قرآن مجید کےحقوق
قرآن پاک اللہ سبحانہ تعالی کاکلام ہے جوسیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہرپرنازل کیاگیاہے،یہ کتاب ہدایت ہے ساری انسانیت کے لئے ہدی للناس (البقرہ: ۱۸۵) اللہ سبحانہ کا یہ مبارک کلام کسی خاص قوم وقبیلہ یا ملک کے لئےنہیں ہےبلکہ یہ ساری انسانیت کےلئے ہدایت کاسرچشمہ ہے۔

مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
Cell No. 9848862786
قرآن پاک اللہ سبحانہ تعالی کاکلام ہے جوسیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہرپرنازل کیاگیاہے،یہ کتاب ہدایت ہے ساری انسانیت کے لئے ہدی للناس (البقرہ: ۱۸۵) اللہ سبحانہ کا یہ مبارک کلام کسی خاص قوم وقبیلہ یا ملک کے لئےنہیں ہےبلکہ یہ ساری انسانیت کےلئے ہدایت کاسرچشمہ ہے،اس کا ایک ایک حرف اورایک ایک سطرسےحق کا نورعیاں ہے۔ قرآن مجید کی نسبت سے کئی حقوق انسانوں پرعائد ہوتے ہیں،اس کا پہلا حق اس پر ایمان لاناہے کہ یہ آسمانی کتب وصحائف میں آخری آسمانی کتاب ہےاوریہ خاتم النبیین سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے، اس میں کوئی شک و شبہ اور ریب وارتیاب نہیں۔یہ ایمان وعقیدہ ہرمسلمان کے دل میں راسخ ہوتاہےالبتہ وہ انسان جوایمان کی نعمت سے محروم ہیں اس پرایمان لانے ہی سےمسلمان کہلاتے ہیں،اللہ سبحانہ کواپنا خالق ومالک ماننااوراس کی وحدانیت کی گواہی دینااوراس کے ساتھ اس کے فرشتوں،اس کی کتابوں ،اس کے رسولوں ،یوم آخرت ،تقدیراوربعث بعدالموت یعنی موت کے بعددوبارہ زندہ کرکے اٹھائے جانے پرایمان رکھنا، زبان سے ان کے اقرارکے ساتھ قلب سے تصدیق کرنابھی ضروری ہے۔ایمان ویقین کے نورسےاللہ سبحانہ کےکلام کی عظمت اوراس کا احترام دلوں میں نقش ہوتا ہے ’’ایمان لائے رسول اس (کتاب)پر جوان پر نازل کیا گیاہے ان کےرب کی طرف سے اور (ایمان لائےاس کے ساتھی)اہل ایمان یہ سب دل وجان سےاللہ سبحانہ پر،اس کے فرشتوں ،اسکے کتابوں اوراس کے رسولوں پرایمان رکھتے ہیں(اوریہ اقرارکرتے ہیں)ہم فرق نہیں کرتےکسی میں اس کے رسولوں میں سے،انہوں نے معروضہ کیاکہ ہم نے سنااورہم نے اطاعت کی اے ہمارے رب ہم تیری بخشش ومغفرت کے طالب اورتیری ہی طرف ہم کو لوٹنا ہے‘‘ (البقرہ؍۲۸۵)
یہ معجزانہ کلام ہےاس کی شان انوکھی ونرالی ہے انسانوں کے بس میں نہیں کہ وہ اس جیسے کلام کی کوئی مثال پیش کرسکیں، قرآن عربی زبان میں نازل ہوا،عرب میں نازل ہوا اورعربوں کی زبان عربی ہے ،عربوں کی فصاحت وبلاغت کابڑاچرچاتھاوہ ایسے فصیح البیان وبلیغ اللسان تھےکہ دنیا میں کوئی ان کاثانی نہیں تھااس لئےان کے مقابل ساری دنیا والےعجمی (گونگے)کہے جاتے تھےلیکن جب قرآن پاک کانزول ہواتوان کایہ فخر و غرور چکنا چورہوگیا،اب وہ کسی کوعجمی کہنے کاطعنہ دینےکے موقف میں نہیں رہےکیونکہ وہ خود بھی قرآن پاک کی زبان کے مقابلہ میں گونگے ثابت ہوئےاس لئےقرآن نےاپنی صداقت کےلئے کئی مقامات پر فصحاء وبلغاء عرب کو چیالنج دیاکہ’’ اگروہ اس کوانسان کاکلام مانتے ہیں یا اس کے منزل من اللہ ہونے میں ان کو کوئی شک ہے تواس جیسی کوئی ایک سورت لے آئو اورتم چاہو تو اللہ سبحانہ کےسوااپنےمددگاروں