مضامین

سزا یافتہ گرمیت رام رحیم سنگھ کو بار بار پیرول پر رہائی کیسے مل جاتی ہے؟

گزشتہ ہفتے ہندوستان میں ایک متنازعہ مذہبی گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کی ویڈیو وائرل ہوئی جو ریپ اور قتل کے جرم میں طویل قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔اس ویڈیو میں ڈیرہ سچا سودا فرقے کے رہنما گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کو جیل سے پیرول پر نکلتے اور ہنی پریت انسین کے ساتھ کیک کاٹتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جسے وہ اپنی گود لی ہوئی بیٹی کہتا ہے۔ اس تقریب کا مقصد ہنی پریت کے انسٹاگرام اکاؤنٹ کو ایک ملین فالوورز تک پہنچنے کا جشن منانا تھا۔
کچھ دن پہلے ایک اور ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں رام رحیم سنگھ کو تلوار سے ایک اور بڑا کیک کاٹتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ ان ویڈیوز کے وائرل ہونے پر میڈیا میں باتیں ہونے لگیں اور لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ حکام سنگھ کو ’بار بار پیرول‘ کی اجازت کیوں دے رہے ہیں۔
گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کو دو خواتین پیروکاروں کے ریپ کا مجرم ٹھہرایا گیا تھا اور اسے 20 سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا، اس کے بعد اگست 2017 سے وہ شمالی ریاست ہریانہ کی سناریا جیل میں قید ہے۔ 2019 میں، اسے ایک صحافی کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور 2021 میں اسے اپنے ایک ملازم کے قتل کے جرم میں ایک اور عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
لیکن اس طرح کے سنگین جرائم میں سزا یافتہ ہونے کے باوجود، سنگھ پچھلے 13 مہینوں میں تقریباً ساڑھے چار ماہ تک جیل سے باہر رہا ہے۔ اسے فروری 2022 میں 21 دن کی پیرول دی گئی تھی۔ جون میں 30 دن اور اکتوبر میں دوبارہ 40 دن کے لیے پیرول پر رہا کیا گیا اور 21 جنوری کو اسے مزید 40 دن کے لیے باہر رکھا گیا۔
سنگھ کے ڈیرہ سچا سودا کے ایک اہلکار نے بی بی سی سے کہا کہ ’پیرول تمام قیدیوں کا حق ہے، یہ ایک انسانی حق ہے‘۔ان کا کہنا تھا ’وہ اپنا وقت روحانی گفتگو میں گزار رہا ہے، وہ لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سخت محنت کر رہا ہے، ڈی ایڈکشن پروگرام پر کام کر رہا ہے، انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہر روز ایک لاکھ لوگ اس کی وجہ سے منشیات چھوڑ رہے ہیں۔
لیکن سنگھ کی رہائی پر سوشل میڈیا پر مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ریپ اور قتل جیسے جرائم کے مجرم کو جیل سے کیسے باہر جانے دیا جا سکتا ہے۔
سکھ مذہب کی اعلیٰ ترین مذہبی تنظیم شرومنی گودوارہ پربندھک کمیٹی ایس جی پی سی نے سنگھ کی پیرول کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت میں ایک درخواست دائر کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ گرومیت رام رحیم کی پیرول پر رہائی سے ’سے معاشرے میں غلط پیغام جاتا ہے‘۔
ایس جی پی سی کے جنرل سکریٹری گروچرن سنگھ گریوال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رام رحیم سنگھ ’ایک بد نما داغ‘ ہے اور جیل کے باہر اس کی موجودگی ’معاشرے کے لیے غلط‘ ہے۔ 2017 میں سزا سنائے جانے تک، رام رحیم سنگھ ہندوستان کے سب سے بااثر مذہبی رہنماؤں میں سے ایک تھا۔ لاکھوں پیروکاروں کے ساتھ، ہریانہ کے قصبے سرسا میں اس کا وسیع و عریض ہیڈکوارٹر تھا، جہاں ہر سال لاکھوں عقیدت مند آتے تھے۔
