سیاستمضامین

دعا پر تنازعہ تنگ نظری کی انتہاء

محمد اعظم شاہد

گزشتہ ہفتہ اترپردیش کے ضلع بریلی کے ایک سرکاری اسکول میں صبح اسمبلی میں بچوں کا ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ‘‘ گاتے ایک ویڈیو وائرل ہوا، فرید پور پولیس تھانے میں وشوا ہندو پریشد کے سوم پال راتھوڑ نے اسکول کی پرنسپل ناہید صدیقی اور ٹیچر وزیر الدین کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے یہ الزام لگایاکہ ہندو دھرم کے بچوں کے مذہبی جذبات کو مجروم کیاگیا ہے ۔ شکایت گزار نے اپنی تاویلات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسکول کی پرنسپل اور ٹیچر نے ایک اسلامی دعا کو جو شامل نصاب نہیں ہے ، اس دعا کو اسلام کی جانب بچوں کو متوجہ کرنے اور تبدیلی مذہب کی جانب راغب کرنے اس کا اہتمام کیا ہے ۔ اس طرح غیر مسلم یعنی ہندو طلباء کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی دانستہ طورپر کوشش کی ہے ۔ اترپردیش حکومت کے حالات سب پر روشن ہیں۔ پولیس اور محکمہ تعلیمات عامہ دونوں پھرتی میں آگئے ، پولیس نے ایف آئی آر درج کرلی، اسکول کی پرنسپل اورٹیچر کو تعزیرات ہند کی دفعات 153 ؍ اور 298 کے تحت گرفتار کرکے انہیں عدالتی تحویل میں سونپ دیا گیا۔ ان دفعات کے تحت بدامنی اور مذہبی جذبات مجروح کرنے کا الزام لگایا گیا ، محکمہ تعلیمات نے مزید تحقیقات کے احکامات کے ساتھ اسکول کی پرنسپل ناہید صدیقی اور ٹیچر وزیر الدین کو ملازمت سے معطل کردیا، اسکول کے احاطے میں بچوں نے جب یہ دعا گائی، اس کے آخری بند پر شکایت گزار وی ایچ پی کے کارکن نے فکر جتائی کہ یہ دعا مسلمانوں کے دینی مدارس میں گائی جاتی ہے جبکہ سرکاری مدارس میں اس کے گائے جانے کا کوئی جواز نہیں ہے ، دعا کا آخری بند … ’’ میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو ، نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو ‘‘… شکایت میں کہا گیا ہے کہ دعا کے اس حصے میں اسلامی عقیدہ نمایاں ہے اور یہ اسلامی مذہبی تعلیمات کی طرف اشارہ ہے ۔
علامہ اقبال کی 1902 ء میں لکھی یہ نظم’’ بچے کی دعا ‘‘ جو ان کے مجموعہ کلام ’’ بانگ درا ‘‘ میں شامل ہے ، جس کی اشاعت 1923 ء میں عمل میں آئی تھی، اس نظم پر تین سال قبل 2019 ء میں بھی یو پی کے بلاسپور پیلی بھیت میں بھی واویلا ہوا تھا، بچوں نے پریئیر میٹنگ میں جب اس نظم کو گایا تو وشوا ہندو پریشد والوں نے دعا کو اسلامی رنگ دے کر قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا، اسکول کے ہیڈ ماسٹر کو مذکورہ دعا کے گائے جانے پر معطل کردیاگیا تھا۔
