
ش۔م۔احمد (کشمیر)
رواں سال عیدالاضحیٰ کے تقدس مآب موقع پر دومختلف خبریں عالمی میڈیا کی توجہ اپنی جانب کھینچ کر شہ سرخیاں بنیں ۔ پہلی خبر ایمان افروز اور اُمید ا فزا ہے ، دوسری قابل ِمذمت ،مایوس کن اور دل آزار ہے۔
اُمیدافزا خبر: یہ جنوبی افریقہ کے ایک بلندقامت سیاہ فام عیسائی پادری (pastor) جناب ابراہیم رچلمنڈ کے قبول اسلام اور فریضہ ٔحج کے گرد گھومتی ہے۔ اس بارے میںایک وائرل ویڈیو میں دیکھا جاتا ہےکہ افریقی نژاد سیاہ فام نومسلم ابراہیم حج کے ایام میں جبل ِ نور کے سامنے عقیدت ومحبت میں گم ایستادہ ہیں، اسلام کی نئی نئی باز یافت پر فخر وانبساط کے جذبات اُن کی رگ وریشے سےجھلک رہے ہیں ، اس پتھریلی وادی میں اُنہیں اطمینان وسکون کی وہ نرم وگداز کیفیات محسوس ہوتی ہیں جن کے سامنے دنیا کا سارا کیف وسرور ہیچ ہے ۔ صاف نظر آتاہے کہ سابق عیسائی پیشوا مقام ِ شوق کے اس مہکتے گلستان میںکسی سیاح کی حیثیت سے موجود نہیں بلکہ خدائی ندا پر لبیک کہنے والے ایک ایسے بدلے ہوئےانسان کے رُوپ میںکھڑےہیں جنہیں اسلام نے اپنےسینے سے لگاکر لامثال شرف و امتیاز بخشا ہے۔ اُن کے مشرف بہ اسلام ہونے کا واقعہ بالکل تازہ ہے ؎
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشند خدائے بخشندہ
ابراہیم رچلمنڈپرکارخانہ ٔ قدرت کا یہ بہت بڑا احسان ہوتا ہے کہ بیٹھے بٹھائے پلک جھپکتے ہی وہ دین وایمان کی دولت سے مالا مال ہوجاتے ہیں، اُنہیں نہ بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح اسلام لانے کی قیمت ادا کرنے کے لئے ’’احد احد ‘‘ پکارنے کی جان گسل آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے، نہ اسلام کی حقانیت دریافت کرنے والے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مانند ابتلاؤں کی بھٹی کاسامنا کرناپڑتا ہے۔ اللہ ابراہیم کے سینے کواسلام کے لئے کھول دیتا ہے ۔ ان کے واسطے اسلام کی پیچیدہ راہ آسان تر بنانے کے ضمن میں امسال مارچ میں ایک غیبی اہتمام ہوتا ہے ، عیسائی پادری کو بوساطت رویائے صادقہ یعنی سچے خواب میں خانہ کعبہ دکھایاجاتاہے ، کلمہ ٔ شہادت کی دل کش وجاں گداز آواز سے اُن کاشرح ِ صدر کیا جاتا ہے ۔ وہ نیند سےجاگ جاتے ہیں مگر ایک بدلے ہوئے انسان کی شکل میں۔ابراہیم کی آنکھوں کا پیمانہ خواب کے بہشتی منظر سے چھلک جاتاہےکہ روح کی خشک سالی ختم ہوجاتی ہے اور ایمان وایقان کی کھیتی لہلہا اٹھتی ہے۔ آنسوؤں کی لڑی دل کی شاہراہ سے ہر طرح کے شکوک وشبہات کا صفایا کر جاتی ہے اور چاہے نتائج کچھ بھی ہوں، وہ حلقہ بہ گوش اسلام ہونےپر بصدقِ قلب آمادہ ہوجاتے ہیں ۔ ابراہیم پورے ہوش وگوش کےساتھ یہ یوٹرن لینے کا عزم وارادہ باندھتے ہیں اور خوشی خوشی دین ِاسلام کے سامنےاپنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔
