ایم اے حفیظ کوڑنگلی
٭ یہ عروج خاکی ہے کہ ہمیں اس شہر کی عظیم و نامور شخصیت کی خدمات، احسانات اور خوبیوں کے تذکرہ کا موقع دیاگیا ہے جنہوں نے اس چھوٹے سے سنسان شہر کو ایک عظیم و باوقار شہر میں تبدیل کردیا۔ موصوف شہر کی کئی فلاحی امدادی ودینی تنظیموں سے وابستہ ہیں‘ جیسے ”انجمن رہبر بے روزگاران و سڑک چھاپان کے سکریٹری جنرل“ تنظیم فروغان احسان و سلوک و خدمتِ خلق کے معتمد اعلیٰ، بزم کاروان اشاعت اردو کے ناظم و سکریٹری‘ تحریک امداد بیوگان و مطلقان و بازآباد کاری کے بانی اور تاحیات صدر، گروہ معصومین ماتم گراں و نوحہ خوانِ وشامِ غریباں کے اعزازی قائد۔ کمیٹی برائے تحفظ مجرمینِ و ملزمین و متعلقین کے کنوینر۔ اس کے علاوہ شہر کی مختلف مسجدوں‘ مدرسوں‘ دینی درسگاہوں اور درگاہوں کی انتظامی کمیٹیوں کے سرپرست اور مستقل ممبر۔
٭٭ اس تقریب کے سلسلہ میں تالیوں‘ سیٹیوں‘ نعروں ‘ تعریفی و توصیفی فقروں ‘ پھول کے باروں‘ سواری خرچ‘ قیمتی تحفہ جات اور معیاری ضیافت کے تمام اخراجات موصوف نے خود برداشت کیے ہیں۔ ہم اس اہتمام کے بغیر بھی اُن کی تعریف و توصیف کرتے کیوں کہ ہم کسی کی دلآزاری کے قائل نہیں۔ موصوف متنازعہ شخصیت ضرور ہیں، لیکن آج کل گاندھی، نہرو، ٹیپو سلطان و اورنگ زیب جیسے نامور لیڈربھی کسی نہ کسی تنازعہ کے شکار ہیں۔ خیر خواہی، ہمدردی، بے لوث خدمت، مروت ان کو اپنے اسلاف سے ملی ہے۔ ان کے والد بزرگوار اسی گاو¿ں کی گرد آلود میلی کچیلی غیر مسطح سڑکوں پر ٹھیلہ بنڈی پر پلاسٹک کے کھلونے بیچا کرتے تھے، لیکن اس سپوت نے اپنی محنت جستجوو چابک دستی و چالاکی سے کروڑوں کی وراثت کھڑی کردی ہے۔ اس میں ان کی ابنُ الوقتی، دور اندیشی (جسے وہ روشن ضمیری کہتے ہیں) کا بڑا دخل ہے۔ انہوں نے دولت و اقتدار حاصل کرنے کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اس شہر کا ہر فرد چاہے وہ زندہ ہو یا مردہ ان کے احسانوں تلے دباہوا ہے۔ حاسدین و نقاد اُن کے ہر عمل پر شدید الزامات لگاتے رہے ہیں لیکن وہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے اپنی تگ و دو جاری رکھے ہیں۔
٭ آپ کو اہل قبور سے خاص انسیت و عقیدت رہی ہے۔ احتراماً اُن کی باقیات‘ نشانیات‘ تبرکات کے تحفظ کی خاطر قلب شہر کے قبرستان کو اپنی کفالت میں لے لیا۔ اس کی صفائی نگہداشت بڑی محنت و جانفشانی سے کرتے رہے۔ جب اگلی عید پر حسب روایات فاتحہ خوانی و چادر گل کے لیے لوگ قبرستان پہنچے تو وہاں ایک بڑے حصہ پر شاندار دیدہ زیب سہ منزلہ عمارت کھڑی نظر آئی۔ ان کو یہ جاننے میں دیر نہیں لگی کہ موصوف نے قبور کی حفاظت ودیکھ بھال کے لیے اپنی رہائش گاہ کو قبرستان میں منتقل کرلیا ہے۔ لوگ خاموشی سے پھول، عطر، صندل ان کے مکان کے درودیوار گیٹ و کھڑکیوں پر ڈالکر مکان کے روبرو فاتحہ خوانی کرکے چلے گئے۔
