اپنا خطاب جاری رکھا۔
سوشل میڈیا میں راہول گاندھی کا یہ ویڈیو کافی وائرل ہو رہا ہے اور خوب چرچے ہو رہے ہیں، نوجوانوں میں کافی جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے، راہول گاندھی کو ایک ہمدرد اور سچا لیڈر کی حیثیت سے شناخت مل رہی ہے اور اس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ آئندہ 2024 کے لوک سبھا الیکشن میں اس کے کتنے اثرات پڑنے والے ہیں، تاہم تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے نقصان تو نہیں ہوگا البتہ کتنا فائدہ مند ثابت ہوگا یہ کہنا فی الحال مشکل ہے، لیکن کانگریس کو اس کا فائدہ ضرور ہوگا اور راہول گاندھی کے ذاتی امیج کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر ے گی۔
راہول گاندھی نے ریاست کرناٹک کے اپنے دورے کے تیسرے دن 3/اکتوبر پیر کو چامنڈی پہاڑیوں پر واقع چامنڈیشوری مندر اور ایک چرچ بھی گئے، ستور مٹھ میں، شری شیو راتری دیش کیندر سوامی جی سے ملاقات کی جو ایک ممتاز لِنگایت پیروکار ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے شہر میں مسجد اعظم کا بھی دورہ کیا اور ذمہ داران سے ملاقات کی، اس موقع پر کچھ سرکردہ لوگوں نے راہول گاندھی سے ملاقات کی۔
آئندہ 21 دنوں میں یہ یاترا کرناٹک میں 511 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرے گی۔ اس طرح 5 ماہ میں 3570 کلومیٹر کی یہ یاترا ٹامل ناڈو کے کنیا کماری سے جموں کشمیر کے سری نگر تک کی ہے۔
ٹامل ناڈو اور کیرالا کے بعد راہول گاندھی کی ”بھارت جوڑو یاترا“ کرناٹک میں بھی مقبول ہورہی ہے۔ سوشل میڈیا پرموجود ویڈیوز میں یاترا کو دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ پارٹی کارکنان یا سماجی و صحافتی اداروں کی جانب سے اس کے چند ایسے مناظر خاص طور پر پوسٹ کیے جاتے ہیں جن میں راہول گاندھی کسی بچی کی جوتیوں کا فیتہ درست کررہے ہیں تو ان سے ملنے کے بعد ایک لڑکی خوشی سے رو پڑی ہے۔ یہ متاثر کن ویڈیوز یاترا کے دوران رونما ہونے والے چھوٹے چھوٹے خوشگوار واقعات سے متعلق ہیں، مگر ان واقعات سے زیادہ اہمیت اس واقعہ کی ہے جس پر سوشل میڈیا میں شاید خاموشی رہی۔
راہول گاندھی نے میسور و ہائی وے سے متصل ایک گاﺅں (بدناوالو) میں کچھ ایسا کیا جو برسوں یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے اس گاﺅں کی 180 میٹر کی ایک رہگزر کی تعمیر کے لیے اپنے ہاتھوں سے اینٹیں رکھیں اور اس موقع پر مقامی آبادی کے دو ایسے طبقات کو اپنے ساتھ کھانے پر مدعو کیا جو 25 مارچ 1993ءکے ایک ناخوشگوار واقعہ کے بعد سے ایک دوسر
ے سے نالاں تھے اور ان میں رابطہ نہیں تھا۔ یہ ناخوشگوار واقعہ تب رونما ہوا تھا جب لنگایت برادری کے افراد نے مقامی سدھیشور مندر میں دلتوں کے داخلے پر اعتراض کیا تھا۔ معاملہ بڑھا، پُرتشدد ہوا اور تین دلت موت کے گھاٹ اتار دیے گئے جس کے جواب میں دلتوں نے لنگایتوں کے چند مکانات پھونک دیے۔ اس کے بعد سے دونوں برادریوں میں بھلے ہی کوئی اور ناخوشگوار بات نہیں ہوئی مگر وہ آپس میں ملے بھی نہیں۔ راہول نے دونوں برادریوں کے لوگوں کو دوپہر کے کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دے کر گویا گلے شکوے بھول جانے اور مل جل کر رہنے کی دعوت دی جس کا گاﺅں کے لوگوں نے دلی خیرمقدم کیا۔