غیر ملکی لباس اور زیورات سے محبت کی وجہ سے وہ’بلنگ گرو‘ کے نام سے مشہور تھا، سنگھ کو ’راک اسٹار بابا‘ بھی کہا جاتا تھا – اس نے خود اپنی بنائی ہوئی فلموں میں اداکاری بھی کی، راک کنسرٹ کیے اور ہندوستان میں اعلیٰ اور طاقتور لوگوں کے ساتھ تعلقات بنائے۔ وہ برسوں تک پیروکاروں کو ہندوستان کی اہم سیاسی جماعتوں، کانگریس اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو ووٹ دینے کے لیے کہہ کر انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت کے لیے جانا جاتا تھا۔ حالیہ برسوں میں، اس نے بی جے پی کی حمایت کی۔ 2014 کے ہریانہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں، اس نے اپنے پیروکاروں سے پارٹی کو ووٹ دینے کے لیے کہا اور پارٹی کو کامیابی ملی۔ کارروائی سے پہلے، کئی مواقع پر ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کے ساتھ اس کی تصاویر بھی سامنے آئیں۔
مقدمات اور جیل کی طویل سزا کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ رام رحیم سنگھ کا اثر کم نہیں ہوا ہے۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ریاست اتر پردیش کے باغپت ضلع میں واقع اپنے آشرم سے، جہاں وہ پیرول کے دوران رہ رہا ہے، وہ دسیوں ہزار پیروکاروں کے ساتھ ورچوئل میٹنگز کر رہا ہے۔
رام رحیم سنگھ کے ہاں بی جے پی کے کئی سیاست دانوں کی حاضری سامنے آنے کے بعد، اپوزیشن پارٹیوں نے پارٹی پر الزام لگانا شروع کر دیا کہ اسے جو پیرول دیا گیا تھا اس میں پارٹی کا ہاتھ ہے۔ہریانہ میں پارٹی کے چیف ترجمان سنجے شرما نے اس بات سے انکار کیا کہ سنگھ کو پیرول دینے میں بی جے پی یا اس کی حکومت کا کوئی کردار ہے۔ شرما نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا، ’جو لوگ ان سے ملنے جاتے ہیں یا ان کے خطابات میں شرکت کرتے ہیں، وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ان کا ان پر بھروسہ ہے۔ ہمارا ان کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں ہے، ہم قانون کو اپنا کام کرنے دیتے ہیں‘ اس کے علاوہ، انہوں نے کہا کہ ’یہ جیل حکام یا ضلعی انتظامیہ کا کام ہے جو پیرول کو منظور کرتی ہے، اور یہ سب قانون کے دائرے میں ہو رہا ہے‘۔
جس جیل میں رام رحیم سنگھ قید ہے وہاں کے ڈویژنل کمشنر سنجیو ورما، نے گرو رام رحیم سنگھ کے پیرول پر بی بی سی کے سوالات کا جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ عدالت میں ہے۔ جیلوں کے ڈائریکٹر جنرل محمد عقیل نے بھی بات کرنے سے انکار کیا لیکن انہوں نے مزید کہا کہ سنگھ کی پیرول کے خلاف اسی طرح کی دو درخواستوں کو عدالتوں نے خارج کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے وکیل اکشت باجپائی کا کہنا ہے کہ پیرول حاصل کرنا بہت مشکل ہے اور انہوں نے مزید کہا کہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ رام رحیم سنگھ بار بار کیسے پیرول حاصل کر لیتا ہے۔ان کا کہنا تھا پیرول اور فرلو’غیر معمولی اقدامات ہیں‘ جن کا مقصد قیدیوں کی مخصوص ضروریات کو پورا کرنا ہے، جیسے کہ خاندان میں موت یا بچوں یا بہن بھائیوں کی شادی، لیکن ان کا مقصد عدالتی احکامات کو پامال کرنا نہیں ہے‘۔ اکشت باچپائی نے کہا کہ سنگھ انڈر ٹرائل نہیں ہے، وہ ایک سزا یافتہ قیدی ہے جسے عدالت نے ریپ اور قتل جیسے گھناؤنے جرائم کا مجرم پایا ہے۔ لیکن ہر تین چار ماہ بعد وہ باہر ہوتا ہے اور جس ڈھٹائی کے ساتھ وہ باہر حرکتیں کرتا نظر آتا ہے وہ چونکا دینے والا ہے۔ اسے تلوار سے کیک کاٹتے ہوئے دیکھا گیا ہے جو کہ آرمز ایکٹ کے تحت ایک جرم ہے، وہ میوزک ویڈیو بنا رہا ہے اور ریلیز کر رہا ہے، وہ فوجداری نظام انصاف کا مذاق اڑا رہا ہے‘۔

a3w
a3w