مذہب

شانِ رسالتؐ میں گستاخی کسی صورت میں برداشت نہیں

ظالم ملعون نے جو شانِ رسالت میں گستاخی کی ہے اس کے خلاف قانونی کاروئی کی جائے، ہم مسلمانانِ ہند حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ راجہ سنگھ اور اس طرح کے دیگر گستاخانِ رسول کیخلاف سخت سے سخت کاروائی کرتے ہوئے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور ایسی کڑی سے کڑی سزا دی جائے کہ مستقبل میں کسی کو اس طرح کی بدبختانہ حرکت کرنے کی جرأ ت و ہمت نہ ہوسکے۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

یہ حقیقت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تمام عالمِ اسلام کے یہاں اپنی جان ومال، ماں باپ، آل و اولاد سے بڑھ کر محبوب ہے۔ اہل اسلام آپؐ کی عظمت ومحبت میں مال ودولت، جاہ ومنصب، اٰل واولاد، جسم وجاں سب کچھ قربان کرنے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔وہ اپنی توہین وبے ادبی، گستاخی واہانت برداشت کرسکتے ہیں لیکن شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں معمولی سی گستاخی بھی ہرگز برداشت نہیں کرسکتے۔

حیدرآباد کا ایک باشندہ ملعون راجہ سنگھ نے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرکے سارے عالم کے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کیا اور تکلیف پہنچائی۔ اسلام کے بنیادی قانون میں ہے کہ مسلمانوں کے پاس اللہ و رسول کی محبت وعظمت سب سے بڑھ کر رہنا ضروری ہے، ورنہ و ہ خارج اسلام ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

قُلْ إِن کَانَ آبَاؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْکُم مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّی یَأْتِیَ اللّہُ بِأَمْرِہِ وَاللّہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْن(سورہ توبہ)

(اے حبیبؐ)کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور خاندان کے آدمی اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو (اگر یہ ساری چیزیں ) تمہیں اللہ اور اُس کے رسول سے اور اللہ کی راہ میں جدو جہدکرنے سے زیادہ عزیز ہوں تو انتظار کرویہاں تک کہ اللہ اپنا حکم (یعنی عذاب) بھیجے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ان کے پاس سب سے زیادہؐ محبوب ہونا چاہئے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسی کی تعمیل میں حفاظت ِرسول ؐ میں ہمیشہ اپنی جانیں قربان کرنے تیار رہتے۔ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہے۔ جاں نثار حلقہ باندھے آپؐ کی حفاظت فرما تے رہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پروانہ وارنثار ہو تے رہے، آپ ؐنے جنگ احد میں فرما یا: من یردہم عنا و ہو رفیقی فی الجنۃ جو کوئی (ان کفار و مشرکین کو ) ہم سے ہٹائے گا وہ میرے ساتھ جنت میں ہو گا(البدٰیہ و النہایہ)۔ احد کا میدان گواہ ہے کہ حفاظت رسولؐ میں صحابہ کرام ؓ یک بعد دیگر اپنی جانیں قربان کرتے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں ڈھال بنے رہے۔

سبل الھدیٰ والرشاد میں ہے :حضرت ابو دجانہ ؓ اپنی پشت کو حضور ؐ کی حفاظت میں ایسے ڈھال بنائے ہوئے تھے کہ مشرکین کی جانب سے ہر آنے والا تیر اپنی پیٹھ پر لیتے، ساری پیٹھ زخموں سے چور ہوگئی، خون بہتا گیا، اپنے جسم کو حرکت اس لیے نہیں دی کہ آنے والا کوئی تیر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کو لگ نہ جائے۔ آپ ؓ کویقین ہوگیاتھا کہ مجھے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں شہادت کا جام پینا ہے تو چہرہ مصطفی کوتکتے ہوئے حفاظت نبی میں ایک دیوار کی طرح ڈھال بنکر کھڑے رہے۔ حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کی پشت پر اتنے تیر لگے کہ بعض مؤرخین نے ان کی پشت کو’ سیہ‘ جانور (porcupine) سے تشبیہ دی۔

