طنز و مزاحمضامین

زندگی کا کوئی علاج نہیں …

حمید عادل

زندگی کو کوئی پہیلی کہتاہے تو کوئی سہیلی، کوئی نوٹوں سے بھری تھیلی کہتاہے تو کوئی مہکتی چمیلی، کوئی رسیلی کہتاہے تو کوئی روپہلی، کوئی غصیلی کہتا ہے تو کوئی سجیلی جب کہ زندگی سے بیزار شخص زندگی کو نوکیلی تصور کرتا ہے…
برصغیر کے طنز و مزاح کے معروف شاعر جناب طالب خوندمیری نے ’’زندگی‘‘ کے تعلق سے مختلف کرداروں کی رائے کو شاعری میں ڈھالا ہے اور خوب ڈھالا ہے۔ اسی سے متاثر ہوکر ہم نے سوچا کہ جسم کے مختلف اعضاء سے ہم پوچھیں کہ وہ زندگی کے تعلق سے کس قسم کے خیالات رکھتے ہیں؟
ہم نے سب سے پہلے کھوپڑی سے پوچھا کہ زندگی کو تم کیا سمجھتی ہو؟ کھوپڑی نے ایک سرد آہ بھر کر کہا ’’ کھوپڑی گنجی کرنے کا نام زندگی ہے۔‘‘
ہم نے کہا ’’ زندگی کی تعریف صرف ایک جملے میں نہیں ہوسکتی ،ذرا کھل کر بتایے سر جی؟‘‘
سر کھجاتے ہوئے سر نے کہا ’’جب کھل کر کہنے کو کہا ہے تو سن لو، زندگی ایسے ایسے دن دکھاتی ہے جناب کہ سر پر پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں اور حالات اس قدر بگڑ جاتے ہیں کہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنا پڑتا ہے۔کبھی زندگی سر بازار رسوا کر جاتی ہے تو کبھی زندگی سر پر سوار ہوجاتی ہے!میں سوچتا ہوں کہ میں نے زندگی کو خواہ مخواہ سر چڑھا رکھاہے ۔‘‘ اور پھراچانک سر نے نہایت بیزارگی سے کہا ’’ اب زندگی کے بارے میں مزید کچھ مت پوچھویار، کیونکہ میں(سر) چکرا رہا ہوں!‘‘
سر سے ہم ذرا نیچے اترے تو آنکھ کے قریب پہنچ گئے، ’’ آپ زندگی کے تعلق سے کس قسم کے تاثرات رکھتی ہیں محترمہ؟‘‘ہم نے آنکھ سے دریافت کیا۔ ہمارا سوال سن کر آنکھوں نے پہلے تو آنکھ بھوں ٹیڑھی کی اور پھر ایک آنکھ نے دوسری آنکھ کو آنکھ مارتے ہوئے کہا ’’ بہنا!ذرا موصوف کو زندگی کے تعلق سے بتاؤ تو سہی!‘‘
دوسری آنکھ سے ہمیں کسی شوخ جواب کی امید تھی لیکن اس آنکھ میں اچانک پانی بھر آیا اور پھر اس نے نہایت مغموم لہجے میںکہا ’’ آنکھ سے لہو ٹپکنے کا نام زندگی ہے، آنکھوں میں کھٹکتے رہنے کا نام زندگی ہے، طوطے کی طرح آنکھیں بدل لینے کا نام زندگی ہے، آنکھوں میں دھول جھونکنے کا نام زندگی ہے،ہر دم آنکھ مچولی کھیلنے کا نام زندگی ہے !‘‘
ایک آنکھ چپ ہوگئی تو دوسری بولی:
’’آنکھیں کھلی رکھنے کا نام زندگی ہے، لیکن زندگی ، آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ دیتی ہے کہ موت قریب آنے تک خبر ہی نہیں ہوتی!میری ناقص رائے میں آنکھوں سے کاجل چرانے کا نام زندگی ہے !‘‘
زندگی کے تعلق سے آنکھوں نے اتنا کچھ کہہ دیا تھا کہ ہم آنکھیں چراکر آگے بڑھ گئے اور کان کے قریب پہنچ کر ہم نے کان میں سوال ڈالا ’’ بھیا! زندگی کے بارے میں تمہارے کیا خیالات ہیں؟‘‘
ہمارے سوال پر کان نے کان نہیں دھرے تو ہم نے اپنا سوال پھر سے دہرایا، لیکن اس کے باوجود کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ شوروغل ایسا بھی نہیں تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے ۔تیسری دفعہ جب ہم نے کان پر سوال داغنے کی حماقت کی تو ہم نے غور کیا کہ کان میں توروئی پڑی ہے ۔ہم نے کان سے روئی نکالتے ہوئے پوچھا ’’ کان میں یہ روئی کیسی؟‘‘
پہلے تو بہت دیر تک کان کھجاتا رہا پھر بولا: ’’ کیا کروں؟ ہر طرف غیبت ، چغل خوری اور گندی گندی گالیوں کی آلودگی ہے،جس کی بدولت کان میں بے تحاشہ میل جمع ہونے لگا ہے!‘‘
