مضامین

لڑکیوں کی حفاظت سے متعلق مسائل آج بھی سنگین ہیں

ظفر مدنی

راجدھانی دہلی ایک ایسا مقام ہے جہاں پر مختلف ریاستوں سے لوگ پڑھائی یا روزگار کے لیے بڑی تعداد میں آتے ہیں لیکن انتظامیہ کے سخت احکامات کے باوجودآج بھی خواتین دہلی میں اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں،جبکہ جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی جرائم پیشہ لوگوں کے حوصلے بلند ہیں۔ وہیںنیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی ایک رپورٹ کے مطابق دہلی خواتین کے لیے ایک غیر محفوظ مقام ہے ۔ نئی رپورٹ کے مطابق 2021 میں خواتین کے خلاف 13892 زیادتی کے معاملے درج کیے گئے ، جس کی تعداد2020 میں9782 تھی ۔تاہم اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انتظامیہ ان جرائم پیشہ لوگوں پرلگام لگانے میں شاید ناکام ہے۔جس کی وجہ سے یہ گراف روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔جبکہ حق تو یہ ہے کہ ان سب معاملات کو ہم اپنی آنکھوں سے بھی دیکھتے ہیںاور ایسا ہی کچھ حال دہلی کی بسوں میں سفر کرنے والی خواتین کے ساتھ ہے ،جنہیں ہر روز کسی نا کسی طرح کی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پاتی ہیں۔ جبکہ بسوں میں چند سیٹس خواتین کے لیے مخصوص ہوتی ہیں اور پہچان کے لیے ان کے اوپر لکھا ہوا بھی ہوتا ہے کہ یہ سیٹس خواتین کے لئے مخصوص ہیں ۔
لیکن آئے دن ہم دیکھتے ہیں ان سیٹوں پر مرد حضرات بیٹھ جاتے ہیں اور جب انہیں اٹھنے کا کہا جائے تو آگے سے بحث شروع کر لیتے ہیں اور یہ سب سکیورٹی اہلکاروں کے سامنے ہوتا ہے اور وہ اسے نظر انداز کر دیتے ہیں ۔وہیں اس کے متعلق جب راقم نے شروتی راٹھور جو دہلی یونیورسٹی کی طالبہ ہیں سے بات کی توانہوںنے اپنے ساتھ ہونے والے واقعات بتائے کہ وہ روزانہ گھر سے کالج بس سے آیا جایا کرتی ہےںاور جب کبھی بس بھری ہوتی ہے تو کچھ لوگ پیچھے نہیں ہٹتے اور جان بوجھ کر چھونے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ان سے پوچھا جائے ایسا کیوں کیا تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے غلطی سے ہو گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ سب لوگ ایسے نہیں ہوتے مگر اکثریت انہی لوگوں کی ہوتی ہے کبھی کھبی غلطی سے بھی کسی سے ہو جاتا ہے ۔اس کا کہنا تھا کہ چند ہفتے پہلے وہ اور ان کی ایک دوست بس سے سفر کر رہی تھی کہ بس میں چڑھنے کے ساتھ ہی ایک آدمی نے گھورنا شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سے پہلے تو وہ ڈر گئی بعد میں جب اس نے مجھے یہ بتایا کہ یہ آدمی مجھے گھورے جا رہا ہے اور جب میں نے اس آدمی کو کہا کہ ایسا کیوں کر رہے ہواس کا یہی جواب تھا کہ میں نے کچھ نہیں کیا، پھر وہ اگلے اسٹاپ پر اتر گیا۔دہلی کی بسوں میں سفر کرنے والے مسافر ہی نہیں بلکہ خود ملازمین بھی ہراسانی کا شکار ہوئے ہیں اور اسی طرح کا ایک معاملہ چند مہینے پہلے دیکھنے کو ملاجب ایک ڈی ٹی سی مارشل خاتون نے خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔ جب اس کی وجہ منظر عام پر آئی تو پتہ چلا کہ اس کو اسی بس کا کنڈکٹڑ ہراس کیا کرتا تھا اور جب اس نے اس کی شکایت محکمہ کے اعلیٰ افسران سے کی تو ،انہوں نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔محکمہ مینیجر اور دیگرا سٹاف کی طرف سے بھی اسے ہراساں کیا جانے لگا۔اس نے یہ بھی بتایا کہ جب اس نے اسٹاف کی شکایت پولیس سے کی تو محکمہ مینیجر اور اسٹاف کی طرف سے کمپرومائز کرنے کا دباو¿ بنایا جانے لگا اور اسے نوکری سے نکال دیا گیا اور بعد میںایس ڈی ایم کے آرڈر پر اسے واپس جوائن کرنے دیا گیا۔ حالانکہ ڈپٹی کمشنر آف پولیس نارتھ ویسٹ دہلی اوشا رنگنانی نے اس معاملہ میں انتظامیہ کی طرف سے کاروائی کا بھروسہ دیا ۔وہیں اس سلسلہ میں ایک خاتون مارشل 26 سالہ سمی جوشی کہتی ہیں کہ 2019 سے وہ اتم نگرسے بدرپور روٹ پر اپنے آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کے دوران ہر خاتون سواری پر نظر بنائے رکھتی ہیں اور جب بھی تھوڑی سی بھی پریشانی کسی کو ہوتی ہے تو میں جانچ لیتی ہوں اور انہیں سیٹ بدلنے کو کہتی ہوں۔ لیکن اس کے باوجود وہ خود کو بس میں غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ کچھ لوگ ان پر کمنٹ پاس کرتے ہیں۔ لیکن وہ بہت ہی نرمی سے اس کا جواب دیتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک کسی اسٹاف کی طرف سے انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی ۔ اسی طرح ایک اور خاتون بس مارشل نشا دیوی کہتی ہیں کہ میں رات کی بجائے صبح کی شفٹ کو ترجیح دیتی ہوں کیونکہ وہ رات کو خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں ۔ اس متعلق پائل ٹھاکر،جو دہلی یونیورسٹی کی طالبہ ہیں، کہتی ہیں کہ اسے بھی روزانہ گھر سے کالج بس میں ہی آنا پڑتا ہے۔ بس میں چڑھتے وقت جان بوجھ کر دھکامارنا اور چھونے کی کوشش کرنا ان سب کا انہیں آئے دن سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتی۔ اگر کسی کو کچھ بولے بھی تو آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ غلطی سے ہو گیا۔بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی ہے۔کئی بار ان کا پیچھا کرتے ہوئے کچھ لوگ گھر تک بھی پہنچ جاتے ہیں ۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ایکطرف خواتین کی حفاظت کے لیے بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں اور دوسری طرف جب یہ سب دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے تو ان جھوٹے دعوﺅں کی حقیقت سامنے آ جاتی ہے ۔وہیں ایک خبرکے مطابق دہلی کمیشن فار وومن کا کہنا تھا کہ آٹھ سال کی بچی سے لے کر 80سال کی بزرگ بھی محفوظ نہیں ہے۔ پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال اس میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ دہلی کمیشن فار وومن 24 گھنٹے کام کر رہی ہے تاکہ کسی کو ہراساں نہ کیا جائے۔ گزشتہ سال 30 آگست کو کمیشن نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ خواتین کی حفاظت کے لیے سخت اقدام اٹھائے جائیں ۔ اس لیے جہاں حکومت کو اس کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے وہیں، سماج کو بھی چاہیے کہ وہ خواتین کے ساتھ بہتر سلوک کریں اور ان کے تحفظ کو یقینی بنائے ۔

a3w
a3w