اسی طرح غلامان ِ رسول ؐ میں سے اپنی جان لٹانے والوںمیں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بھی ہیں، جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں اپنی جان و جسم کو ڈھال بنائے رکھا، دشمنانِ اسلام کی طرف سے ہر آنے والی تیر کو اپنے ہاتوں سے روکتے، کبھی اپنے سینے پر لیتے، جسم کا ہر حصہ زخمی ہوگیا۔آپؓ فرماتے کہ مجھے اپنے بھائی عتبہ (کافر)کوقتل کرنے کی جس قدر خواہش تھی اتنی کسی اور کے قتل کی نہیں ہوئی اس نے پتھر مار کر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی کیا تھا۔ میدان احد میں جاں نثارانِ صحابہ میں سے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی خاطر انہوں نے ایسی قربانی پیش کی کہ مشرکین مکہ کی جانب سے جتنے تیر آتے ان کو اپنے ہاتھوں سے روکتے جاتے، آپؓ کے ہاتھ پر اتنے تیر لگے کہ ہاتھ شل ہو گیا۔ آپ ؓ کے ہاتھ و جسم پر ستر زخم لگے۔(سیرت ابن ہشام )۔

جہاں مرد حضرات اپنی جانیں رسول ؐ پر فداء کر رہے تھے وہیں پر خواتین ِ اسلام بھی حفاظت رسولِ میں مردوں سے پیچھے نہیں تھیں چنانچہ حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا کو معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین نے چاروںطرف سے گھیر رکھا ہے تو آپؓ حضورؐ کے دفاع میں آگئیں اورحضورؐ کی طرف ہر آنے والے تیر و تلوار کو اپنے جسم سے روکتی رہیں،یہاں تک کہ حفاظت رسول ؐ میں تقریباً ان کے جسم پر پندرہ (۱۵) تیر کے نشان تھے۔ (تاریخ الخمیس)

اسی طرح حضرت قتادہ بن النعمان رضی اللہ عنہ بھی ان جاں نثاران مصطفی میں شامل تھے، جنہوں نے اپنے رسول ؐ کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا اور اپنی جان کی پروا کئے بغیر حضور ؐ کی حفاظت فرما رہے تھے، آپؓ کفارِقریش کی طرف سے ہونے والے ہر حملے کا دفاع کررہے تھے،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس طرح کھڑے تھے کہ ہر تیر کو روک رہے تھے۔ آپؓ نے ایک تیر کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھا تو آپؓ نے نہ اپنے جسم کو حرکت دی نہ ہی چہرے کو ہلایا کہ کہیں وہ تیر نبی کریم ؐکو نہ لگ جائے۔ اور ایک تیر آکر سیدھے آپؓ کی آنکھ میں پیوست ہو گیااور آنکھ کا ڈلا باہر آگیا۔خون بہنے لگ گیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھ کا ڈلا اپنے دست مبارک سے اس کی جگہ رکھا اور اپنا لعاب دہن لگایا تو حضرت قتادہؓ کی آنکھ بالکل صحیح ہوگئی اور بینائی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی۔ (طبری)

جس وقت میدان احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوگئے، آپؐ کے رخسار اقدس میں جنگی ٹوپی کی ایک کڑی دہنس گئی تھی، تو حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے اپنے دانتوں سے نکالنے کی کوشش کی تو پہلے ایک دانت ٹوٹ گیا اور خون بہنے لگا۔ اپنی تکلیف کی پرواہ کیے بغیر پھر دوبارہ دانت سے پکڑ کر نکالنے کی کوشش کی اور نکالنے میں کامیاب بھی ہوگئے لیکن دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا۔ (سیرت ابن ہشام)

حضرت ابو طلحہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پشت پربٹھا کر ٹیلے کی طرف لے چلے تاکہ آپؐ کی حفاظت کی جاسکے، جب آپؓ آگے بڑھ رہے تھے تو مشرکین کی جانب سے آپؓ کی طرف تیروں کی بوچھار ہونے لگی، حضرت ابو طلحہ ؓ کاجسم زخم سے خون آلود ہوگیا تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اے ابو طلحہ کیسے ہو، تو فوراً آپؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج آپ مت پوچھئے کیوں کہ آپؐ پوچھتے ہیں تو آپؐ کی گردن مبارک میری گردن سے ہٹ جاتی ہے، مجھے خوف ہے کہ کہیں دشمن کا تیر آپؐ کی گردن کو لگ نہ جائے۔اس طرح جنگ احد میں ستر صحابہ میں سے اکثر حضور ؐ کی حفاظت میں اپنی جانیں قربان کیں۔ یہ ہیں عاشقانِ مصطفی جو ہر آن ہر گھڑی اللہ و رسو لؐ کے لیے جان قربان کرنے کے لیے تیار رہتے اور وہ کبھی انکی تنقیص ِ شان برداشت نہیں کرتے۔