٭ گو کہ آپ کی جسمانی رنگت فریقی نسل سے ملتی جلتی ہے لیکن دل و طبیعت میں عاشق مزاجی ہے۔ خواتین ان کی کمزوری رہی ہےں۔اُن کے حسنِ اخلاق و کردار کی بلندی کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ جب کوئی کم عمر خوبصورت بیوہ یا مطلقہ یا ان کے یتیم بچے ان سے کوئی مدد مانگتے آتے تو وہ ماہی ¿ بے آب کی طرح بے تاب و مضطرب ہوجاتے اور بڑی دریا دلی و فراخ دلی کا معاملہ کرتے۔ اُن کا خیال ہے کہ شہر کی کوئی خوبصورت بیوہ یا مطلقہ کو بن بیاہی نہیں رہنا چاہیے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ایک بیوی پر اکتفا کرنا مرد کی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس پر ان پر کئی الزامات لگے، لیکن وہ کہنے لگے میں ان اُڑن بھڑنگ حرف گیری کے خوف سے اِن بے سہارا بیواو¿ں، یتیموں کی امداد سے دستبردار نہیںہوسکتا۔ ان کاایقان تھا کہ محنت اتنی خاموشی سے کی جائے کہ کامیابی چیخ چیخ کر بول اٹھے۔
٭ وہ مکان کے کمرے میں شب بسری سے پرہیز کرتے تھے‘ خوف تھا کہ کہیں ان کے خراٹوں کے ارتعاش سے کمرے کی دیواروں کا پلاسٹر نہ جھڑ جائے۔ کوئی بیمار ان کی نظرِ عافیت سے نہیں بچا۔ اُسے علاج معالجہ کے لیے خود دواخانہ لے جاتے۔ شخصی طور پر علاج پوری توجہ و ذمہ داری سے کرواتے اور پو رے اخراجات خود برداشت کرتے۔ ڈاکٹروں سے ساز باز اور گردہ چرانے کے الزامات بھی ناقدین کی طرف سے لگائے گئے۔
٭ انہوں نے شہر کے کسی مریض کو اپنی تیمارداری کے بغیر مرنے نہیں دیا۔ عام تاثر ہے کہ زیادہ تر بیمار ان کی تیمار داری کے فوراً بعد لقمہ اجل ہوگئے۔ ان کی تیمارداری اور عزہ داری کے جملوں میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔ کئی بیمار ان کے الفاظ کو پرسہ سمجھ کر اپنے آپ کو مردہ سمجھ بیٹھے۔
٭ اپنے شہر کے وہ پہلے شخص ہیں جو ایک عدد استعمال شدہ بھاری بھرکم موٹر سائیکل خرید کر شہر کی رونق کو چار چاند لگاچکے ہیں۔ ابتدائی دنوں میں معاشی تنگی کی وجہ سے پٹرول کے بجائے ’کیروسین‘ استعمال کرتے اور اس کی آواز اور سیاہ دبیز دھواں اور کیروسین کی بو‘ سے گرد و غبار و گڑگڑاہٹ کی تیز آواز سے بھگڈر مچ جاتی۔ دل کے مریض اپنا کلیجہ تھام لیتے، جب شیرخوار بچے آواز سے خوفزدہ ہوکر نیند سے بیدار ہوتے تو ماں کہتی۔”شائد وہ مردود جارہا ہے“ لیکن باوجود اس کے ہر شہری کو ان کی bycle پر ناز تھا کہ اس کی وجہ سے شہر کی رونق و چہل پہل میں اضافہ ہوا ہے۔
٭٭ اُن کا ہر قدم شہریوں کی خدمت میں اٹھتا۔ جب ان کا اکلوتا نوجوان لڑکا اپنی کالج کی لڑکی کے ساتھ رفوچکر ہوگیا ۔ قربان جائیے اس مرد مجاہد کے چہرہ پہ شکن تو کیاتھکن کے آثار بھی نمایاں نہیں ہوئے۔ بڑے سکون و اطمینان سے کہا کہ لڑکا بالغ ہے، اس کا فیصلہ مجھے منظور ہے۔ اُن کا اصرار صرف یہ تھا کہ والدین لڑکی کے لیے ایک کلو سونا دلوادیں۔ لوگوں نے سخت ناگواری کا اظہار کیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ مجھے صرف اپنے شہر کے غریب و نادار بے سہارا لوگوں کی فکر ہے ۔ ہر سال اس کی زکوٰة کی رقم سے میں ان کی مدد کرسکتا ہوں۔ مجھے اور میرے لڑکے کو کچھ نہیں چاہیے۔ لوگ ان کے جذبہ خدمتِ خلق سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
