سیاستمضامین

جی۔20 ‘مضحکہ خیز کانفرنسوں میں ایک اضافہ

سلیم مقصود

ارون جب ہندوستان کے وزیر مالیہ تھے تو انہوں نے یہ خوش خبری ہندوستان کی عوام کو سنائی تھی کہ بہت جلد ہندوستان3 ٹریلین معیشت بننے والا ہے۔ اس کے تھوڑے ہی دنوں بعد ہمارے وزیراعظم مودی نے برطانیہ میں مقیم ہندوستانی نژاد باشندوں کو اپنے خطاب کے دوران یہ خبر دی تھی کہ ندوستان5ٹریلین ڈالر کی آمدنی والا ملک بننے کے بہت قریب ہے۔ اس سال ہمارے ملک کا بجٹ چین کے بجٹ کے مقابلے مںے گھاٹے کاشکار ہوچکا تھا۔
حالیہ عرصہ میں بارہا ہماری وزیر خزانہ اور ہمارے وزیراعظم یہ کہتے رہتیہیں کہ ہماری آمدنی اور ہماری GDP میں قابل لحاظ اضافہ ہورہا ہے۔ اکثر ہماریآمدنی کو جب 6فیصد سے زائد بتایا جاتا ہے تو ہمارے بعض معاشی ماہرین اس بات کا انکشاف کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہماری آمدنی سالانہ 4فیصد سے تجاوز نہیں کرتی یہ اور بات ہے کہ ہم اس میں گزشتہ سال کی آمدنی کا اضافہ کرکے اسے کبھی6فیصد اور کبھی 6فیصد سے زیادہ بتاتے ہیں۔
انگریزی روزنانہ ’’ ہندو‘‘ کی رپورٹ کے مطابق عالمی بینک نے2024ء تک ہندوستان کی جی ڈی پی کا تخمینہ6.3 فیصد لگایا ہے۔ اس کا اندازہ ہے کہ ہمارے ملک کی آمدنی مالی سال2023-24ء میں ماہ اپریل تک 6.3فیصد تک پہنچ جائے گی ۔ آر بی آئی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ہندوستان جاریہ سال7.2 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ حالانکہ ماہرین معاشیات نے اسے گزشتہ سال اور جاریہ سال کی مالیاتی حالت کے باہمی جائزے کا نتیجہ قراردیا ہے ۔ ایسا ہی ایک واقعہ چین کے ساتھ بھی ایک بار ہوچکا تھا جب اس کی 9تا 10فیصد مقرر جی ڈی پی غلطی 12فیصد شمار کی گئی تھی۔ مالیاتی ترقی کے مستقبل کے بچعض تجزیئے غلط ثابت ہوتے رہے ہیں۔ آر بی آئی کا مالی سال2023-24 کی ترقی کا تخمینہ7.2 فیصد تھا جسے ماہانہ سال کا اندازہ قرارنہیں دیا جاسکتا۔ کیوں کہ اس میں موجودہ حکومت کے اور گزشتہ سال یعنی 2023ء کے نتائج بھی شامل ہوں گے اگر اس میں سے سال ماضی کے 6.5فیصد حصہ کو خارج کردیا جائے تو قوت ترقی فی سال 4فیصد سے بھی کم ہوجائے گی۔ ماہرین نے رواں مالی سال مہنگائی ‘ افراطِ زر میں اضافے‘ پٹرول ‘ گیاس کے داموں کے بڑھنے کے علاوہ ضروریات کی دیگر اشیاء کی گرانی کو شامل کرتے ہوئے اس کا اندازہ لگایا ہے ۔ انہوں نے عوام الناس کو مشورہ دیا ہے کہ وہ آنے والے سال کی ناقابل برداشت مہنگائی کا اندازہ لگاتے ہوئے ضروریات زندگی کے سوائے کسی اور چیز پر مصارف نہ کریں۔
عالمی بینک اور مالیاتی ادارے دونوں کے اکثر اندازے صحیح ثابت نہیں ہوتے۔ عالمی بینک نے ہندوستان کی مالیاتی ترقی کا آئندہ سال کا اندازہ7.4 فیصد لگایا ہے اور عجیب و غریب تجرباتی بات بھی کہی ہے کہ 2008ء کی طرح عالمی مالیاتی نظام میں خسارے کے باوجود بھی ہندوستان کی ترقی کی شرح 7.2 فیصد تک پہنچ جائے گی اور اس کے لئے ہندوستان G-20 ممالک کی فہرست میں دوسرے مقام پر پہنچ چکا ہے۔ تاہم اس نے یہ نہیں بتایا کہ اس وقت تک ہندوستان کی بڑھتی ہوئی مہنگائی ‘ غربت میں اضافے‘ افراط زر کے سبب عام اشیاء کی عدم دستیابی کا کس طرح انسداد ہوگا ۔ اس کا خیال ہے کہ یہاں سرمایہ کاری میں بھی قابل لحاظ اضافہ ہوگا اور وہ 8.9 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ تاہم اس نے یہ نہیں بتایا کہ ہندوستان کی مارکٹنگ میں اس قدر اضافہ ہوگا ‘ ہر سال اس میں 6فیصد سے زیادہ صارف پیدا ہوتے ہیں۔ تو کیا سرمایہ کار ممالک ان کے لئے اس سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ اپنے اضافی منافع کے حق دار نہیں ہوں گے۔ ہندوستان کی عالمی کمپنیوں میں مسلسل کمی ہورہی ہے ‘ تنخواہیں گھٹ رہی ہیں۔ ہندوستان کی برآمدات میں رواں سال اپریل تا اگست4.55 فیصد کمی ہوگئی ہے جو44.42بلین ڈالر کے برابر پائی گئیں۔ ڈالر کی غیر مستقل شرح کو دیکھتے ہوئے بعض کمپنیاں ہندوستان کے بجائے خود اپنے ہی ملک میں روزگار کے مواقع کو ترجیح دیں گے۔ ہندوستان میں امریکی اور یوروپی کمپنیوں کا سرمایہ کاری کا اصل مقصد ہندوستان کے لیبر کی کم شرحوں سے فائدہ اٹھانا ‘ سستے داموں کی اشیاء کو خریدنا اور ہندوستانی کرنسی کی عالمی کرنسیوں کے مقابلے میں گرتی ہوئی قیمتوں سے فائدہ اٹھانا ہے۔ لوگ اپنے ملک کے مقابلے میں ہندوستان کے اسٹاف کو کم سے کم تنخواہوں پر حاصل کرلیتے ہیں اور ان کی متعدد صلاحیتوں سے آسانی کے ساتھ زیادہ فائدہ اٹھالیتے ہیں لیکن اب خود ان کے ملکوں کا حال برا ہوتا جارہا ہے ۔ G-20 کانفرنس ہمارے ملک میں ہوئی۔ اس کانفرنس کی سب سے حیرت ناک بات یہ تھی کہ اس کانفرنس میں ہمارا ملک بعض ممالک کے مقابلے میں بھی دوسرے مقام پر پایا گیا اس سے عملی طور پر ان ممالک کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا تھا ۔ ہندوستان آکر ان ممالک کے قائدین اپنے ملک ہی کے لئے سود مند ثابت نہ ہوسکے۔ صرف مودی اس کانفرنس پر عوام کا کثیر سرمایہ خرچ کرکے خود اپنی عوام ہی کو اپنی شیخی سے بے وقوف بناتے رہے۔
یو۔این۔ڈی۔پی کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے25 ممالک شدید غربت کا شکار ہیں جن میں ہندوستان بھی شامل ہے ۔ یہاں غریبوں کی تعداد415 ملین ہے۔ G-20 کانفرنس کے20اگست2023ء کے مودی کے ہندوستان کی خوشحالی کے زبانی دعویٰ کے باوجود بھی اس کانفرنس کے مہمانوں سے ان غریبوں کی حالت کو چھپانے کے لئے 4ہزار کروڑ سے زادء رقم خرچ کرنی پڑی۔
جایہ سال ماہ اگست میں غربت سے متاثرہ لوگوں کی تعداد650ملین بتائی گئی تھی جو گھٹ کر415 ملین ہوگئی تھی مگر حیرت انگیز طور پر اس سال ماہ جولائی میں این ۔ آئی ۔ آئی ۔ آئی آیوگ نے اطلاع دی تھی کہ13.5کروڑ افراد کو غربت سے نجات دلوائی گئی۔ اس رپورٹ کے متعلق بتایا گیا کہ اس سے 9.89 فیصد کی تعداد غربت سے گھٹ گئی۔حالانکہ 650ملین میں سے جملہ55 کروڑ افراد کو غربت سے الگ رکھا گیا۔ اس کوشش سے شہری علاقوں کے مقابلے میں دیہی علاقوں کی 20فیصد آبادی کو دور کردیا گیا۔ یہ دعویو یا حساب کتاب کس قدر سچے ہیں اس کا اندازہ عملی طور پر دیہی علاقوں کے دوروں سے لگایاجاسکتا ہے۔