ظالم ملعون نے جو شانِ رسالت میں گستاخی کی ہے اس کے خلاف قانونی کاروئی کی جائے، ہم مسلمانانِ ہند حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ راجہ سنگھ اور اس طرح کے دیگر گستاخانِ رسول کیخلاف سخت سے سخت کاروائی کرتے ہوئے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور ایسی کڑی سے کڑی سزا دی جائے کہ مستقبل میں کسی کو اس طرح کی بدبختانہ حرکت کرنے کی جرأ ت و ہمت نہ ہوسکے۔ تمام اہل اسلام سے گزارش ہےکہ برائی کو برائی جانیں اور اس کا سد باب کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ بخاری شریف میں ہے اگر تم کسی برائی کو دیکھو تو اس کو اپنے ہاتھ سے روکو، اگر تم ہاتھ سے روکنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو زبان سے روکو اور زبان سے نہیں روک سکتے تو دل سے اس برائی کو برا جانو یہ کمزور ایمان کی علامت ہے۔ برائی کو برائی نہ جاننا بھی ایمان کو ضائع کر نا ہے۔

شان رسالت میں گستاخِی بہت بڑا جرم ہے۔ اسلامی مملکت میں اسکی سزا قتل ہی ہے۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اسمیں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پورا حق ہے اور یہاں کسی دوسرے مذہب کی مخالفت قانوناً جرم ہے اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے عمائدِ قوم، علماء کرام نے ان گستاخوں کے خلاف عدالتوں میں قانونی کاروائی کی ہے اوراس طرح کی کاروائی نہایت ضروری ہے تاکہ آئندہ کوئی ایسا اقدام نہ کرسکے۔ عوام الناس کے لئے ضروری ہے کہ وہ احتجاج کے ساتھ اس طرح کے عمل کو سنگین جرم جانیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ جس طرح انپی نسبت شرک کو کسی صورت گوارا نہیں کرتا اور اس گناہ و جرم کے مرتکب کو کبھی بھی معاف نہیں فرماتا، اسی طرح اپنے رسول ؐ کی بے ادبی، گستاخی اور اہانت کرنے والوں کو برداشت نہیں کرتا۔ ان کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں سخت سے سخت عذاب ہے۔ ارشادربانی ہے:

إِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ لَعَنَہُمُ اللَّہُ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَأَعَدَّ لَہُمْ عَذَاباً مُّہِیْناً (سورہ احزاب) بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء پہنچاتے ہیں ان پر اللہ دنیا و آخرت میں لعنت کرتاہے اور ان کے لئے (اس نے) ذلت کا عذاب تیار کررکھا ہے۔ گویا ایسے لوگ جو اللہ کا انکار کرتے ہیں اور اس کے رسول مکرم ؐ کے ادب و احترام، تعظیم وتکریم کو ترک کرکے آپؐ کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیںتو وہ جان لیں کہ ایسے بد بختوں کو اللہ دنیا میں بھی ذلیل و رسوا کرتا ہے اور آخرت میں سخت سے سخت سزا متعین کیا ہے۔

مسلمانوں سے گزارش ہے کہ قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنا احتجاج جاری رکھیں اور اس ظالم کے خلاف اتحاد کے ساتھ قانونی چارہ جوئی کرتے رہیں تاکہ پھر کبھی کوئی ملعون وبدبخت ایسی جرأ ت نہ کرسکے۔ اللہ کی بارگاہ میں دعاء ہے کہ اسلام کو غلبہ عطا فرمائے، مسلمانوں کو عزت عطا فرمائے، مسلمانوں کو تحفظ ناموس رسالت کی خاطر مر مٹنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