کوبھی بلالو‘‘ (البقرہ: ۲۳، یونس؍۳۸) ’’کیا یہ کہتے ہیں یہ قرآن نبی نے خود ہی بنالیا ہے، آپ فرمادیجئے (اگر یہ بات ہے ) توپھر تم (بھی) ایسی بنائی ہوئی دس سورتیں لے آؤ اور اگر تم سچے ہو تواللہ سبحانہ کے سوا جو مل سکیں (اپنی مددکےلئےان)سب کو بلالو ‘‘(ہود؍۱۳) ظاہر ہے اللہ سبحانہ کی ذات علیم وخبیرہےوہ خالق ہے سارے انسان خواہ عربی ہوں کہ عجمی مخلوق ہیں اس لئے ان کوکہاں اس بات کی قدرت کہ وہ اللہ سبحانہ کے کلام کے مثل کوئی کلام پیش کرسکیں چنانچہ اللہ سبحانہ نے حتمی اعلان فرمادیا کہ ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ فرمادیجئےاگرسارے جن وانس ملکربھی قرآن کے مثل لاناچاہیں توان سب کےلئے اس کے مثل لاناناممکن ہےاگرچہ کہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں‘‘(بنی اسرائیل: ۸۸) قرآن پاک کایہ چیالنج قیامت تک آنےوالےسارے انسانوں کےلئے ہے لیکن چودہ سال سے زائدعرصہ گزرجانے کے باوجودیہ چیالنج آج تک تشنہ ٔجواب ہےاورقیامت تک کسی کی مجال نہیں کہ وہ اس چیالنج کوقبول کرسکیں۔جیسے ساری مخلوقات میں اللہ سبحانہ کوفضیلت حاصل ہے اس کے کلام کوسارے کلاموں پر افضیلت وبرتری حاصل ہے۔ وفضل كلام الله على سائر الكلام كفضل الله على خلقه(سنن الترمذی: ۵؍۱۸۴)
قرآن پاک میں علم معرفت کا نور ہے، فصاحت و بلاغت میں وہ اپنی نظیرآپ ہے،اس کی آیات بینات میں کہیں وضاحت وصراحت ہے تو کہیں مجازات، استعارات وکنایات ہیں ،اس کااعجازیہ ہے کہ اس کی آیات پاک کی تلاوت ہو یا سماعت اس کے الفاظ کی شیرینی کانوں میں رس گھولتی ہے، کٹھورسے کٹھوردل پگھلتےہیں،اس کے معانی ومفاہیم جانے بغیر بھی اس کے پڑھنے اور سننے والوں کی آنکھیں اشکبارہوجاتی ہیں، پڑھے لکھے، اَن پڑھ سب کویکساں مسحورکرتی ہے اور دلوں میں زندگی کی حرارت پیدا ہوجاتی ہے،یہ وہ کتاب ہدایت ہے جس سے عقل وخرد کو روشنی ملتی ہےقلب وروح کو آسودگی نصیب ہوتی ہے، افکار و خیالات نورکے سانچے میں ڈھلتے ہیں،روح کے پیاسوں کو سیرابی نصیب ہوتی ہے،اللہ سبحانہ نے اس میں فطری کشش رکھی ہےجونوع انسانی کواپنی طرف کھینچتی ہے۔ہرکوئی اپنی بساط کے مطابق اس سے علمی جواہرپارے اپنے دامن میں بھر سکتا ہے، یہ کتاب ہدایت علوم ومعارف کا گنجینہ ،اسرارورموزکاخزینہ ہے، الغرض یہ کتاب ہدایت حقائق ومعارف کابیکراں سمندر ہے۔
اس سے کچھ لینا ہو تو حسن نیت اورحسن طلب شرط ہے۔اس سے سچی نسبت نےبہت سوں کونوازا،جوذرئہ بےمقدارتھےوہ آسمان ہدایت کےجگمگاتے ستاروں کےمانندہوگئے،دنیا جہاں کے قیمتی ہیرے جواہرات اتنے بےمایہ ہیںکہ قرآن پاک کےایک حرف کی جیسی قدروقیمت نہیں رکھتے،جوبےنواوفقیرتھےتاج عزت وافتخار ان کے سروں کی زینت بن گئے۔قرآن حکیم سرچشمۂ فیضان نبوت ہےاس سےعلوم وفنون کی نہریں جاری ہوئیں،روح کے پیاسے جب اس سے سیراب ہوئےتوان کی تشنگی بجھی،ان کے سینےعلوم وفنون کے بحربیکراں بن گئے۔یہ کتاب ہدایت اپنی مرضی کے مطابق صرف پڑھنے سننے کی نہیں ہے بلکہ اس کےالفاظ اوران الفاظ کےاداکرنےاور ان کے پڑھنے کا طریقہ، اس کے رموز و اوقاف، اس کے معانی و مفاہیم، اس کے اسرار ورموز،اس کے حقائق ودقائق سب منزل من اللہ ہیں،وہ جواس کی تلاوت احسن طورپر سکھاتے ہیں وہ اس کے امین ہیںان کوقاری کہتے ہیں،حدیث پاک میں ان کی بڑی فضیلت ہے۔ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ’’جوقرآن کو سیکھیں اوردوسروں کو سکھائیں وہ سب میں بہترہیں‘‘(صحیح البخاری: ۴؍۱۹۱۹)۔ویسےقرآن پاک کی نسبت سے انسانوں پر کئی حقوق عائدہوتے ہیں جیسے اس کی صحت اداکے ساتھ ، اسکے شان نزول،ناسخ ومنسوخ، معانی ومفاہیم،حقائق ومعارف وغیرہ ان سب کے سیکھنےاور سکھانے والےقراء کرام کی طرح مذکورہ حدیث پاک کی فضیلت کے مستحق ہیں چونکہ قرآن حکیم کی تلاوت صحت اداسے سکھاناایک اہم ترین اولین فریضہ ہے، صحت تلاوت کے آداب وقواعدکالحاظ رکھتے ہوئے قرآن حکیم کی تلاوت سکھانے کوتجوید کہتے ہیں۔
قرآن پاک کی نسبت سےیہ دوسرااہم ترین حق ہے کہ الفاظ صحیح اداہوںاوران کے اداکرنے میںجن کی رعایت ضروری ہے ان کاپاس ولحاظ ہو،صحت اداکےلئے حروف کے مخارج و صفات کے ساتھ اودیگرقواعدکاجاننا بھی ضروری ہےجیسے اظہار، ادغام، قلب، اخفاء، غنہ، نیز لام جلالہ اورراء کو پُر اور باریک پڑھنے کےقواعدکی تفصیل وغیرہ،اوربہت سےمقامات پر حروف کودرازکرکے یعنی ’’مدود‘‘کی رعایت کرتے ہوئے تلاوت کرنا، چونکہ اس کانزول اسی ترتیل کے ساتھ ہوا ہے: وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا (المزمل؍۴) جب اس کا نزول ترتیل کے ساتھ ہواہے تواس کی تلاوت بھی ترتیل کے ساتھ ہونی چاہیے،ترتیل کے کئی معنی ہیں جوتفصیل طلب ہیں لیکن ترتیل کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ قرآن پاک کوجیسے اس کی تلاوت کاحق ہے ویسے اس کی تلاوت کی جائے ’’وہ جن کوہم نے کتاب دی ہے وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسے اس کی تلاوت کرنے کاحق ہے‘‘ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ (البقرہ: ۱۲۱) ظاہرہےتلاوت قرآن کی صحت اداکےلئےجن اصول وقواعد کی رعایت ضروری ہے ان کے بغیر حق تلاوت صحیح طور پر ادانہیں ہوسکتا۔اس سے مرادیہ ہے کہ جیسے حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے قرآن پاک کی تلاوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضور کی ہے اس کی تفصیل سورۃ القیامہ آیات ۱۶تا۱۹میں دیکھی جاسکتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےویسے ہی اہل بیت اطہار وصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کواس کی تلاوت سکھائی ہےان سے تابعین نے اورپھران سےتبع تابعین رحمہم اللہ علیہم اجمعین نے جیسے صحت اداکے ساتھ تلاوت سیکھی ہےانہوں نےاپنےاگلوں کوویسے ہی سکھایاہے اوریہ ایک زنجیری سلسلہ ہے جوآج تک جاری ہے اورتاقیام قیامت جاری رہے گا،چنانچہ جوتلامذہ اپنےاساتذئہ کرام سےصحت اداکے ساتھ تلاوت سیکھتے ہیں وہ ان کو سندعطاکرتے ہیںجس کاسلسلہ اپنے استاذگرامی سے سیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرمنتہی ہوتاہے۔
