سیاستمضامین

راہول گاندھی‘ لوک سبھارکنیت سے محرومی کے بعد بھی بی جے پی کیلئےخطرہ ؟

بی جے پی کی راہول مخالف مہم یہ ظاہر کرتی ہے کہ حکومت تنقید برداشت نہیں کر سکتی۔ حالیہ دنوں میں دیکھا گیا ہے کہ راہول گاندھی جو بھی کہتے ہیں، بی جے پی ان پر حملہ کرتی ہے۔ راہول گاندھی مہنگائی، بے روزگاری اور ہر طرح کے مسائل کو برسراقتدار پارٹی کے سامنے پُرجوش طریقے سے اٹھا رہے ہیں، لیکن موجودہ وقت میں حکمران جماعت کے دور میں شہری آزادیوں کی جگہ سکڑتی دکھائی دے رہی ہے۔

شُوما راہا

بی جے پی راہول گاندھی کو ’’پپو‘‘ اور بے سروپا گفتگو کرنے والے لیڈر کے طور پر بیان کرتی ہے۔ وہ انہیں یہ کہہ کر مسترد کر دیتی ہے کہ ان کے پاس نہرو۔گاندھی خاندان میں پیدا ہونے کے علاوہ کوئی کارنامہ نہیں ہے، لیکن آج وہ اسی راہول گاندھی کو خاموش کرانے اور اقتدار سے بے دخل کرنے کی پوری کوشش کرتی نظر آرہی ہیں۔
بی جے پی اور اس کے لیڈران دلیل دیں گے کہ سورت کی عدالت کے فیصلے کا حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ راہول گاندھی کو 2019 کی لوک سبھا انتخابی مہم کے دوران کیے گئے تبصروں کے لیے فوجداری ہتک عزت کا مجرم پایا گیا ہے اور انہیں دو سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ سزا کے بعد ان کی رکنیت منسوخ کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ بی جے پی کے لیے بہت موزوں ہے کیونکہ راہول ایوان میں ایک بااثر مقرر ثابت ہوئے ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی کی صنعت کار گوتم اڈانی سے مبینہ قربت پر مسلسل سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔
کیا راہول کی 2 سال کی سزا قانون کے تحت جائز ہے؟
سورت کی عدالت کے فیصلے کی خوبیوں اور خامیوں پر بحث کرنا وکلاء کا کام ہے۔ راہول نے 2019 میں ایک انتخابی تقریر کے دوران کہا تھا کہ ’’یہ کیسے ہے کہ ان تمام چوروں (نیرو مودی، للت مودی وغیرہ) کی کنیت مودی ہے؟‘‘ کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک عام تبصرہ تھا اور مجرمانہ ہتک عزت کے قانون کے تحت قابل عمل نہیں ہوسکتا، کیوں کہ فوجداری ہتک عزت کا قانون کسی مخصوص شخص کے خلاف کیے گئے تبصروں سے متعلق ہے۔
لیکن، بی جے پی سے وابستہ بہت سے لوگوں اور ‘مودی’ کنیت کے لوگوں نے راہول کے خلاف مجرمانہ ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ سورت کی عدالت نے اپنی صوابدید پر نہ صرف انہیں جرم کا قصوروار ٹھہرانے کا فیصلہ کیا بلکہ قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا بھی سنائی۔ اس کے بعد کیرالا کے وایناڈ سے رکن پارلیمنٹ راہول کی رکنیت منسوخ کر دی گئی۔
للی تھامس بمقابلہ یونین آف انڈیا، 2013 میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جیسے ہی کسی بھی رکن پارلیمنٹ کو مجرم ٹھہرایا جاتا ہے اور اسے دو یا اس سے زیادہ سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے، اسے نااہل قرار دے دیا جائے گا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب وزیر اعظم منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے حکومت نے ایسے سزا یافتہ ممبران پارلیمنٹ کو کچھ چھوٹ دینے کے لیے آرڈیننس لانے کی کوشش کی تو یہ راہول گاندھی ہی تھے جنہوں نے ایک پریس کانفرنس میں یہ کہتے ہوئے آرڈیننس کو پھاڑ دیا کہ کانگریس بدعنوانی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ ایک شخص کو دو سال کی سزا کرپشن پر نہیں، دھوکہ دہی سے کاروبار چلانے پر نہیں، ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے لے کر ملک سے بھاگنے پر نہیں بلکہ مخالف سیاسی جماعت کی انتخابی مہم کے دوران اپوزیشن سیاسی جماعت کے خلاف کچھ زبانی بیانات کے لیے دی گئی ہے۔
بی جے پی کی راہول مخالف مہم یہ ظاہر کرتی ہے کہ حکومت تنقید برداشت نہیں کر سکتی۔ حالیہ دنوں میں دیکھا گیا ہے کہ راہول گاندھی جو بھی کہتے ہیں، بی جے پی ان پر حملہ کرتی ہے۔ راہول گاندھی مہنگائی، بے روزگاری اور ہر طرح کے مسائل کو برسراقتدار پارٹی کے سامنے پُرجوش طریقے سے اٹھا رہے ہیں، لیکن موجودہ وقت میں حکمران جماعت کے دور میں شہری آزادیوں کی جگہ سکڑتی دکھائی دے رہی ہے۔