ہندوستان کی جنگ آزادی کی کوکھ سے جنم لینے والی انڈین نیشنل کانگریس لامحدود جدوجہد اور قربانیوں کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ ملک کے کروڑوں باشندگان نے کانگریس کی قیادت میں جس انقلاب کا آغاز کیا تھا، وہ برطانوی حکومت سے آزادی حاصل کر کے اپنی حکومت اور اپنے آئین کے لیے تو تھا ہی، اس کا ایک اہم مقصد ہر طرف پھیلی عدم مساوات، امتیازی سلوک، تعصب، قدامت پسندی، چھوا چھوت اور تنگ نظری کو ختم کرنا بھی تھا، کروڑوں کانگریسیوں نے آزادی کی جدوجہد میں جیل کے غیر انسانی تشدد کو برداشت کیا اور مادر ہند کی آزادی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم، پنڈت جواہر لال نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کے معاونین نے نہ صرف ملک کو متحد کیا بلکہ منصوبہ بندی کمیشن اور پنج سالہ منصوبے کے توسط سے اناج، ڈیم اور آبپاشی، پاور پلانٹ، جوہری توانائی، سڑک، ریل، مواصلات، سیکورٹی، تعلیمی اداروں، تحقیقی اداروں، فیکٹریوں اور بنیادی ڈھانچہ اور ترقی کی بنیاد کھڑی کی اور بعد آنے والی کانگرس کی حکومت میں اسے پروان چڑھایا۔
لیکن آر ایس ایس اور بی جے پی کی سازشی قوتوں کو یہ پسند نہیں آیا کہ یہاں کے عوام کو سماجی حقوق حاصل ہوں اور یہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رہے، اس لیے طرح طرح کے حربے استعمال کر کے لوگوں کے حقوق چھیننے کی کوشش کی گئی۔ نوٹ بندی کے نام پر ملک کے روزگار اور کاروبار پر حملہ کیاگیا، جی ایس ٹی کے نام پر چھوٹے چھوٹے اور درمیانے کاروباروں کو تالابندی کے دہانے پر لا کھڑا کیا گیا۔ پھر کورونا کے نام پر لاک ڈاﺅن لگا کر بھی لوگوں کو تِل تِل کا محتاج بنا کر مرنے پر مجبور کیا گیا۔ تکبر کا یہ عالم تھا کہ گنگا نعشوں سے اٹی پڑی تھی لیکن متکبر حکمران کو وہ نعشیں نظر نہیں آئیں۔
گزشتہ 8 سال میں ملک میں بے روزگاری کا دور دورہ ہے، مہنگائی کی آگ نے ہر کسی کو جھلسا دیا ہے۔ عوام کے لیے گیس سلنڈر خریدنا بھی ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ جبکہ پٹرول، ڈیزل، آٹا، تیل، دالیں، سبزیاں، روزانہ استعمال کی چیزوں کے دام آسمان پر ہیں۔ روپیہ کی قیمت لگاتار گر رہی ہے، لوگوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے اور حکومت ہر سرکاری ادارے کو فروخت کرنے پر آمادہ ہے۔ اپنی انہی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے موجودہ بی جے پی حکومت ملک میں فرقہ وارانہ دشمنی کا ماحول تیار کر رہی ہے۔ اقلیتوں، دلتوں اور غریبوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بی جے پی مذہب اور ذات کے نام پر نفرت کے بیج بوکر طاقت کی بھوک مٹا رہی ہے۔ اس سے ملک کے مستقبل کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
آج سے ٹھیک 80 سال پہلے 1942 میں مہاتما گاندھی نے ‘بھارت چھوڑو‘ کا نعرہ دیا تھا اور آج سال 2022 میں کانگریس کا نعرہ ہے ‘بھارت جوڑو”۔
٭٭٭