عوض لے کر اپنے حق سے دستبرداری کی ایک صورت
اگر کسی مسئلہ میں نزاع پیدا ہوجائے تو اس کو طے کرنے کی دو صورتیں ہیں ، ایک : تراضی ، یعنی طرفین کا کسی بات پر رضامند ہوجانا ؛ بشرطیکہ ایسی بات پر اتفاق نہ ہوا ہو جس کو شریعت نے ناجائز قرار دیا ہے ، دوسرے : حَکم کے ذریعہ معاملہ کو طے کرنا ، اگر ان دونوں صورتوں سے مسئلہ حل نہ ہو تو قاضی شریعت سے رُجوع کرنا ---
سوال:- زید اور بکر دونوں حقیقی بھائی ہیں ، زید نے سعودی عرب میں رہتے ہوئے بکر کو سعودی عرب کا ویزا بھیج کر ملازمت دلوائی ، زید کی بیوی کے انتقال کے بعد ہندوستان مستقلاً واپس ہوا ، اسکول شروع کرنے کے لئے عمارت خریدی ، رقم کی ضرورت پر اپنے چھوٹے بھائی سے قرض حاصل کیا ،
مزید قرض کے بوجھ سے بچنے کے لئے عمارت کا ایک حصہ چھوٹے بھائی کے نام خریدی گئی ، دونوں بھائیوں کی مساوی رقم (تقریباً) سے شراکت داری کی بنیاد پر اسکول چلتا رہا ، تین سال میںچھوٹے بھائی نے تقریباً نو لاکھ روپے مع جائیداد کے لگائے ( سعودی عرب میں رہتے ہوئے ) ،
بڑے بھائی نے اتنی ہی رقم مع جائیداد و حق تنخواہ کے لگائے ، دس سال بعد چھوٹے بھائی جدہ سے مستقلاً واپس ہوگئے ، دونوں بھائیوں میں اختلافات پیدا ہوئے ، دونوں نے مل کر شراکت کو ختم کرنے کا معاہدہ کیا ، جس کو چھوٹے بھائی نے اپنی تحریر سے لکھا ، معاہدہ کی ایک شق سے اختلاف کرتے ہوئے چھوٹے بھائی نے معاہدہ کو کالعدم قرار دیا ، معاہدہ کے اعتبار سے بڑے بھائی کو 16لاکھ روپے ادا کرنے تھے ،
چھوٹے بھائی نے 25لاکھ کا مطالبہ کیا ، والدہ محترمہ اور چھوٹی بہن کی موجودگی میں جھگڑا لڑائی کی نوبت تک پہنچنے پر والدہ محترمہ نے بڑے بھائی کو کمرہ سے باہر بھیج کر چھوٹے بھائی سے پوچھا کہ تمہارا مطالبہ کیا ہے تو چھوٹے بھائی نے 40 لاکھ کہا ، والدہ نے کہا کہ ٹھیک ہے 40 لاکھ دلواؤں گی تم نکل جاؤ ، 40 لاکھ کا معاہدہ تحریر میں لانے کے وقت طے پایا کہ بازو کے گراؤنڈ کی زمین بھی معاہدہ میں لائی جائے ، اس کی قیمت 60 لاکھ طے پائی ، اس طرح جملہ ایک کروڑ کا معاہدہ تحریر ہوا ، جس میں ہر تین ماہ بعد 10 لاکھ ادا کرنے اور40 لاکھ ادا کرنے پر اسکول کی بلڈنگ سے مع حق ملکیت کے دستبرداری اور جملہ ایک کروڑ ادا کرنے پر گراؤنڈ کی بھی رجسٹری کرنے ڈیڑھ سال کی مدت قرار پائی ۔
40 لاکھ مکمل ہونے پر اسکول کی بلڈنگ کے حصہ کو چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کے نام رجسٹری کردی ، گراؤنڈ کے حصہ کے دس لاکھ روپے بھی حاصل کرلئے ، مدت معاہدہ کے اندر ہی مزید 20 لاکھ روپے کا چیک ادا کیا گیا ، چیک کو چھوٹے بھائی نے لینے سے انکار کردیا کہ مجھے نقد رقم چاہئے ، معاہدہ کی مدت ختم ہونے پر چھوٹے بھائی نے کہا کہ مجھے مزید رقم چاہئے ،
جماعت سے واپسی کے بعد بھی والدہ نے کہا کہ تمہاری رقم لے لو اور رجسٹری کردو ، رقم نہیں لی اور دو سال کے بعد پچاس لاکھ کے بجائے ڈیڑھ کروڑ کا مطالبہ کررہے ہیں ، ایک کروڑ زمین کے اور پچاس لاکھ حق ملکیت کے ؟چھوٹے بھائی کا کہنا ہے کہ ایک کروڑ کے معاہدہ کو میں نے مدت کے بعد کینسل کردیا ، اب میں زمین فروخت نہیں کرنا چاہتا ، اگر فروخت کرنا ہی ہے تو ایک کروڑ لونگا ؟ مزید مجھے اسکول کی شراکت کے 50 لاکھ چاہئے ، بڑے بھائی نے اسکول کے ذریعہ بے حد فائدہ اُٹھایا ہے ، مجھے دھوکہ دیا گیا ہے ، وغیرہ وغیرہ ۔
