طنز و مزاحمضامین

خود کردہ را علاجے نیست

نصرت فاطمہ

پچھلے دنوں اردو کا عالمی دن منایا گیا۔ ویسے تو ہم کوئی اتنے تیس مار خان ہیں نہیں کہ اردو پر دھواں دھار قسم کے مضامین لکھ ڈالیں سو ہم نے سوچا کہ اردو کی محبت میں چند حروف ہی سہی۔براہ کرم ہماری اردو زبان سے محبت پر شک نہ کیا جائے۔
چونکہ ہم اردو کے قدردان بھی ہیں اور خیرخواہ بھی، تو ہماری گلطیوں اوہ معاف کیجئے غلطیوں کو نظرانداز کیا جائے۔ آجکل تو فصیح اردو جیسے صرف رسالوں اور کتابوں تک محدود ہوگئی ہے۔ ہم تو سوچتے ہیں کہ پرانا زمانہ ہی اچھا تھا۔ انہیں اپنی مادری زبان پر عبور تو تھا۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ آدھی اردو غلط تلفظ کے ساتھ اور انگریزی کا تڑکا تو ضرور ہی لگائیں گے۔ کوئی ماں اپنے بچے کو بجائے یہ کہنے کہ بیٹا اپنی ناک صاف کرو یہ کہے کہ ”بیٹا نوزی آئی ہے کلین کرلو“ تو وہ بیچارہ کہاں سے صحیح اردو سیکھے۔ہم سے لاعلم بھی کبھی کبھار بچوں کو ٹوک دیتے ہیں کہ کہ ”فِر“نہیں ”پھِر“ ہوتا ہے۔ انکی ہندی ملی اردو سن کر ہمیں بھی اتنی ہی کوفت ہوتی ہے جتنی ایسی اردو سن کر جاوید اختر صاحب کو ہوتی ہوگی۔ ”آج فیر ہمارے گھر فوفو آئی ہیں وہ بھی بہت سے فَل لے کر۔“
اور جہاں جمع کا صیغہ ہو وہاں بھی ہیں کی جگہ ”ہے“ کہنا مثلاً ”غلط لوگوں کا انتخاب ہم انسان خود کرتے ”ہے“ اور پریشان ہوجاتے ”ہے۔“(حسب حال) پھر امن کی دعا مانگتے ”ہے۔“ اکثر لوگوں کو ہم نے تقریریں بھی کچھ ایسے انداز میں کرتے سنا ہے۔ یقینا اردو ایک ایسی زبان ہے جو الگ الگ ادوار میں اور مختلف مقامات پر جا کر بدل جاتی ہے۔ دکنی اردو الگ ہے اور یہاں سے تھوڑے فاصلے پر جا کر آندھرا وغیرہ کے مضافات کی اردو تو خاصی دلچسپ ہوتی ہے، جہاں تلگو زبان بولنے والے اکثریت میں ہیں، وہاں اس کا اثر اردو بولی پر صاف نظر آتا ہے۔
وہ سکیل بائی(شکیل بھائی) آیا تا آج، ان کا بیٹا عجیم(عظیم) آیا کتے فارن سے۔ پھاتمہ(فاطمہ) بیٹی کی سادی میں بلایا انوں۔“
اور کرناٹک کی اردو کی بات کریں تو وہاں جاکر اردو مزید دلچسپ ہوجاتی ہے۔ خصوصاً خواتین کی گفتگو۔ ملاحظہ فرمائیں کچھ دلچسپ جملے۔
” نئیں بیٹے ہمارے گھر کے بھواں ایسا جاب یہ وہ نئیں اچ کرتے، بیٹا کما کو لاتا سو اچ ہے۔ ہمیں کیا کمی رکھیں گے ہمیں اچھا دیکھ لیں گے۔“
"کیاو بولے؟ اچھا بیٹی؟ ہاو بیٹی اتا پڑھ لکھ کو ہے سو ہے نی کرتیں اْنوں جاب۔“
کرلے کو ہے سو۔
” بچی بہوت اچھی ہے ماں، کیا کتو ذرا گِڈی دکھتیے۔ میرا بچہ لمبا ہے سو نیں۔“ کھانا پکانا آتا سو کی تُمنا، ایو نایں اچ آتا بولتے ہے۔ اِتا شادی تکا سِکھ جاؤ”