’’بری بات کا سننا بے شک گنا ہ ہے ، لیکن یہ تو کہو کہ تمہاری نظر میں زندگی کیا ہے ؟‘‘
ہمارا سوال سن کرکان بہت دیر تک چپ رہا ، پھر ہماری جانب بڑی عجیب و غریب نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ’’ کان مروڑ نے اور کان پکڑ کر اٹھانے ، بٹھانے کا نام زندگی ہے!‘‘
دریں اثناء دوسرے کان نے اپنے خیالات کا کچھ اس طرح اظہار کیا۔
’’ ایک کان سے سننے اور دوسرے کان سے نکال دینے کا نام زندگی ہے!‘‘
دوسرا کان خاموش ہواتو پہلا کان دوبارہ بول اٹھا:
’’ زندگی کبھی ایسی شاطرانہ چال چل جاتی ہے کہ کانوں کان خبر نہیں ہوتی،زندگی ہر لمحہ ایک نئی جنگ ہے اوراس جنگ میںکبھی کبھی کان پر سے تک گولی نکل جاتی ہے!‘‘
’’زندگی کان کی بڑی کچی ہوتی ہے ،ذرا سی بات پر ناراض بھی ہوجاتی ہے!‘‘
دوسرے کان نے رائے قائم کی۔
کان سے ہوکر ہم ناک کے قریب پہنچ گئے۔ یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگاکہ کان اورناک کے درمیان بڑے قریبی تعلقات ہیں، اتنے قریبی کہ اگر ’’کان‘‘ کو بائیں جانب سے پڑھیں تولفظ ’’ ناک‘‘ بن جاتا ہے ،اسی طرح اگر ’’ ناک‘‘کو بائیں جانب سے پڑھیں تولفظ ’’ کان ‘‘ بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ناک پر جو عینک بیٹھتی ہے وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے کانوں کو پکڑکر ہی بیٹھتی ہے۔اگر کان نہ ہوتے تو یقینا ہم جیسے عینک پہننے والوں کی’’ ناک‘‘ کٹ جاتی!
’’ بی ناک! بتایے زندگی کے تعلق سے آپ کی کیا رائے ہے ؟ ‘‘
ہمارے سوال پر ناک نے ناک چھینک کر جواب دیا ’’ چلو بھاگو یہاں سے! میں زندگی کے بارے میں کچھ کہنا نہیں چاہتی!‘‘
’’ تمہاری توناک پر غصہ معلوم ہورہا ہے ،ہم نے ایسا کیا پوچھ ڈالا جو تم اتنا غصہ دکھا رہی ہو؟‘‘
’’ زندگی سے مجھے سخت نفرت ہے!‘‘
ناک نے ناک پھلا کرجواب دیا۔
’’ کیوں؟‘‘
’’ کیوں کہ وہ بڑی بے وفا ہوتی ہے ،پہلے میں زندگی کو ناک کا بال سمجھتی تھی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ کسی کی نہیں ہوتی یہ کب کس کی ناک کٹوا دے اور کب زندگی کے رِنگ سے ناک آوٹ کردے کچھ کہا نہیں جاسکتا،میں تو کہوں گی ناک میں دم کرنے کا نام زندگی ہے، ناک چنے چبوانے کا نام زندگی ہے !‘‘
زندگی کے تعلق سے ناک کے قیمتی خیالات جان لینے کے بعد ہم زبان سے رجوع ہوئے ۔زبان کے تعلق سے ہم عرض کر دیں کہ اسی سے آدمی کاکردار معلوم ہوتا ہے، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ زبان شیریں تو ملک گیری ،یعنی میٹھی زبان ہو توتلوار اور بندوق کے بغیر بھی دنیا فتح کی جاسکتی ہے ۔زندگی سے متعلق ہمارے سوال پرز بان بولی:
’’ کھٹے ، میٹھے اور تلخ ذائقے کا نام زندگی ہے !‘‘
زبان کی زبانی زندگی سے متعلق مختصر الفاظ میں رائے جان لینے کے بعد ہم نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا اور اس پر بھی زندگی سے متعلق سوال داغا۔ سوال سنتے ہی دل سے ایک ہوک اٹھی اور اس نے نہایت درد ناک انداز میں کہا:
’’دل میں درد کا دوسرا نام زندگی ہے!‘‘کچھ دیر سکوت طاری رہا اورپھر دل نے کہنا شروع کیا:
’’ دل کے ارمانوں کا لٹ جانا زندگی ہے!‘‘
’’ میاںدل!زندگی کو اس قدر تلخ مت سمجھو!‘‘
ہم نے دل کو بہلانے کی کوشش کی۔
’’زندگی کیا ہے؟ مجھ سے بہتر بھلا او رکون جان سکتا ہے ؟ ارے دل میں لڈو پھوٹنے کا نام زندگی ہے تو دل کو دھکا لگنے کا نام بھی زندگی ہے !میں تو دل کے ہاتھوں مجبور ہوچلا ہوں دھڑکنے کے لیے!‘‘