تین سال قبل اور گزشتہ ہفتہ اس نظم پر ہوئے ہنگامے پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے ۔ سوشیل میڈیا پر ہندو بنیاد پرستی ، تنگ نظری ، فرقہ پرستی اور ملک کے تہذیبی و ثقافتی ورثے سے لاعلمی، شعر و ادب کو مذہبی عینک سے دیکھنے کی نفرت آمیز روش پر احباب شعور نے برملااس کی مذمت کی ہے ۔ پلاننگ کمیشن کی سابق رکن اور سابق چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی محترمہ سیدہ سیدین حمید نے دو دن قبل اس نظم پر اٹھے تنازعے پر انڈین ایکسپریس کیلئے لکھے گئے اپنے تجزیے میں کہا ہے کہ وطن عزیز کے اسکولوں میں عرصہ دراز سے کئی بچوں کی طرح یہ نظم میں نے اسکول میں گائی ہے اور آج بھی یہ میرے دل کے قریب ہے ۔ اس نظم کے شاعر بھی میرے آئیڈیل ہیں، اپنے خالق سے اوصاف حمیدہ سے نوازنے کی التجا کرنا، علم کی شمع سے محبت کی آرزو، غریبوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا اور اپنے وجود سے اپنے وطن کی زینت بننے کی تمنا اور برائیوں سے بچنے اور نیک راہ پر چلنے کی امنگ کے اظہاریہ سے معمور اس نظم کو برصغیر میں بلاتفریق مذہب ، نسل در نسل اسکولوں میں بچوں نے علی الصباح گایا ہے ، یہ نظم ملک کی مشترکہ وراثت کا مظہر رہی ہے ، اس نظم کے شیدا اگر ملک دشمن قرار دئے جاتے ہیں، فرقہ پرست قرار دئے جاتے ہیں تو یہ افسوسناک پہلو ہے ، کیا اس لحاظ سے میں بھی ملک دشمن کے زمرے میں شامل ہوجاؤں گی؟
براہ راست اگر دیکھا جائے تو ’’ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ‘‘ پر تنازعہ کھڑا کیا جانا پھر قانونی کارروائی کا ہونا، یہ سب سوچی سمجھی ثقافتی لاعلمی اور سماجی علاحدگی پسندی کی علامت ہے جو ہندوستانی معاشرے میں فرقہ پرست عناصر پھیلا رہے ہیں، یعنی willful cultural ignorance اور deepening social polarisation ۔ اس طرح کا رجحان ظاہر ہے کہ درس و تدریس کے معاملات اور شعر و ادب کی افہمام و تفہیم کے حوالے سے جستجو اور قلبی لگاؤ پر منفی اثرات مرتب کرنے کا باعث ہوگا، نہ صرف سرکاری بلکہ غیر سرکاری اسکولوں میں بھی یہاں تک کہ ملک کے نامور اسکولوں میں بھی دن کے آغاز پر دعائیہ مجلس میں اس نظم کو گایا جاتا رہا ہے، علامہ اقبال کی اس نظم کی آفاقیت اور مقبولیت کا یہ عالم رہا ہے کہ آج کے کروڑوں ہندوستانیوں کو یہ نظم ازبر ہے ، جنہوں نے اپنے اسکول کے زمانے میں روزانہ اسے گایا تھا، اللہ سے مخاطب کرنا گویا اسلام کی تبلیغ سے جوڑ دیاگیا، سرکاری مشینری کسی بھی شکایت پر مقدمہ درج کرنے میں کتنی پھرتی دکھاتی ہے اور سرکاری محکمے شکایت پر عمل آوری میں کس رفتار سے کام کرتے ہیں، یہ سب جانتے ہیں ، باوجود اس کے اسکول کے بچوں میں اخلاقی قدروں کو مضبوط کرنے میں یہ مقبول دعا پڑھائی جاتی ہے تو اس کو مذہبی زوایہ سے جوڑ کر تعزیرات ہند کی دفعات کی طرف سے متنازعہ سمجھا جانا اور قانونی کارروائی کرنا لاعلمی اور سوچ کی نااہلیت ہے ، وہ شاعر جس نے وطن کی عظمت کے گیت گائے ، ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘ اور یہ ترانہ تحریک آزادی کے دوران وطن پر جان نثار کرنے والوں کو انگریزی سامراجیت کے خلاف صف آرائی کرنے میں باعث ترغیب رہا، افسوس کہ اس شاعر کی فکر کو معیوب سمجھا جا رہا ہے ۔ اب وی ایچ پی کے کارکن اچھے اور برے کی تمیز کی سنددیں گے اور وہ لائق اعتبار سمجھی جائے گی؟

a3w
a3w