نکاح

خلع اور اسکے ضروری احکام

اس وقت خلع کا موضوع قانون دانوں، میڈیا کے لوگوں اور بہت سے عوام اور دانشوروں کے درمیان موضوع بحث بنا ہوا ہے، بعض لوگوں کے ذہن میں یہ تصور ہے کہ جیسے مرد اپنی مرضی سے بیوی کو طلاق دے سکتا ہے، اسی طرح بیوی بھی اپنی مرضی سے یک طرفہ طور پر خلع دے سکتی ہے۔

اس وقت خلع کا موضوع قانون دانوں، میڈیا کے لوگوں اور بہت سے عوام اور دانشوروں کے درمیان موضوع بحث بنا ہوا ہے، بعض لوگوں کے ذہن میں یہ تصور ہے کہ جیسے مرد اپنی مرضی سے بیوی کو طلاق دے سکتا ہے، اسی طرح بیوی بھی اپنی مرضی سے یک طرفہ طور پر خلع دے سکتی ہے، اس سلسلے میں وضاحت کے طور پر چند سطریں لکھی جارہی ہیں:عربی زبان میں ’’ خلع‘‘ کے معنی اُتارنے کے ہیں، عرب کپڑے اُتارنے کے لئے ’’ خلع‘‘ کا لفظ بولتے ہیں، قرآن مجید کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جوتا اُتارنے کا حکم ان الفاظ میں فرمایا: فاخلع نعلیک (طہ: ۱۲) اس تعبیر میں بھی ایک حسین اور لطیف اشارہ ہے، قرآن مجید نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لئے لباس قرار دیا ہے، (بقرہ: ۱۸۷) گویا خلع کے ذریعہ زوجین ایک لباس کو اُتار پھینکتے ہیں؛ اس لئے واقعہ ہے کہ خلع کے مفہوم ونتیجہ کا اثر ظاہر کرنے کے لئے اس سے زیادہ موزوں اور مناسب کوئی اور تعبیر نہیں ہو سکتی تھی۔

اصطلاح میں خلع عورت سے کچھ لے کر نکاح ختم کر دینے کا نام ہے (در مختار: ۲؍-۵۷-۵۵۶) خلع کا ثبوت قرآن مجید سے بھی ہے، ارشاد خداوندی ہے کہ اگر زوجین اللہ کی قائم کی ہوئی حدود کو قائم رکھنے کے سلسلہ میں اندیشہ مند ہوں تو اس میں کوئی قباحت نہیں کہ عورت کچھ دے کر رہائی حاصل کر لے (بقرہ: ۲۲۹) حدیثوں میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہلیہ کا واقعہ تفصیل سے مذکور ہے کہ ان کی بیوی نے مہر میں وصول کیا ہوا باغ شوہر کو واپس کر کے خلع حاصل کیا تھا، (بخاری: ۲؍ ۷۹۴) اس لئے اس کے جائز ہونے پر اُمت کا اجماع واتفاق ہے (بدایۃ المجتہد: ۲؍۸۲-۸۳) 