خوش نصیبی کا عالم یہ کہ اسلام لانے کے صرف دو تین ماہ کے وقفے میں اللہ کریم اُنہیں اسی کعبہ ٔ مشرفہ کے گردطواف کرنے کا اعزاز بخشتا ہے جس کا خواب میں زیارت کرچکے تھے۔سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی دعوت پر ابراہیم کو چمنستان ِاسلام میں شاہی مہمان کے طور بلوایا جاتاہےکہ حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کر نے کا انعام عطاہو، اضافی طور انہیں مکہ ومدینہ کے مقدسات کی سیر نصیب ہوجاتی ہے ۔ یوں اُن کی پیاسی رُوح کو ارض ِ مقدس سے بھر پور سیرابی ہو جاتی ہے۔
متذکرہ بالاویڈیو دکھا رہاہے کہ ابراہیم مکہ معظمہ میں کس طرح جبل نور کے سامنے عجزوانکسار کے آنسوؤں سے ڈبڈبائیں آنکھوں کے ساتھ سنگ ریزوں پر بے اختیار سر بہ سجود ہوتے ہیں ، اُن کی پیشانی کو نوکیلے سنگ ریزے گلاب کے پتوں سے بھی زیادہ نازک اور مشک بار محسوس ہوئے ہوں گے ۔ اُن کی پیاسی نگاہیں جبل ِ نور کی بانہوں میں موجوداُس تنگ وتار غار پر خاص کر مرکوز ہیں جس میں محمد عربی ﷺ پر قرآن کی پہلی وحی ۔۔۔ اقرا ٔ۔۔۔ نازل ہوئی۔اس قرآنی آیت کالب ِلباب یہی ہے کہ اے دنیا کے تمام جن وانس!پڑھو اللہ کے نام سے اپنے حریم ِقلب کو ہر طرح کے جھاڑ جھنکاڑ اورآلائشوں سے پاک و صاف کرتے ہوئے، جہالت کی تمام بندشیں روندھتے ہوئے، تعصبات کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے، نفرتوں کی دیواریں گراتے ہوئے ، حقیر مفادات کے گورکھ دھندے سے آزاد ی حاصل کر تے ہوئے، نسل ۔ زبان۔رنگ ۔ سکونت ۔ قومیت اور وطنیت کی خود ساختہ بنیادوںپر انسانوں کی تقسیم وتفریق سے دامن جھاڑتے ہوئےکہ تمہاری روح کو اسی کلمۂ حق کی وساطت سے جسم وجان کی پاکیزگی اور دنیوی واُخروی کامرانی کا مژدہ سنادیا جائے گا،اس کے بغیر کوئی اِزم ، انسانی ذہن کا تراشیدہ کوئی مفروضہ ، الحاد وخدا فراموشی کا کوئی فلسفہ اللہ کے ہاں چلےگا نہیں ۔ ابراہیم کا مسلمان ہونا اقرا ٔ کی اسی خدائی آوازے پر لبیک کہنے کا تسلسل ہے اور یہ سلسلہ پیغمبر اسلام ﷺ کے رفع ِ ذکر تک جاری وساری رہے گا، چاہے مشرکوں اور ان کے حواریوں کو کتناہی بُرا لگے۔
ابراہیم صاحب خود بتاتے ہیں کہ وہ بہ تکرار خواب دیکھتے ہیں جن میں اُنہیںکلمہ ٔ شہادت پڑھنے کا اِذن دیا جاتا ہے ۔ صحیح ترالفاظ میں اُنہیں اسلام قبولنے کی دعوت آسمانوں سے دی جاتی ہے، وہ بھی ایک ایسے ماحول میں جب اسلام کے خلاف چو مکھی لڑائی ہر محاذ پر لڑی جارہی ہے، اسلام کو العیاذ باللہ ہر برائی کی جڑ جتلایا جارہاہے، اسلامیانِ عالم کا خلفشار اپنے نکتہ ٔ عروج پر ہے ، خود ملت ِاسلامیہ علمائے سُو اور باطل کے پرستار حکمرانوں کے زیر سایہ خواب ِ خرگوش میں خراٹے ماررہی ہے۔ اسلام کے تئیں اس منفی فضامیں مقبولیت کے بام ِ عروج پر فائز براہیم جیسی مذہبی شخصیت کے لئے یہ کیسا انوکھاخواب ہے؟ پردۂ غیب سے اُنہیں اللہ کے سامنےخودسپر دگی کر نے کی یہ کیسی رہنمائی دی جاتی ہے؟ تن تنہا مشکلات ، خطرات ، خدشات اور وسوسوں کے سمندر عبور کر نے کا یہ کیسا نرالا حکم دیا جارہا ہے ؟ بہرصورت سا بقہ پادری تثلیث چھوڑ کردامن ِ توحید میں آباد ہونے کا ایسامصمم ارادہ کرتے ہیں کہ دیگر تمام چیزیں انہیںمرعوب کرتی ہیں نہ ڈراتی ہیں ، نہ طویل مراقبے کی پٹی پڑھاتی ہیں ، نہ’’حکمت ودانائی‘‘ کے دُھندلکوں میں پھنساتی ہیں بلکہ اُنہیں ضمیر کی آواز دیوانہ وار سننے اورزندگی میں ایک تاریخ ساز یو ٹرن لینے کی ترغیب دی جاتی ہے اوروہ دین ِحق کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ کوئی لیت ولعل نہیں، کوئی حیل وحجت نہیں، کوئی پس وپیش نہیں، کوئی مول تول نہیں ، ہواؤں کا رُخ دیکھنے یا نفع ونقصان جانچنے کا کوئی حساب کتاب نہیں ، بالکل نہیں۔ ابراہیم ناحق کی بڑائی منوانے کے لئے حقیقت کے چٹانوں سے سرٹکرانے کے بجائے ایمان ویقین کا سیدھا اور واضح راستہ یعنی صراط المستقیم عزم واستقامت سےپکڑ لیتے ہیں اوربہ یک بینی ودوگوش اپنے آپ کو اللہ کی بندگی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے لئے خوشی خوشی پیش کر تے ہیں۔ لطف کی بات یہ کہ پندرہ سال سے اپنے مقامی گرجا گھر میں ایک لاکھ نفوس سے زائد عیسائیوں پر مشتمل آبادی کی امامت وتبلیغ کرنے والا یہ پادری اللہ کی وحدانیت اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی قبولیت کا اعلان ببانگِ دہل چرچ میں ہی کرڈالتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں ہوتابلکہ اپنے مقتدیوں کو بھی کھلے اسلام کی دعوت دے ڈالتے ہیں۔ اُن کی شخصی مقبولیت بھی تاڑیئے کہاس کے زیر اثر سب لوگ دعوت الیٰ اسلام پر لبیک کہتے ہیں۔ اللہ اُن سبھی کےلئے اسلام کے بند دروازے دفعتاً کھول دیتاہے کہ کسی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں ہوتی ، کوئی مخالفانہ آواز نہیں اٹھتی ، مناظرہ بازی کا پنڈال نہیں سجتا ، مجادلہ آرائی کی محفل نہیںجمتی بلکہ اَز دل ریزبر دل خیزد کے مصداق سارے لوگ بہ قائمی حواسِ خمسہ بلا چوں چرا کلمہ ٔ شہادت پڑھ کر اپنی زندگیوں کی کا یا پلٹ جاتے ہیں ۔ اب گرجا گھر خود بخودمسجد میں تبدیل ہوجاتاہے ۔ یہ سارے افریقن عیسائی اسلام کی آغو شِ محبت میں روحانی طمانیت ہی نہیں پاتے بلکہ سکونِ قلب کاسامان، رحمت ورافت کا مزاج ، اُخوت ویگانگت کا درس اور یک رنگی کا نظام بھی دریافت کر تے ہیں ۔