جب کہ واقعہ یہ ہے کہ ایک کروڑ کے معاہدہ میں کہیں یہ تحریر نہیں کہ ڈیڑھ سال کی مدت ختم ہونے پر یہ معاہدہ کالعدم ہوگا ، زمین کے سامنے دو منزلہ عمارت ایک ہفتہ قبل فروخت ہوئی ، اس اعتبار سے بھی زمین کی قیمت 70 لاکھ سے کم ہورہی ہے ، حق ملکیت کی رقم مع حق شراکت کے 40 لاکھ میں آگئی ہے ، اس سلسلہ میں رہبری فرماکر عند اللہ ماجور ہوں ، ایک کروڑ کے معاہدہ میں والدہ محترمہ بڑے بھائی ( جو عالم بھی ہیں) اور بڑی بہن نے گواہان کے طورپر دستخط کئے ہیں ، دو ہفتہ قبل مذکورہ افراد کی موجودگی میں ایک مجلس ہوئی جس میں دونوں کے مطالبات کی سماعت کی گئی ، بڑے بھائی اور بڑی بہن نے دونوں سے کہا والدہ محترمہ کو ’’ حَکم‘‘ مان کر دونوں حَکم کے فیصلہ کو قبول کر کے اپنے اختلافات کو دُور کرلیں ،
بڑے بھائی نے حَکم کے لئے اور حَکم کے فیصلہ کو قبول کرنے کے لئے رضامندی ظاہر کی جب کہ چھوٹے بھائی نے اس سے انکار کردیا اور ڈیڑھ کروڑ سے زائد کی رقم پر اٹل رہے ، اپنے کو مظلوم ظاہر کر کے بڑے بھائی پر الزام تراشیاں کرتے ہوئے بدنام کرتے پھررہے ہیں ، قانونی چارہ چوئی کی دھمکی دے رہے ہیں ، رہبری فرمائے کہ چھوٹے بھائی کا ایک طرفہ معاہدہ کو کالعدم قرار دینا ، زائد رقم کا مطالبہ کرنا ، شروع سے معاملہ کو جاننے والوں کو حَکم نہ تسلیم کرنا اور الزام تراشیاں کرنا کہاں تک صحیح ہے ؟( سید محی الدین قاضی، محبوب نگر)
جواب :- اگر کسی مسئلہ میں نزاع پیدا ہوجائے تو اس کو طے کرنے کی دو صورتیں ہیں ، ایک : تراضی ، یعنی طرفین کا کسی بات پر رضامند ہوجانا ؛ بشرطیکہ ایسی بات پر اتفاق نہ ہوا ہو جس کو شریعت نے ناجائز قرار دیا ہے ، دوسرے : حَکم کے ذریعہ معاملہ کو طے کرنا ، اگر ان دونوں صورتوں سے مسئلہ حل نہ ہو تو قاضی شریعت سے رُجوع کرنا —
آپ نے جو سوال کیا ہے ، اگر وہ درست ہے تو اس معاملہ میں فریقین کی باہمی رضامندی ہوچکی ہے اور یہ ایک جائز معاملہ پر ہوئی ہے ؛ کیوںکہ فریقین میں سے ایک فریق مقررہ عوض کے مقابلہ میں اپنے حق سے دستبردار ہوسکتا ہے ، اس کو فقہ کی اصطلاح میں ’ تنازل بالعوض ‘ کہتے ہیں ؛ لہٰذا ان کا اس پر قائم رہنا واجب ہے ، ایک فریق کا دوسرے فریق کی رضامندی کے بغیر اس سے مکر جانا جائز نہیں ہے اور اس کا اعتبار بھی نہیں ہے ؛ اس لئے چھوٹے بھائی کو طے شدہ معاملہ پر قائم رہنا چاہئے ،
مقررہ مدت پر رقم کے ادا نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے بھائی کا زائد رقم کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے ، دَین کی ادائے گی میں تاخیر کی وجہ سے زائد رقم کا مطالبہ سود میں شامل ہے ؛ البتہ بڑے بھائی کا وقت پر رقم ادا نہ کرنا اس کی غلطی ہے ، اسے فوراً رقم ادا کردینی چاہئے ، ہاں ، اگر بڑا بھائی برادرانہ شفقت سے کام لیتے ہوئے اپنی طرف سے کچھ بڑھا کر دیدے اور یہ بڑھاکر دینا کسی فریق کی طرف سے شرط کے درجہ میں نہ ہو تو یہ ایک بہتر عمل ہوگا ،
رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی ہے کہ کسی کا دین ادا کرتے ہوئے حسن سلوک کی کوشش کرنی چاہئے ، یعنی مقروض کو چاہئے کہ اپنی طرف سے کچھ بڑھا کر دے دے ، نیز فریقین اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ مسلمانوں کا اپنے معاملات کو شرعی اُصولوں کے مطابق حل کرنے کے بجائے ایسا فائدہ حاصل کرنے کے لئے جو حکم شریعت کے خلاف ہو ، عدالت سے رُجوع ہونا جائز نہیں ہے ، وباللہ التوفیق ۔