شریعت اسلامی میں یہ بات مطلوب ہے کہ رشتۂ نکاح ایک دفعہ قائم ہونے کے بعد پھر اُسےخواہ مخواہ اور کسی مجبوری کے بغیر توڑا نہ جائے؛ اس لئے طلاق کی عام صورت کی طرح طلاق کی ایک خاص صورت ’’ خلع‘‘ کو بھی پسند نہیں کیا گیا ہے، آپؐ نے فرمایا کہ جس خاتون نے بلا وجہ اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا اس پر جنت کی بو بھی حرام ہوگی، (ترمذی:۱؍۱۴۲) لیکن چوں کہ بعض دفعہ ازدواجی زندگی کی اُلجھنوں اور بے سکونیوں کا حل اسی میں مضمر ہوتا ہے کہ زوجین کو ایک دوسرے کی وابستگی سے آزاد کر دیا جائے؛ اس لئے شریعت نے ان خصوصی حالات ومواقع کی رعایت کرتے ہوئے جیسے طلاق کی اجازت دی ہے، اسی طرح خلع کی بھی اجازت دی ہے۔ لہٰذا اگر رشتہ کا نباہ ممکن ہو تو عورت کا بلا ضرورت خلع کا مطالبہ کرنا مکروہ ہے، حافظ ابن حجرؒ کا بیان ہے: ’’ خلع مکروہ ہے، سوائے اس کے کہ زوجین یا اُن میں سے ایک اللہ تعالیٰ کی قائم کی ہوئی حدوں پر قائم رہنے کے سلسلہ میں اندیشہ رکھتے ہوں‘‘ (فتح الباری: ۹؍۳۴۶) بلکہ ابن قدامہؒ کا خیال ہے کہ حدیثیں بلا حاجت خلع کو حرام قرار دیتی ہیں، (المغنی: ۷؍۲۴۸) ہاں حاجت وضرورت کے وقت عورت کا مطالبۂ خلع جائز اور درست ہے: ولا بأس بہ عند الحاجۃ (درمختار علی ہامش الرد: ۲؍ ۵۵۸) البتہ اگر عورت کے مطالبہ تفریق کے لئے کوئی معقول وجہ موجود نہ ہو، مرد کی طرف سے ظلم وزیادتی نہیں پائی جاتی ہو؛ مگر عورت کو شوہر کی طرف سے اس درجہ نفرت ہو کہ طبیعت کو کسی طور پر اس کے ساتھ رہنے پر آمادہ نہ پاتی ہو اور اس کی وجہ سے شوہر کے ساتھ حق تلفی کا اندیشہ ہو تو یہ بھی ایک حاجت ہی ہے، امام بخاریؒ نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کے سلسلہ میں صاف نقل کیا ہے کہ اُن کو اپنے شوہر کے اخلاق وسلوک اور دین کے معاملہ میں شکایت نہیں تھی؛ مگر اس کے باوجود دل اُن کی طرف مائل نہ تھا، اور کہتی تھیں کہ میں نہیں چاہتی ہوں کہ ان کے ساتھ ناشکری اور کفرانِ نعمت کا معاملہ ہو، حضرت ثابتؓ نے اپنی بیوی کو مہر میں ایک باغ دیا ہوا تھا؛ چنانچہ آپؐنے ان سے فرمایا کہ باغ واپس لے لیں اور طلاق دے دیں (بخاری: ۲؍ ۷۹۴) خلع میں اگر زیادتی خود مرد کی طرف سے ہو اور عورت تنگ آکر خلع کی طالب ہوئی ہو تب تو عورت سے طلاق کا معاوضہ لینا حرام ہے، اور اگر عورت کی طرف سے زیادتی ہوئی تو معاوضہ لیا جا سکتا ہے؛ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ جو مہر ادا کیا ہے، اس سے زیادہ بھی لے سکتا ہے یا اتنی ہی مقدار؟ دونوں طرح کی رائیں ہیں، یہ بھی کہ زیادہ لینا مکروہ ہے اور یہ بھی کہ زیادہ لینے کی گنجائش ہے؛ تاہم مستحب بہر حال یہی ہے کہ مقدارِ مہر سے زیادہ نہیں لینا چاہئے۔ (المغنی: ۷؍۲۴۶)

جس چیز کو مہر بنایا جا سکتا ہے، اس کو خلع کا معاوضہ بھی مقرر کیا جا سکتا ہے؛ تاہم اگر کوئی شخص ایسی چیز کو ’’ خلع کا معاوضہ‘‘ بنائے جو شریعت کی نگاہ میں مال نہیں ہے، جیسے: شراب، خنزیر وغیرہ تو عورت پر طلاق تو واقع ہو جائے گی؛ مگر مقررہ عوض یا اس کے بدلہ کچھ اور ادا کرنا بیوی کے ذمہ نہیں ہوگا، (ہندیہ: ۱؍۴۹۵) عام طور پر معاملات میں ’’ عوض ‘‘ کی پوری طرح تعیین وتحدید ضروری ہوتی ے؛ ورنہ وہ معاملہ فاسد ہو جاتا ہے؛ مگر خلع کا معاملہ عام معاملات سے مختلف ہے، خلع کا عوض مبہم اور غیر واضح ہو، جب بھی خلع اور بدل خلع کی تعیین درست ہو جاتی ہے، مثلاً کوئی شخص کہے کہ اس بکری کے حمل میں جو کچھ ہے، اس پر خلع کرتا ہوں، یا اس درخت میں لگے ہوئے پھل پر خلع کرتا ہوں تو خلع درست ہوگا اور بکری گابھن ہو تو اس کے حمل کا اور درخت کے پھل کا وہ حقدار ہوگا، ( درمختار: ۲؍۵۶۲، ہندیہ: ۱؍۴۹۴) یہ بھی درست ہے کہ خلع کے عوض کو مرد کسی تیسرے شخص کے فیصلہ پر موقوف کر دے۔ (ہندیہ: ۱؍۴۹۵)