قرآن پاک کی صحت تلاوت کی نسبت سےجوفن شریف معرض وجودمیں آیاہے اس کانام’’تجوید القرآن‘‘ہے۔ عربوں کےلئےاس کی تدوین ضروری نہیں تھی البتہ جوغیرعرب ہیں ان کےلئے اس کی شدید ضرورت محسوس کی گئی ، چونکہ عربی زبان کے حروف تہجی میں مثلا:ذ،ز،ظ،ض یہ چارحروف ہم آوازہیںلیکن ان کےمخارج وصفات میں بہت فرق ہےان کے علاوہ اور حروف بھی ہیں جوہم آوازہونے کی وجہ ان کی بھی یہی صورتحال ہےچونکہ اس کی رعایت کے بغیرتلاوت سےمعنی تبدیل ہوجانے کاسخت اندیشہ ہے اس لئےاس فن شریف کا سیکھنا ہر مسلمان پرفرض عین ہے۔اس فن شریف کی رعایت کے ساتھ حسن صوت (اچھی آواز) ہو تو پھر نور علی نور اس کے کیا پوچھنے حدیث پاک میں ارشاد ہے زینواالقرآن باصواتکم (ابوداؤد: ۱۵۴۸۶) اپنی آواز سے قرآن کو مزین کرو۔ حسنوا القرآن بأصواتكم فإن الصوت الحسن يزيد القرآن حسنا (شعب الایمان: ۲؍۳۸۶) اچھی آواز سے قرآن پاک کی تلاوت کرو کیونکہ اچھی آواز سے اس کی تلاوت اس کے حسن میں اوراضافہ کردیتی ہے۔ إقرؤا القرآن بلحون العرب و أصواتها (شعب الایمان: ۲؍۵۴۰) قرآن کریم کو عربی لحن اورعربی طرزاداسے تلاوت کرو‘‘۔
بہت سے لوگ قرآن پاک کی تلاوت توکرتے ہیںلیکن صحت اداکے ساتھ تلاوت سیکھنے میں کوتاہی وغفلت برتتے ہیںوہ عنداللہ گنہگار ہوں گے، اس لئے ہرمسلمان کوضرورصحت ادا سے تلاوت کرناسیکھناچاہیےتاہم وہ جوسیکھنے کاجذبہ رکھتے ہیں اورابھی سیکھ نہیں پائے ہیں توان کوتلاوت نہیںترک کرناچاہیے بلکہ جیسے ان کوتلاوت کرنے آتاہوویسےہی اس کی تلاوت کرتے رہیں حدیث پاک میں واردہے ’’جو شخص قرآن پاک کی تلاوت میں ماہر ہو، وہ معزز اور نیک سفراء (فرشتوں) کے ساتھ ہو گا،اورجو شخص اٹک اٹک کر قرآن پڑھتا ہے اور اس میں مشقت وتکلیف اٹھاتا ہے وہ دہرے اجرکامستحق ہے‘‘ الماهر بالقرآن مع السفرة الكرام البررة والذى يقرأ القرآن ويتتعتع فيه وهو عليه شاق له أجران (صحیح مسلم ۲؍۱۹۵) اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ صحت اداکے ساتھ تلاوت کرناسیکھنےکوضروری نہ سمجھاجائے،حدیث پاک میں جوفضیلت واردہے وہ ان کے حق میں ہے جوسیکھنے میں حددرجہ محنت و مشقت اور جدوجہدکرنے کے باوجودصحیح تلاوت کرنا نہیں سیکھ پائے ہیں البتہ صحت اداسے تلاوت کرنے والوں کامرتبہ اعلی وارفع ہے بشرطیکہ وہ قرآنی احکام کے مطابق زندگی گزارتے ہوں ان کااعزازواکرام یہ ہے کہ وہ معززومکرم فرشتوں کے ساتھ ہوں گے۔
قرآن پاک کاتیسراحق اس میں تدبر کرنا ہے (النساء: ۸۲) آیات قرآنی غوروتدبرسےہدایت کی راہ روشن ہوتی ہے، کفارومشرکین نورہدایت سے اس لئے محروم ہیں کہ انہوں نے اس پرایمان نہیں لایا اورنہ اس کے معانی ومفاہیم جان کر اس میں غوروتدبرکیا،جس کسی کو یہ توفیق مل جائے اس پر روز روشن کی طرح یہ بات عیاں ہوجاتی ہیں کہ یہ مخلوق کا نہیں بلکہ خالق کاکلام ہے۔ اس کتاب ہدایت سےصحیح معنی میں نسبت وہی رکھتے ہیں جو متقین ہیں ہُدًی لِلْمُتَّقِینَ (البقرہ؍۲)۔ تقویٰ کی آسان تعریف یہ ہےکہ مسلمان وہاں نظرنہ آئیں جہاں جانے سےاللہ سبحانہ نےمنع کیاہےاوراس جگہ ضرور حاضررہیں جہاں حاضر رہنے کااس نے حکم دیا ہے۔ التقوى أن لا يراك الله حيث نهاك ولا يفقدك حيث أمرك (تفسیر روح المعانی: ۱؍۱۰۸) اس کتاب الٰہی کانزول ساری انسانیت کے لئے ہے لیکن اس آب حیات سےوہی اپنی تشنگی بجھاتے ہیں جو سچی طلب رکھتے ہیںاورجن کے قلوب ہمیشہ خوف الہی سے لرزاں وترساں رہتے ہیں،ہرآن اللہ سبحانہ کے حضور حاضری کے استحضارکے ساتھ آخرت میں اس کی بارگاہ قدس میں حاضری اوراپنے اعمال کی جوابدہی کااحساس تازہ رکھتے ہیں۔ چوتھا حق قرآن پاک کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانا ہے،’’اے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم )آپ کے رب کی طرف سے جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے‘‘ (المائدہ: ۶۷) دشمنان اسلام کی سازشیں اوران کی ریشہ دوانیاںاس راہ کاروڑابنتی رہیںلیکن سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےکسی ڈروخوف اورکسی ملامت کرنےو الے کی ملامت کی پرواہ کئے بغیریہ پیغام ہدایت ساری انسانیت تک پہنچادیا۔ اللہ سبحان نے بھی اس کی تصدیق فرمادی’’پس اگریہ لوگ یہ اس بات (قرآن حکیم )پرایمان نہ لائیں توکیا آپ(فرط غم سے) ان کے پیچھےاسی رنج میں اپنی جان کوتلف کر لیں گے‘‘ (الکہف: ۶) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کفار و مشرکین کے حق سے اعراض پر بڑے غمزدہ رہاکرتے۔اس آیت پاک میںحق سبحانہ نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کےان جذبات واحساسات کااظہارفرمایا ہے،گمراہ انسانیت کابرا انجام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہمیشہ رنج وغم سے ہلکان کئے رہتا،مکہ مکرمہ کی بستیاں اس کے گلی کوچے، پررونق بازار، کفارومشرکین کی مجالس،ان کے خلوت کدے سب کے سب اس کے گواہ ہیں ۔دن کے اجالے میں یہی فکرہروقت بے چین وغمزدہ رکھتی کہ اللہ سبحانہ وآخرت سے بے خوف گمراہ انسانیت کی کشتی کوکس طرح باطل کے منجدھار سے بچا کر حق کے کنارے پرلگایا جائے۔ رات کی تنہائیوں میں جب ساری دنیا محوِ خواب ہوتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ ایزدی میں بصد عجز و نیاز سربسجودہوجاتے،حق کی روشنی سے محروم انسانیت کی ہدایت کےلئے دردوسوزمیں ڈوبے ہوئے اشکبار آنکھوں سے مناجات و معروضات کانذرانہ بارگاہ ایزدی میں پیش فرماتے۔
سلسلہ نبوت ورسالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرختم ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیںآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے یہ امت خیرامت اورآخری امت ہے،اللہ سبحانہ نے سارے عالم میں اس پیغام ہدایت کوعام کرنےکی اہم ترین ذمہ داری اس امت کو سونپی ہے،عالم میںحق کاعلم بلند رکھنےاورگمراہ انسانوں کےقلوب میں توحید کی شمع روشن کرنے کےلئےاللہ سبحانہ نےاس امت کاانتخاب فرمایاہے،مسلمانوں کا مقصد حیات ہرگزیہ نہیں ہے کہ وہ دنیا کے نیرنگیوں میں کھوجائیں، تعیشات سے پر،عیش وآرام کی زندگی گزار کر رخصت ہوجائیں بلکہ ان کافریضہ تویہ ہے کہ دنیا کی دلکشی سےکنارہ کش رہیں، فانی زندگی پرفریفتہ ہوکراپنی آخرت کھوٹی نہ کرلیں اور ’’بلغواعنی ولوآیۃ‘‘کی عملی تفسیربنکرگمراہ انسانیت کوراہ حق دکھائیں،یہی وہ قیمتی سرمایہ ہےجو حریم قدس میں بطورنذرانہ پیش کئےجانے کے قابل ہے۔ قرآن مجید کی نسبت سےجو حقوق ہم پرعائد ہیں اس کی ادائیگی کےلئےاپنی زندگیاں وقف کرنے کی اللہ سبحانہ ہم سب کوتوفیق نصیب فرمائے۔(آمین)
٭٭٭