ہم نے اسے بہلانے کی پھر ایک بار کوشش کی تو دل نے نہایت سختی سے کہا:
’’ اب تمہاری باتوں سے میں(دل) ہلکا نہیں ہوسکتا برخوردار! زندگی کو جھیل جھیل کر میں(دل) ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا ہوں ،جاؤ ! اب مزید مجھے (دل) نہ دکھاؤ۔‘‘
ہم نے فوری کھسکنے میں ہی عافیت سمجھی،کیونکہ ہمیں یہ ڈر ستانے لگا تھاکہ کہیں زندگی سے ناراض دل پرکوئی حملہ نہ ہوجائے۔
’’ زندگی کے تعلق سے تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘
اس بار ہم نے پیٹ کی جانب سوال اچھالا۔
ہمارا سوال سن کر پیٹ بولا ’’ہر روز پیٹ بھرنے کا نام زندگی ہے!‘‘
’’زندگی تمہیں کیسی نظر آتی ہے؟‘‘
’’ زندگی دکھائی نہیں دیتی میاں! لیکن ہاں اس کے تعلق سے میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ زندگی کے پیٹ میں پاؤں ہوتے ہیں!‘‘
’’ یعنی تم زندگی کو مکار سمجھتے ہو!‘‘
’’ مکار سمجھنے کی کیا با ت ہے،زندگی ہے ہی مکار!‘‘
پیٹ نے دو ٹوک انداز میں جواب دیااور پھر بولا:
’’ پیٹ کے تعلق سے خواہ مخواہ یہ بات مشہور ہے کہ پیٹ بری بلاہے ، پیٹ پاپی ہے ،وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ جو کچھ میرے پیٹ میں جاتا ہے وہ دراصل زندگی کے حصے میں آتا ہے۔میں تو پیٹ پر پتھر بھی باندھ لوں لیکن کیا پیٹ کے بغیر زندگی کا تصور کیا جا سکتا ہے؟‘‘
پیٹ کا سوال سن کر ہم پیٹ سہلاتے ہوئے ایک جانب نکل گئے۔
’’زندگی کیا ہے؟‘‘
ہم نے ہاتھ سے سوال کیا۔
’’جہاں ہاتھ پھیلانے کا نام زندگی ہے وہیں ہاتھ کھینچ لینے کا نام بھی زندگی ہے!ہاتھ صاف کرنے کا نام زندگی ہے تو خالی ہاتھ اس جہاں سے چلے جانے کا نام بھی زندگی ہے!‘‘
تبھی دوسرے ہاتھ نے کہنا شروع کیا: ’’میرے خیال میں ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جانے کا نام زندگی ہے تو ہاتھ دھو بیٹھنے کا نام بھی زندگی ہے! ہاتھ کے طوطے اڑ جانے کا نام زندگی ہے توہاتھ نہ آنے کا نام بھی زندگی ہے!ہاتھ تھامنے کا نام زندگی ہے تو ہاتھ سے پھسلتے رہنے کا نام بھی زندگی ہے !‘‘
جگر سے ہم نے سوال کیاتو وہ بولا:
’’ شیر کے جگر کا نام زندگی ہے توجگر کے کانپ جانے کا نام بھی زندگی ہے ، اگر جگر پیٹنے کا نام زندگی ہے تو جگر تھام کر بیٹھ جانے کا نام بھی زندگی ہے !‘‘
جگر کے بعد ہم نے گردوں کا رخ کیا، ایک گردے نے زندگی کے بارے میں کچھ اس طرح رائے دی:
’’ گردہ( حوصلہ) ہونے کا نام زندگی ہے !‘‘
دوسرا گردہ بولا:
’’ گردے سے پتھری نکل جانے کا نام زندگی ہے! میری ( گردے کی) زندگی اتنی اہم ہے کہ بیشتر ڈاکٹرس اپنے پیشے کی عظمت کو بھول جاتے ہیں اور مجھے ( گردے کو) دھوکے سے حاصل کرلیتے ہیں۔‘‘
گردوں سے پھسل کر ہم پاؤں کی جانب آئے، پاؤں نے زندگی کے بارے میں کچھ اس طرح رائے دی :
’’ پاؤں پاؤں چلنے کا نام زندگی ہے ،اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا نام زندگی ہے !‘‘
دوسراپاؤں بولا:
پاؤں پھونک پھونک کر رکھنا زندگی ہے، پاؤں کی بیڑی ہے زندگی اور پاؤں رگڑ رگڑ کر مرجانے کا نام بھی زندگی ہے !‘‘
ہم انسانی اعضاء کی زندگی کے مختلف رنگوں سے اپنی سوچ اور تصور کو گزارتے ہوئے آگے بڑھے ہی تھے کہ سامنے موت مسکراتی ہوئی کھڑی نظر آئی!
موت کا بھی علاج ہو شاید
زندگی کا کوئی علاج نہیں
فراق گورکھپوری
۰۰۰٭٭٭۰۰۰