محض ایک سچاخواب ابراہیم کو دنیا وآخرت کی دائمی نعمتوں لوٹنے کا موقع میسر کر دیتا ہے۔تاریخ شاہد عادل ہے کہ سچے خوابوں نے ہمیشہ انسانی تہذیبوں پر طرح طرح کے دُور رس اثرات مرتب کئے ہیں۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا خواب کیا رنگ لایا، شاہِ مصر کا خواب کون سی نئی تاریخ حضرت یوسف علیہ السلام کی سیرت میں رقم کر گیا ، رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ؓ کے اَن گنت خوابوں کے کیا کیانتائج برآمد ہوئے، تاریخ ِاسلام ان تذکروں سے بھری پڑی ہے۔ خوابوں نے بسااوقات سائنسی ایجادات ممکن بنانے اور کائناتی حقائق کی گرہ کشائی کرنے میں بھی اہل ِ علم وفن کی عدیم المثال رہنمائیاں کی ہیں ۔ان کا ذکر یہاں ذکر کرنا باعث ِطوالت ہوگا ۔ (سلسلہ صفحہ ۷)
وائرل ویڈیو میں نظر آتاہے کہ ابراہیم کا خواب حقیقت کا رنگ دھارکر اُن کے ایک لاکھ متبعین کے مشرف بہ اسلام ہونے پر منتج ہوتاہے ۔ تبدیلیٔ عقیدہ کا یہ اجتماعی فیصلہ اسلام کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے ہی مگر ساتھ ہی ساتھ یہ فکرونظر کا ایک وسیع الاثر انقلاب ہے جو بغیر کسی خون خرابے کےیا مذہب کے نام پرکسی جنگ وجدل کے بنا رونما ہوا۔ یاد رکھئےیہ اُسی ندائے رُبانی کی صدائے بازگشت ہے جس نے جبل ِ نور کی بانہوں میں موجود غار حرا سے اپناسفر شروع کر کے انسانی دنیاکے گوشے گوشے میں انسانوں کی تقدیر بدل دینی ہے ، عالم ِانسانیت کو آخری آسمانی کتاب۔۔۔ کلام اللہ ۔۔۔یعنی تازہ وم عقیدہ ٔ توحید اور تہذیب و شائستگی پر مبنی دستور العمل سونپ دینا ہے تاکہ شرک وظلم کی گھٹائیں دور ہوں ، اُخوت وبھائی چارے کا بول بالا ہو، ہر سلیم القلب اور صحیح الدماغ انسان کو روئے زمین پر رہن سہن کے لئے اسلامی نظریۂ حیات پر عمل درآمد کرنا ممکن العمل ہو ۔ یہی آئین ِفطرت ہرزمانے میں آدمیت کو سجانے اور عدل وانصاف کی راہیں سنوارنے کے حوالے سے ہرفرد کی اولین ضرورت ہے۔
بہر کیف نومسلم ابراہیم آج نزول گاہِ ِوحی کے وسیع وعریض دنیا کےاندر حالت ِاحرام میں اللہ کے حضور شکر وسپاس کا مجسمہ بنے اپنا ایمان بھراسینہ پھلاتےہیں اور بزبانِ حال بتاتے ہیں ؎
پاسباں مل گئے کعبے کوصنم خانے سے
ظاہر ہے اس عالمی خبر نے غفلت وانتشارکی نیند سوئی ہوئی ملت اسلامیہ میں دین وایمان کے تعلق سے ایک نئی صبحِ اُمید کی جوت جگائی اوران پر واضح ہوا کہ مسلمانوں کی تمام تر خرابیوں، برائیوں، سرکشیوں اور بے راہ رویوں کے باوجود اسلام کاچشمہ ٔ صافی اپنی تمام تر صداقتوں کے ساتھ من وعن انسان کی روحانی پیاس بجھانے کےلئے رواں دواں ہے۔
دل شکن خبر:
ا بھی جناب ابراہیم رچلمنڈ کے قبولِ اسلام کی گو نج مسلم دنیا میں ایک مثبت پیغام کے طور سنی ہی جارہی تھی کہ اچانک سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم کی ایک مسجد شریف کے سامنے عین بقر عید کے روز ایک دل آزار، دل شکن اور دل خراش مذموم واقعہ پیش آیا۔ کسی عراقی نژاد مخبوط الحال شخص نےمسجد شریف کے بیرونی حصےمیںآزادی ٔ اظہاررائے کے نام سے جاری عدالتی اجازت نامے سے قرآن مقدس کے تئیں بے حرمتی واہانت کا مظاہرہ کیا۔ اس کم بخت انسان کےساتھ ایک دوسرا شخص بھی بدبختانہ فعل میں شریک ِ جرم تھا۔ یہ فتنہ پرداز شخص جو مبینہ طوراپنےمادرِوطن عراق چھوڑ کر پانچ سال سے سویڈن میں رہتا بستا ہے ، خود کو ملحد بتاتےہوئے کسی بھی مذہب سے اپنا تعلق نہیں جوڑتا۔اس کا مطالبہ ہے کہ سویڈن میں قرآن پاک پر پابندی عائد کی جائے۔ قرآن مجید کی بے حرمتی کے شرارت پسندانہ تازہ واقعے نے جہاں اسلامی دنیا میں غم وغصہ کی لہر دوڑا دی ، وہیں عالمی سطح پر عیسائیوں کے روحانی مربی پوپ فرانسس نے اس حرکت کوناقابل ِقبول قرار دے کر اس کی بھرپور مذمت کی ۔ یواین ، امریکہ، چین اور پورپین یونین سمیت کئی مغربی ممالک نے اسلاموفوبیا کے حوالے سے اس نئی گھٹیا حرکت میں ملوث مجرموں کی لعن طعن کی ۔ ترکی ، ایران ، عراق ، سعودی عرب ، مصر، انڈونیشیا، بنگلہ دیش وغیرہ نے دل آزار حر کت پرسویڈن حکومت سے مطالبہ کیا کہ مجرموں کو قانوناً کیفر کردار تک پہنچایاجائے۔ ترکی نے سویڈن کی حکومت کوآزادی ٔ اظہار رائے کی آڑمیں مسلم اُمت کی دل شکنی پرآڑے ہاتھوں لیا۔ واضح رہے کہ چند ماہ قبل سویڈن میں تُرک سفارت خانے کے باہر اسی طرح کی ایک اور دل آزاردیوانگی نے انقرہ اور سٹاک ہوم کے درمیان یوکرین جنگ سے جاری سفارتی رسہ کشی کو دوآتشہ بنادیا تھا۔ تُرکی اور ہنگری سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کے شدید مخالف ہیں۔ سویڈن چاہتا ہے کہ اسے نیٹو کی رُکنیت دی جائے مگر ترکی اس کی مخالفت میں اس بناپر کمر بستہ ہےکیونکہ سٹاک ہوم انقرہ مخالف کُرد دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہاہے۔
اسلاموفوبیا کے عنوان سےمغر ب ومشرق میں جاری ایسی اشتعال انگیز اور قابلِ مذمت حرکتوں کاسلسلہ تھم جانے کا نام نہیں لیتا ، اگرچہ سابق پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی کاوشوں سےاقوام متحدہ اسلاموفوبیا مخالف دن ہرسال بین ا لاقوامی سطح پر منا رہاہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں سے اس حوالے سےاظہارِ یکجہتی بھی کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود اسلام بیزار مجنونانہ و احمقانہ کارروائیاں کسی نہ کسی پیرایئے میں ہورہی ہیں مگر دنیایاد رکھے؎
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
موٹے طور اس منفی صورت حال کی دو وجوہات ہیں: اول یہ کہ مسلمان قرآن پر عمل پیرا نہ ہونے کی پاداش میں دنیا کے لئے عملاًنرم نوالہ بنے ہیں یادھرتی کے بوجھ ۔ دوم قرآن کریم کے پیش کردہ عقائد کا گلدستہ اور اس کے چنیدہ نظام ِ زندگی کا سر سبزوشاداب گلشن مذہب وسیاست کےعالمی ٹھیکیداروں کے مفادات کے عین منافی ہے ؎
چیست قرآن ؟خواجہ راپیغام ِمرگ
دست گیر بندۂ بے ساز وبرگ
علامہ اقبالؔ
ترجمہ: قرآن کیاہے؟قرآن قابض وڈیرے کے لئے موت کاپیغام ہے۔۔۔ بےساز وسامان یاغریب ومحکوم کے لئے مددگار