خلع میں عورت اپنے کسی شخصی حق سے بھی دستبردار ہو سکتی ہے، جیسے: نفقۂ عدت، مہر، لیکن عورت کا ایسا حق جس سے دوسروں کا حق بھی متعلق ہو، اس سے دستبردار نہیں ہو سکتی، بچوں کا حق پرورش (حضانت) بچہ کی پرورش کا حق جو ماں یا نانی وغیرہ کو دیا گیا ہے، وہ تنہا عورت کا حق نہیں ہے، اس سے خود اس بچہ کا حق بھی متعلق ہے؛ اس لئے عورت کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ طلاق کے عوض اس حق سے دستبردار ہو جائے، اور ہو جائے تو اس شرط کا اعتبار نہیں ہوگا، حق پرورش باقی رہے گا؛ البتہ عورت پر طلاق واقع ہو جائے گی (المبسوط: ۶؍۱۶۹) اسی طرح عدت کے درمیان رہائش (سکنیٰ) سے عورت کا حق بھی متعلق ہے اور شوہر کا بھی، کہ اس سے نَسَب کی حفاظت متعلق ہے اور خود باری تعالیٰ کا حق بھی متعلق ہے کہ یہ حدود اللہ ہیں اور ان سے تجاوز حقوق اللہ میں تعدی ہے، پس اگر کوئی عورت شوہر کو خلع میں عدت کے درمیان ’’رہائش‘‘ کی ذمہ داری سے بری کر دے تو یہ شرط معتبر نہیں، ہاں اگر یوں کہے کہ وہ شوہر کی طرف سے ’’ رہائش ‘‘ کے کرایہ کی ذمہ دار ہوگی اور خود ہی کرایہ ادا کرے گی، تو اب یہ شرط معتبر ہوگی (خانیہ: ۱؍۵۳۷) 

خلع پر جو احکام مرتب ہوتے ہیں، وہ اس طرح ہیں:

۱۔اکثر فقہاء بہ شمول حنفیہ کے نزدیک اس سے طلاق بائن واقع ہوتی ہے (درمختار :۲؍ ۵۶۱، المغنی: ۷؍۲۴۹) حنابلہ کے یہاں ایک قول کے مطابق ’’ فسخ‘‘ ہے، یعنی اس کا شمار طلاق میں نہیں ہوگا (المغنی: ۷؍۲۴۹) اسی طرح کی ایک رائے شوافع کی بھی ہے (حوالہ مذکور) اس کا اثر یہ ہوگا کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو پہلے دو طلاق دی تھی، پھر خلع کی نوبت آئی تو عام فقہاء کے نزدیک اب اس پر تین طلاقیں واقع ہو چکیں اور جو لوگ خلع کو ’’فسخ‘‘ کہتے ہیں، ان کے نزدیک دو ہی طلاقیں واقع ہوئیں۔

۲۔خلع کے لئے قاضی سے رجوع کرنا اور قاضی کا فیصلہ کرنا ضروری نہیں۔ (المغنی: ۷؍۲۴۶)

۳۔خلع کے بعد تمام ہی فقہاء کے نزدیک نکاح کے بغیر رجعت کا حق باقی نہیں رہتا (المغنی: ۷؍۲۵۱)

۴۔خلع میں جو عوض طے پایا ہے، اگر اس کو عوض بنانے میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو، یا اس سے دوسروں کا حق متعلق نہ ہو تو عورت پر اس کی ادائیگی واجب ہے۔