٭ سماجی و فلاحی و سیاسی سرگرمیوں میں اُن کی مقبولیت سے متاثر ہوکر برسر اقتدار پارٹی نے انہیں شہر سے اسمبلی کا امیدوار کیا، لیکن عین الیکشن سے کچھ دن پہلے وہ صحت کی وجہ بتاکر مقابلہ سے دستبردار ہوگئے اور حزب اختلاف کا امیدوار کامیاب ہوگیا۔ پارٹی نے ان پر مخالف امیدوار سے موٹی رقم لے کر کامیاب بنانے کا الزام لگایا۔ جلوس دھرنے گھیراو¿ ہونے لگے۔ انہوں نے الزام سے صاف انکار کردیا۔ جب دباو¿ بڑھا تو انہوں نے پارٹی آفس میں تمام پارٹی لیڈرس اور شہر کے معزز و دیندار شخصیتوں کو جمع کیا اور اعلان کیا کہ میں قرآن مجید ہاتھ میں لے کر قسم کھاتا ہوں کہ میں نے حزب اختلاف امیدوار سے ”ایک پیسہ“ نہیں لیا ہے۔ شر پسندوں حاسدوں کی سازش ہے جو میری مقبولیت سے نالاں ہیں، لیکن ناقدین کا اصرار تھا کہ جب ملک میں ’ایک پیسہ‘ کا سکہ رائج ہی نہیں ہے تو وہ کس طرح لے سکتے ہیں۔ انہوں نے انتہائی مکاری و چالاکی سے ان الفاظ کا استعمال کیا ہے، لیکن لوگ ان سے متفق نہیں تھے۔ وہ اس بار بھی اس الزام سے صاف بچ نکلے۔
٭٭ آپ کو شاعری سے دلچسپی ہے۔ اُن کا کلام مختلف رسالوں‘ اخبارات میں شائع ہوتا رہا ہے۔ کچھ شاعروں کا خیال ہے کہ وہ ”نصف صدی پرانا ماہنامہ ”بیسویں صدی“ سے اشعار چرا کر اپنے نام سے شائع کرتے ہیں۔ وہ شہر میں ہمہ مقصدی ،منقبتی، صوفیانہ،‘ نعتیہ، طرحی و غیر طرحی و حب الوطنی کے جلسے و مشاعرے منعقد کرتے اور خود صدر جلسہ بن بیٹھتے ہیں۔ وہ قومی یکجہتی کے علمبردار ہیں۔ ایک ایسے ہی مشاعرہ میں ان کی نظم کا شعر یوں تھا۔
تیرا میرا شیشہ کا گھر
میں بھی سوچوں تو بھی سوچ!
تیرے میرے ہاتھ میں پتھر
میں بھی سوچوں تو بھی سوچ!
چوں کہ مدعوئین اور مشاعرہ کا پورا خرچ وہ خود اٹھاتے ہیں‘ اس لیے ان کے اس شعرپر مدعوین کا کچھ زیادہ ہی بھیانک ردّ عمل رہا۔ واہ واہ، خوب، مکرر، سیٹیاں ،نعرے ، قہقہے اس طرح ابھرے کہ پورے سامعین اسٹیج کی طرف پھولوںکے ہار پہنانے لپکے اور ہجوم کی کھینچاتانی میں ایک ہار ان کے گلے کا پھندا بن گیا۔ افراتفری کے عالم میں مشاعرہ کے اختتام کا اعلان کرنا پڑا۔ لوگوں کا خیال تھا اُن کا یہ شعر ’قومی یکجہتی‘ کی نہیں ’قومی منافرت‘ کی دعوت فکر دے رہا ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ شہر کے بڑے صنعت کاروں ‘ بیوپاریوں اور دولتمند لوگوں سے انہوں نے اس مشاعرہ کے لیے بھاری donation وصول کیا تھا۔
٭ یہ خبر بھی گردش کررہی ہے کہ Bank سے لون لے کر واپس نہیں کرنے والوں میں ان کا نام بھی ہے اور کروڑوں کے فراڈ کی تحقیقات جاری ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ بھی کسی حاسد و نقاد کی کارستانی ہوگی اور یہ بھی پچھلے الزامات کی طرح غلط ثابت ہوں گے۔ اور یہ رقم انہوں نے اپنے شہر کے غریب غرباءپر خرچ کی ہوگی۔ ویسے اگر بات بڑھی تو کوئی بھی ملک اس عظیم شخصیت کو سر آنکھوں قبول کرے گا اور وجئے مالیا، للت مودی، میہول چوکسی کی طرح بیرون ملک میں بھی پُر عیش با عزت زندگی گزارسکیں گے، لیکن نقصان تو شہر کے غریب و نادار اور بے سہاروں کا ہوگا۔ بیوائیں پھر بیوہ ہوں گی اور یتیم دوبارہ یتیم۔
اور عظیم ملک ایک عظیم شخصیت کو کھودے گا۔
ہزاروں بار پبلک اپنی مجبوری پہ روتی ہے
کہ جب جب بھی یہ ہوتا ہے زمیں پر بے سبب پیدا
٭٭٭