مختلف علاقوں کے اثرات اردو زبان پر ہوتے رہے ہیں۔ ویسے تو شہر حیدرآباد میں دکنی زبان کا راج ہے۔ جو کسی دوسری زبان سے متاثر نہیں لگتی۔ اسی طرح اس کے بولنے والے بھی کم ہی کسی اور زبان بولنے والوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ ”پوٹّا اچھا اچ ہے جی۔ ذرّا بدمعاش بھی ہے۔ ایسا ہوششار ہے اب کیا بولنا۔ پان ڈبہ ہے اُس کن۔ گٹکے کی عادت رہینگی اچ۔ بیٹی کے واسطے پسند کرے؟ ہوو، تم سوب کاماں کرلیے اچ،اب یہ دریافی کرنے آئے۔ بیگن……“ یاد رہے کہ یہ سبزی حیدرآباد میں کھائی بھی جاتی ہے۔اس سے زیادہ ہر دوسرے جملے میں اس کا استعمال ضروری ہے اور اس کے علاوہ حیدرآبادی اردو کی ایک الگ ہی ڈکشنری بنائی جانی چاہیے۔ بہت سے ایسے الفاظ مثلاً ”ہلّو(آہستہ) چلو جی، کیکو ایسا بوران(الجھن میں) پھررے، کِتّا نغد(نقد) لیے کی عغد (عقد) میں، کایکا گوش تھا کی پھتّر(پتھر) کے ویسا تھا۔ مِٹھّا(میٹھا)بھی اتّا خاص نیں تھا۔ ”اسکے علاوہ روزمرہ کی بول چال میں، آنگ(انگ)مَٹھّی(مٹی) چْنّا(چونا) ربّر(ربڑ) اینہ(آئینہ) چابنا (چبانا) دہیں (دہی) حلّق(حلق) سامن(سامان) برییک (باریک) گلّی(گلی) گلّا(گلا) ذرّا(ذرا) کچھ ایسے الفاظ ہیں جنہیں بولتے ہوئے ہمیں صحیح لفظ کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ ویسے ہم تو کہتے ہیں کہ گفتگو ایسی ہی ہونی چاہیے کہ بات مختصر ہو اور سب کو سمجھ میں آئے ورنہ کبھی یوں بھی ہوتا ہے
ایک معلم نے شاگرد کو ہدایت کی کہ گفتگو بفصاحت و بلاغت کرنا چاہیے۔ طالبعلموں نے تائید کی۔ ایک روز چلم کی چنگاری معلم صاحب کی پگڑی پر جاپڑی۔ شاگر د نے اطلاع کی۔ ”جناب استاد صاحب مولانا و مقتدانا قبلہ و کعبہ ام حضور کی دستار عظمت آثار پر ایک اخگر ناہنجار شرر بار آتشکدہء چلم سے پرواز کر کے شعلہ افگن ہے۔“ اس عرصہ میں معلم صاحب کی نصف پگڑی جل گئی۔ معلم صاحب فرمانے لگے۔۔ "خود کردہ را علاجے نیست۔”
تو ہم اس بات کے ساتھ اپنا کالم ختم کرتے ہیں کہ اپنے آس پاس اردو سیکھیے، اردو سکھلائیے اور ہمارے کالم پڑھتے رہیے۔ سیکھنے اور سکھلانے کے تعلق سے ایک لطیفہ ہمیں یاد آیا کہ کبھی سِکھانے کا نتیجہ الٹ بھی ہوجاتا ہے۔
لالو جی کے ذہن میں بیٹھے بیٹھے ایک خیال نے انگڑائی لی کہ کیوں نہ انگریزی جارج بش سے سیکھی جائے۔۔۔ بڑی واہ واہ ہوگی!
چناچہ اگلے دن نہار منہ امریکہ پہنچ گئے۔۔کئی ماہ بش کی تربیت اٹھانے کے بعد واپس ہندوستان پہنچ گئے۔ ایک دن صبح صبح فون کی گھنٹی بجی۔۔ اسکرین پر دیکھا تو امریکہ کا نمبر تھا
لالو گویا ہوئے: Hello Lalu Prasad Speaking, who’s this?
دوسری جانب سے آواز آئی:: اے ببوا۔۔ ہم بات کررہا ہوں سسروا بُشوا!!!

a3w
a3w