۵۔لفظ ’’ خلع‘‘ کے ذریعہ خلع کیا جائے تو امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک شوہر وبیوی ایک دوسرے کے ذمہ نکاح کے سلسلہ میں واجب الاداء تمام حقوق سے بری ہو جائیں گے، گو تمام حقوق سے یا صراحت کے ساتھ ان حقوق سے برأت کا ذکر نہ ہو؛ مگر دوسرے فقہاء کے نزدیک تعیین وتحدید کے ساتھ فریقین نے جن حقوق سے دستبرداری کی صراحت کی ہو، صرف ان ہی سے بری الذمہ ہو سکیں گے۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ: ۷؍۵۰۶)

خلع میں وقت کی کوئی قید نہیں- حالت حیض یا ایسی پاکی کی حالت- جس میں بیوی سے صحبت کر چکا ہو، میں بھی بلا کراہت خلع کیا جا سکتا ہے، ( المغنی: ۷؍ ۲۴۷) اگر مرد نے خلع کی پیشکش کی تو احناف کے نزدیک یہ مرد کے حق میں ناقابل واپسی اقرار ہے؛ اس لئے :

۱۔شوہر اپنی بات سے رجوع نہیں کر سکتا۔

۲۔شوہر نے جس مجلس میں خلع کی پیشکش کی ہے، اس کے بعد بھی عورت کو خلع کا حق باقی رہتا ہے، مجلس تک محدود نہیں رہتا۔

۳۔شوہر کے لئے درست ہے کہ وہ خلع کو کسی شرط کے ساتھ مشروط کرے، یا مستقبل کے کسی وقت کے ساتھ متعلق کر دے اور ایسی صورت میںاس مقررہ وقت ک ے آنے پر ہی عورت کا قبول کرنا معتبر ہوگا۔ ( الفقہ الاسلامی وادلتہ) 

خلع سے متعلق ایک اہم بحث یہ ہے کہ اگر زوجین کے درمیان اختلاف بڑھ جائے اور اس کے حل کے لئے قاضی حکَم مقرر کرے تو حکَم کے کیا اختیارات ہوں گے؟ اس سلسلہ میں فقہاء کی آراء مختلف ہیں، امام ابو حنیفہؒ کے یہاں اس کا اختیار مکمل طور پر مرد ہی کے ہاتھ میں ہے، قاضی خود یا قاضی کی طرف سے مقرر کئے ہوئے حَکم بہ طور خود عورت کو طلاق نہیں دے سکتا، اس کے بر خلاف امام مالکؒ کے نزدیک قاضی زوجین کے حد سے گزرے ہوئے باہمی اختلاف کی صورت میں ایک دو رکنی مصالحتی کمیٹی قائم کرے گا، جس میں بہتر ہے کہ ایک مرد کا رشتہ دار ہو اور دوسرا عورت کا، اور اتفاق کی کوئی صورت نکل آئے تو دونوں میں مصالحت کرادیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو سکے اور دونوں کی رائے ہو کہ باہم تفریق اور علیحدگی کرا دی جائے تو وہ یہ بھی کر سکتے ہیں، اس طرح کہ مرد کا رشتہ دار حَکَم طلاق دے اور عورت کا رشتہ دار حَکَم مہر معاف کر دے، یا جو معاوضہ مناسب سمجھے عورت کو اس کی ادائیگی کا پابند کرے اور دونوں میں تفریق ہو جائے، آج کل ہندوستان میں دارالقضاء کا اسی پر عمل ہے۔

ان تفصیلات سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خلع کے ذریعہ عورت تنہا علیحدگی حاصل نہیں کر سکتی ہے، یا تو شوہر کی آمادگی کے ساتھ خلع ہوتا ہے؛ کیونکہ یہ طلاق ہی کی ایک صورت ہے اور بعض خصوصی حالات میں عدالت یا دارالقضاء کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ دونوں کے درمیان علیحدگی کرا دے، جیسے مرد کو طلاق کا حق حاصل ہے بالکل اسی طرح بیوی کیلئے خلع کا حق نہیں ہے، جو لوگ خلع کو بیوی کا یک طرفہ حق قرار دیتے ہیں ، وہ غلطی پر ہیں، اور جیسے طلاق ایسا عمل نہیں ہے کہ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے، اسی طرح خلع بھی ایسا فعل نہیں ہے جو بہتر ہو اور لائق حوصلہ افزائی ہو۔
٭٭٭