سیاستمضامین

فلم پٹھان پر طوفان

غلام علی اخضر

شاہ رخ خان کی آنے والی فلم ’’پٹھان‘‘ ان دنوں کافی ہنگامے کا شکار ہے ۔ اس فلم کی مخالفت میںشدت پسند نظریات کے مقلدین کافی سرگرم ہیں۔ پٹھان فلم کو لے کرنارضگی ایسے ظاہر کی جارہی ہے جیسے پہلی بار کسی فلم میں بولڈنیس کو دکھایاگیاہو۔ فلم تھیڑوںکی زنیت بننے سے قبل ہی تنازعہ کا ایسی شکار ہوئی ہے کہ قوی امکان ہے کہ ۲۵جنوری ۲۰۲۳کوریلزہونے کے وقت بڑے پیمانے پر اس پر ہنگامہ ہو۔ فلم بائیکاٹ کی روش اب بہت عام ہوچکی ہے۔ فلم آنے سے قبل ہی مخالفین اپنے دربے سے نکل پڑتے ہیں اور پھر مخالفت کا ماحول گرم ہوجاتا ہے۔ رنگ و نسل کی سیاست کو دنیا اگرچہ مٹانے کا دعویٰ کرے لیکن حالات بتاتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ہمارے بیچ مسموم ذہنیت کے زیر سایہ زندہ رہے گی۔ رنگ تو رنگ ہے ۔ وہ کسی مذہب کا کیوں کر ہوسکتا ہے؟ لیکن انسان ہے کہ ہمیشہ اسے بانٹتا ہی رہتا ہے ۔ کبھی ملک کے نام پر، کبھی سرحد کے نام پر، کبھی مذہب کے نام پر، کبھی اسٹیٹ کے نام پر توکبھی ذات پات کے نام پر۔
پٹھان فلم کے اس گانے میں’’ نشہ چڑھا جو شریفی کا اتار پھینکاہے/بے شرم رنگ کہاں دیکھا دنیا والوں نے۔‘‘ ایک جگہ بولڈنیس کی عکاسی میںاداکارہ دیپیکا پادوکون زعفرانی رنگ کا ’’سوئمنگ سوٹ‘‘ زیب تن کی ہوئی ہے جسے اب کچھ اندھ بھگت مذہب سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیںجب کہ بھگوا لنگوٹاپہننا عام ہے۔زعفرانی رنگ کو عام طور پر ہم امن آشتی کا رنگ تصور کرتے ہیں۔ اس لیے تو محبت و الفت اورانسانسیت کے مبلغین صوفی سنت اسے زیب تن کرتے ہیں۔ لیکن عصر حاضر میں بھگوا رنگ کا ایسا سیاسی کرن ہوا ہے کہ وہ اب ڈرپیدا کرنے کی پہچان بن چکا ہے۔ہرکس و ناکس اس کے نام پر سیاست کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے، یا اسے لگتا ہے کہ ہم بھگوا رنگ پہن کر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ مسلم مکت بھارت کے نعرے لگانے والے سے لے کر مسلمانوں کی نسل کشی تک کے اپیل کرنے والے سب اسی رنگ کے کپڑے زیب تن کیے ہوئے آپ کو مل جائیں گے۔بنفسہٖ گانا کافی دلنشیں اور مسحور کن ہے جو مجھے بھی کافی پسند آیا۔ رہا اس کا ڈانس اور فحاشی کے بارے میں تو سنیما کے لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، گرچہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت اس سے میل نہ کھاتی ہو۔ ہندوستانی تہذیب کا سنیمااور سوشل میڈیا نے جوکایا پلٹ کی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی واضح ر ہے کہ آزاد ملک میں ہر فرد کو آزادی ہے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق جو چاہے پہنے۔ انسان جو کبھی ننگا رہاکرتاتھا اس نے صدیوں کی محنت سے لباس ایجاد کیا لیکن پھر انسان اس طرف قدم بڑھا چکا ہے کہ آج کی عریانیت کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ پھر خود کو دہرا رہی ہے۔
غلط چیزوں کی مخالفت کرنا اچھی بات نہیں ہے لیکن مخالفت کا مقصد اصلاح ہونی چاہیے اگر اصلاح نہیں ہے تو پھرآپ کی مخالفت ملک وملت کی فلاح و بہبود اور مفاد میںنہیں ہے بلکہ اس مخالفت میں ایک پارٹی، ایک گروہ اور ایک انسان کا ذاتی مفاد پوشیدہ ہے جس میںبے جا پورے ملک کوپریشان ہونے کے لیے جھونک دیا جاتا ہے۔ کئی تو سرغنہ کے بہکاوے میں آکر ایسا کام کرگزرتے ہیںکہ بے چارے سلاخوں کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔ باقی سردار اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے، اسے اپنی منزل مل جاتی ہے اور شہرت بھی۔
مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا اس فلم کو زہریلی ذہنیت پر مبنی بتارہے ہیں جوخود دن رات معاشرے میں زہر پھیلاتے رہتے ہیں۔وزیر داخلہ کا اعتراض ہے کہ فلم خامیوں سے بھری ہوئی ہے جو مذہبی جذبات کو مجروح کرتی ہے۔نروتم مشرانے دیپیکاپادوکون کو ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا حامی بھی بتایا۔ انھوں نے اس فلم کو مدھیہ پردیش میں نہ لگا نے کی دھمکی بھی دے ڈالی ہے۔ آتنگ سوچ کی ملکہ پرگیہ ٹھاکو نے کہا:اگر آپ سچے ہندو ہیں تو ’پٹھان فلم‘کو نہیں دیکھیں گے اور نہ ہی چلنے دیں گے۔ ایودھیاکے مہنت پرم ہنس آچاریہ نے اپنی شر انگیزی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’بے شرم رنگ گانے میں بھگوا رنگ کی توہین کی گئی ہے، ہمارے سناتن دھرم کے لوگ اس حوالے سے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں، آج ہم نے شاہ رخ خان کا پوسٹر جلایا ہے، میں ڈھونڈ رہا ہوں اگر مجھے فلم جہادی شاہ رخ خان کہیں مل گیا تو میں اسے زندہ جلا دوگا۔‘‘ ایودھیا کے ہی ایک اور مہنت راجوداس نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ جس تھیٹر میں یہ فلم لگے اس تھیٹر کو آگ کے حوالے کردو۔ فلم بائیکاٹ مہم اورنفرت کی اس بہتی گنگا میں کئی کانگریسی اور کئی مسلم رہنما بھی کود پڑے ہیں۔اس کے علاوہ ہندو مہا سبھا،وشوا ہندو پریشد اور کئی مسلم تنظیموںنے بھی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ کوئی حدسے زیادہ فحش ہونے کی بات کررہا ہے تو کوئی مذہبی اعتبار سے غلط کہہ رہا ہے۔ سوال ہے کہ اس سے پہلے بھی کئی فلموں میں عریانیت کے ساتھ بدن کی جمالیات کو پیش کیا گیاہے، اسی طرح بھگوا رنگ میں بھی کئی فلموں میں بولڈڈانس کیے گئے ہیں لیکن ان پر کیوں اعتراض نہیں کیا گیا۔جب کہ ان فلموں کے بیشتر اداکارموجودہ حکومت کے حمایتی اور کئی تو اس کے لیڈرہیں۔ ہندوستان تیزی سے ایک بھارت، ایک نعرہ، ایک قانون اور ایک کلچر کے ضمن میں دونظریہ اور دہرا رویہ کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ وہی فلم جب کسی خاص طبقہ کوسوچی سمجھی سازش کے تحت بدنام کرنے کے لیے بنائی جاتی ہے تو اسے پھرایسے ہی ہنگامے کرنے والے گروہ کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ دی کشمیر فائلز جو ایک ’’برین واش‘‘ فلم ہے اسے کس قدر گودی میڈیا اوراس کے حمایتیوں نے سوپر ہٹ کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح جھوٹی تاریخ پر مبنی فلم’’سمراٹ پرتھوی راج‘‘کو حکومت کے وزرا تک فلم کو کامیاب بنانے میں لگ گئے تھے ، لیکن بدقسمتی سے فلم فلاپ ہو گئی۔ کچھ سالوں سے دیکھا یہ جارہا ہے کہ جو فلم مسلمانوں کے خلاف لوگوں میں نفرت پیدا کرسکتی ہے اسے بڑے پیمانے پر حمایت مل رہی ہے۔
’’بے شرم رنگ ‘‘ جہاں خوب شہرت سمیٹ رہا ہے وہیں اس پرسوشل میڈیا صارفین کی جانب سے الزام لگ رہا ہے کہ گانے کی دھن سرقہ کی گئی ہے۔ دعویٰ ہے کہ فرانسیسی گلوکارہ جین کے گانے ’’مکی با‘‘سے دھن کا چربہ ہے۔ یہ نغمہ ’’ہمیں تو لوٹ لیا مل کے عشق والوں نے‘‘ جہاں سے ہندوی زبان میں شروع ہوتا ہے فوراً ذہن’’ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے‘‘کی طرف جاتا ہے۔ لیکن دوسرے مصرعے سے خیال بالکل الگ ہے۔ اس گانے کو راکیش کمار پال نے لکھا ہے اور شلپارائو نے اپنی میٹھی ، پرکشش اور سحرانگیز آواز سے اسے دلنشیں بنایاہے۔ وشال شیکھر جواس گانے کے میوزک پروڈیوسر ہیں انھوں نے بھی اپنے ہنرکا خوب جادودکھایا ہے۔ خبروں کے مطابق فلم ’’پٹھان‘‘میں شاہ رخ خان ، جان ابراہم اور دیپیکا پادوکن ممکنہ طور پر جاسوس کا کردار ادا کریں گے۔ فلم کے ہدایت کارسدھارتھ آنند اور فلم پروڈیوسر آدتیہ چوپٹرا ہیں۔
فلمیں تو بنتی رہتی ہیں اور اس پر ہنگامے ہوتے رہتے ہیں ؛یہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ان ہنگاموں کے بیچ میڈیا جو ملک کے اصل ایشوز کو اپنے اسکرین سے اڑا رہا ہے اس پر کافی سنجیدگی سے غور وفکرکرنے کی ضرورت ہے۔ ان دنوں جو بائیکاٹ کی رسم چل پڑی ہے اس سے ملک اور فلم انڈسٹری کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ سکتا ہے، جو کہ ٹھیک نہیںہے۔ کلکتہ فلم فیسٹیول میں امیتابھ بچپن کا یہ کہنا کہ ملک میں شخصی آزادی خطرے میں ہے کافی معنی رکھتاہے۔اس فلم فیسٹیول میں شاہ رخ نے سوشل میڈیا کے مضر اثرات پر روشنی ڈالنے کے ساتھ یہ بھی پیغام دیا کہ آپ مثبت رہیے اور مثبت سے ہی منفی سوچ کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے۔ حال میں ہی ایمپائر میگزین نے دنیا کے ۵۰ عظیم اداکاروں کی فہرست جاری کی جس میں ہندوستان سے صرف شاہ رخ خان کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ فہرست قارئین کی ووٹنگ کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے، شہرت کی اس بلندی کوچھونے پر شاہ رخ خان کو صمیم قلب سے مبارک بادپیش ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w