7 فروری کو پارلیمنٹ میں راہول کے چبھنے والی تقریر کو نکال دیا گیاتھا۔ اس میں وزیر اعظم نریندر مودی پر حملہ کیا گیا۔ حکومت پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ اڈانی کے کاروباری مفادات کو غیر معمولی توسیع دینے میں مدد کر رہی ہے جبکہ اس پر کرونیزم کا الزام لگایا گیا ہے۔ یعنی تقریر کے وہ حصے پارلیمنٹ کے ریکارڈ سے مستقل طور پر ہٹا دیے جائیں گے اور کوئی میڈیا اس کی رپورٹنگ نہیں کر سکے گا۔ یہی نہیں، راہول کے خلاف تحریک مراعات شکنی پیش کی گئی جس میں ان پر ’’گمراہ کن، غیر پارلیمانی اور ہتک آمیز‘‘ بیان دینے کا الزام لگایا گیا۔ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے وزیراعظم کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے۔
ا س طرح کے اقدامات یقینا پارلیمانی سیاست کا حصہ ہیں۔ تاہم، یہاں کا مقصد واضح طور پر ایک ایسے سیاسی رہنما کی آواز کو دبانا تھا جو ایک متنازع صنعت کار کے ساتھ حکومت کے تعلقات کے بارے میں اہم سوالات اٹھا رہا ہے۔ حکومت نے اس معاملے پر تحقیقات کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
راہول گاندھی کے خلاف حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ماہ کے شروع میں جب راہول گاندھی نے برطانیہ میں ہندوستان کے جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کا بیان دیا تو بی جے پی بھڑک اٹھی۔ ’’ہندوستان کے اندرونی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کے مطالبہ‘‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے ان پر بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی۔ یہ ایک کھلا جھوٹ تھا کیونکہ راہول نے واضح طور پر کہا تھا کہ مسئلہ ہندوستان کا اپنا ہے، لیکن دنیا کو اس کے بارے میں جاننا چاہیے۔ اس کے باوجود ان کے ریمارکس پر ایسا ہنگامہ ہوا کہ حکمراں جماعت کی مخالفت سے پارلیمنٹ دو دن تک تعطل کا شکار رہی۔ اس کے ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ راہول کو برطانیہ میں دیے گئے بیانات پر معافی مانگنی چاہیے۔
راہل گاندھی بی جے پی کے لیے سب سے بڑا خطرہ کیسے بنے؟
بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ راہول گاندھی مودی کے سامنے بے معنی اور چیلنج نہ کرسکنے والے لیڈر ہیں۔ اس کے باوجود پارٹی راہول گاندھی کو بدنام کرنے کا ایک بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔
سچ تو یہ ہے کہ راہول کو تیزی سے دیکھا اور سنا جا رہا ہے۔ یہ عمل 3500 سے زائد اور چار ماہ سے زیادہ طویل بھارت جوڑو یاترا کے ساتھ شروع ہوا۔ بہت سے لوگ جنہوں نے 2014 میں مودی اور بی جے پی کو ووٹ دیا تھا اب ایک سیاسی رہنما کے طور پر ان کی پختگی، ان کی دیانتداری اور عزم کو تسلیم کرتے ہیں۔
کیا یاترا کو ملنے والا زبردست ردعمل، یا لوگوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی، 2024 میں کانگریس کو ووٹوں میں بدل دے گی؟ یہ بحث کا موضوع ہے۔ تاہم، یہ ایک حقیقت ہے کہ راہول جو کچھ بھی کہتے اور کرتے ہیں، وہ بی جے پی کو چبھتا ہے۔ بی جے پی اور اس کی اعلیٰ قیادت اسے ایک ممکنہ خطرہ سمجھتی ہے۔ اس لیے اگر کوئی یہ مان لے کہ بی جے پی اس بات پر خوش ہے کہ راہول اب رکن پارلیمنٹ نہیں رہے اور پارلیمنٹ کے اندر ایک آواز چھین لی گئی تو یہ خالص قیاس نہیں ہوگا۔
حالانکہ اس سے راہول دور نہیں ہوں گے۔ ایک ٹی وی بحث میں بی جے پی کے ایک لیڈر نے کہا کہ صرف اس لیے کہ کچھ اپوزیشن لیڈر جیسے اروند کجریوال راہول گاندھی کی حمایت میں بول رہے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے ان سے ہاتھ ملائیں گے۔
ہاں شاید نہ ملایا جائے، لیکن تمام اپوزیشن پارٹیوں کو یہ نوٹ کرنا چاہیے کہ یہ بی جے پی کا سب سے بڑا خوف ہے اور یہی بی جے پی کی ممکنہ دکھتی رگ ہے۔ متحدہ اپوزیشن انتخابی ریاضی کو پلٹ سکتی ہے اور بی جے پی کو شکست دے سکتی ہے۔ کانگریس ایک قابل عمل بنیاد ہو سکتی ہے جس کے ارد گرد اپوزیشن 2024 سے پہلے اکٹھا ہو سکتی ہے۔ بی جے پی اس حقیقت پر یقین رکھتی ہے کہ مختلف اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی مسابقتیں اور عزائم انہیں متحد ہونے سے روکیں گے۔لیکن، بعض اوقات بظاہر ناممکن ممکن ہو جاتا ہے، اور سب سے غیرمتوقع سیاسی اتحاد ہوجاتے ہیں۔ اسی امکان میں راہول بی جے پی کے لیے خطرہ ہیں اور اسی میں حکمراں پارٹی کی جانب سے انھیں بدنام کرنے اور ان کے ’پَر‘‘ کترنے کی انتھک کوشش مضمر ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