مسٹر مودی نے G-20 کے اجلاس میں ’’ عددی معیشت کے تحفظ‘‘ (Security Digital Economy) پر زور دیا۔ انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ2015ء سے ہندوستان نے یہ کوشش شروع کردی ہے ۔ انہوں نے اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے تحفظ کا بھی تذکرہ کیا اور بتایا کہ اس مقصد کے لئے ہندوستان میں1.3بلین سے زائد شہریوں کی ’’ آدھار‘‘ شناخت کی جارہی ہے۔ مودی کی تقریر کی سب سے تعجب خیز بات یہ تھی کہ G-20 کا یہ اجلاس جس مقصد کے لئے منعقد کیا گیا تھا اس پر انہو ںنے کچھ نہیں کیا اور نہ ہی اس اجلاس کے مہمان کسی ملک نے مودی کے بیان کو کوئی بات دی یا اس موضوع پر خود کوئی رائے ظاہر کی۔ یہ کانفرنس بھی دنیا کی دیگر کانفرنسوں کی طرح بے مقصد ثابت ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کانفرنس میں مودی جی نے 4ہزار کروڑ سے زائد رقم بے مقصد صرف کردی۔ حالانکہ اس کانفرنس میں یوکرین جنگ کے سبب ساری دنیا میں پیدا ہونے والے اناج‘ توانائی‘ گیس‘ پٹرول ‘ غربت کے مسائل پر بحث کی جاسکتی تھی۔ مودی کی روس کے صدر پوٹین سے بہت قریبی تعلقات ہیں وہ دنیا کو پٹرول‘ گندم‘ غذائی تیل کی فراہمی کی درخواست کرسکتے تھے جن کے لئے مصر جیسے ملک سخت پریشان ہیں ۔ مودی نے الٹا روس سے پٹرول اور گندم کا معاہدہ کرکے سعودی عرب سے 40بلین ڈالر کی اپنی تجارت کو خطرے میں ڈال دیا۔ مودی کے روسی صدر پوٹین سے ہونے والے تعلقات سے پتہ چلتا ہے کہ مودی کی زبان سے لوگ متاثر ہوجاتے ہیں لیکن ان کا اثر کسی بھی ملک پر نہیں پایاجاتا۔
امریکہ کی یوکرین کی سفیر بریگیٹ برینک نے توقع کی تھی کہ مودی ‘ G-20کانفرنس میں کوئی اہم کردار ادا کریں گے اور روس کے ساتھ امریکہ کے اختلافات دور ہوجائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ وہ سخت مایوس ہوگئیں۔ بلکہ اس کے برعکس کینیڈا سے ہمارے تعلقات بگڑگئے۔ برطانیہ کے ہندو وزیراعظم سونک نے بھی ہندوستان آکر مودی کی خواہش پر غالباً بعض حمایتیں کرکے برطانیہ کے عیسائی شہریوں کو ناراض کردیا۔ برطانیہ کے ہندوستانی نسل کے پہلے وزیراعظم نے نہ صرف G-20 کانفرنس میں شرکت کے وقت متھرا وغیرہ کے مندروں کا دورہ کیا بلکہ کھلے عام یہ دعویٰ کردیا کہ وہ پہلے ہندو اور بعد میں برطانوی شہری ہیں۔ امریکہ کی سفیر برائے یوکرین Bridget Brink نے یہ سمجھا تھا کہ 17جولائی 2023ء کو یوروپ کو اناج کی سربارہی کا روس کا معاہدہ مودی کے روس کے ساتھ قریبی تعلقات کے باعث رواں سال جولائی کی آخری تاریخ سے قبل دوبارہ طئے پاجائے گا لیکنمودی پوٹین کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو استعمال کرکے اس مسئلہ کو حل نہ کرسکے۔ مودی کے پوٹین کے ساتھ قریبی تعلقات سے یوروپ کو کئی فائدہ حاصل نہ ہوسکا بلکہ الٹا انہوں نے عراق‘ سعودی عرب کے مقابلے میں روس سے سستے تیل کی سربراہی کا معاہدہ کرلیا۔
مودی تمام ملکوں میں باہمی معاملات میں مداخلت کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ ہر ملک کے سربراہ سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں۔
2؍فروری2022ء کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے باوقار بینک اسٹیٹ بینک انڈیا کا موقف بھی اس میں بے جا مداخلت کے سبب خراب ہوچکا ہے ۔ آر بی آئی کے حالات بھی مودی کے دور میں بری طرح بگڑچکے ہیں ۔ عرب ملکوں سے یہ خبر بھی آرہی ہے کہ وہاں موجود 3ملین سے زائد ہندوستانیوں نے بھی وہاں بہت زیادہ فخر محسوس کرنا شروع کردیا ہے جس سے مسائل پیدا ہونے لگے ہیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