سیاستطنز و مزاحمضامین

ماہ رمضان اور ہم …

حمید عادل

اٹھارہواںروزہ ہمیں بہت لگا،کیوں کہ اس دن ہم نے گھر کی صفائی کا بیڑہ اٹھایا تھا…جسے انجام دیتے دیتےتپتی چھت اور دیواروں کی بدولت ہم پسینہ پسینہ ہوگئے…اس دن روزہ اتنا لگاکہ ہاتھوں پیروںہی پر کیا منحصر ہے، آوازتک ہمارا ساتھ دینے سے گریزاں تھی ۔ کبھی کسی بات پر دل کھول کربلکہ منہ کھول کرہنسنا چاہتے تو صرف ہمارا منہ کھلتااورقہقہے کی آواز ندارد …
قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے
سسکیاں لیتا ہوا اب زندگی کا ساز ہے
مشتاق انجم
قہقہے کے لیے کھولا گیاہمارا منہ دیکھ کراحباب کو یہ تاڑنا خاصا دشوار ہوچلا تھا کہ ہم ہنس رہے ہیں یا جمائی لے رہے ہیں ۔اپنے اعضا کی سرد مہری نے ہمیں سوچنے پر مجبور کردیا کہ ’’وقت انسان پہ ایسا بھی کبھی آتا ہے ،راہ میں چھوڑ کے سایہ بھی چلا جاتا ہے ‘‘ …
گرما کے روزوں پر ہمیںچچاغالب کا ایک لطیفہ یاد آرہا ہے…وہ اپنے روزوں کے تعلق سے ایک دوست کو لکھتے ہیں:
’’دھوپ بہت تیز ہے، روزہ رکھتا ہوں مگر روزے کو بہلاتا رہتا ہوں، کبھی پانی پی لیا، کبھی حقہ پی لیا، کبھی کوئی ٹکڑا روٹی کا بھی کھا لیا، یہاں کے لوگ عجیب فہم رکھتے ہیں، میں تو روزہ بہلاتا ہوں اور یہ صاحب فرماتے ہیں کہ توُ روزہ نہیں رکھتا، یہ نہیں سمجھتے کہ روزہ نہ رکھنا اور چیز ہے اور روزہ بہلانا اور چیز ہے۔‘‘
عوام کو بہلانا بھی ایک چیز ہوا کرتی ہے اور نیتاؤں سے بڑھ کر بھلا کون عوام کو بہلا سکتا ہے … رمضان میں بنا کٹوتی سربراہی کے اعلان کے باوجود اچانک برقی گل ہوجاتی ہے … رات میں جب اچانک برقی بریک ڈاؤن ہوجائے اور سیلنگ فیان کی رفتار دم توڑ دے تو ہم نیندسے ہڑبڑا کر ایسے جاگ جاتے ہیں جیسے کوئی برا خواب دیکھ لیا ہو…
پھول بانو کو سونا بہت پسند ہے ، جی نہیں ! ہم اس سونے کی بات نہیں کررہے ہیں جسے دیکھ کرپھول بانو کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں بلکہ ہم اس سونے کی بات کررہے ہیں جس میں آدمی اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے ۔پھول بانو کوسحر ی کے لیے نیند سے بیدار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا ، لیکن گرما کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم نے نہایت آسان نسخہ ڈھونڈ نکالا ہے ،سحر میں اگرانہیں جگانا ہو تو ہم صرف سیلنگ فیان کا سوئچ آف کردیتے ہیں… پھر تو میڈم چاہے کتنی ہی گہری نیند میں کیوں نہ ہوںفوری جاگ جاتی ہیں ۔ اگر آپ کے ہاں بھی یہی مسئلہ درپیش ہے تو آپ اس کارآمداور مجرب نسخے کو آزما کر فیض پا سکتے ہیں ۔
آج ماہ رمضان کو ہرکوئی اپنی نظر سے دیکھ رہا ہے …دو دن قبل کی بات ہے ، صبح کا وقت تھا، ہم دفتر جانے کے لیے بس اسٹاپ پر پسینے میں شرابورکھڑے تھے، لیکن دور دور تک کسی بس کاتو کجا شیرنگ آٹو کا تک نام و نشان نہ تھا…دریں اثناایک شیرنگ آٹو ہمارے روبرو آکر رکا ،جواں سال ڈرائیور کے سر پر ٹوپی تھی اور آٹو میں نعت گونج رہی تھی … آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ ہوگیا اورہم آٹو کے اندر ہوگئے …کچھ ہی دور چلے تھے کہ آٹو ڈرائیور نے پان شاپ پر آٹو روکا، گٹھکا خریدا اور اسے پھاڑ کر شان بے نیازی سے منہ میں ٹھونسا…اس سے پہلے کہ ہم کچھ کہتے وہ ہم سے گویا ہوا:لوگوں کو بڑی فکر ہے کہ میں روزہ نہیں رہتا، ارے بھئی! دن بھر دھوپ میں پھرنا پڑتا ہے…میں روزہ نہیں رہتا تو یہ میرا اور اللہ کا معاملہ ہے ، کسی کو کچھ کہنے کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘
جہاں اس نوجوان کی یہ منطق ہے، وہاں گھوڑے خاں روزہ رکھ کر سمجھتے ہیںکہ گویا انہوں نے لوگوں پر احسان کردیا :
میرا روزہ اک بڑا احسان ہے لوگو کے سر
مجھ کو ڈالو موتیے کے ہار میں روزے سے ہوں
سید ضمیر جعفری
ماہ رمضان میںشیطان کے قید ہوتے ہی نام نہاد سیاست دان مسلمانوں کو ’’گمراہ‘‘ کرنے کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ کہنے کو تویہ افطار پارٹیاںہوتی ہیں لیکن ان میں کثرت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو روزہ خورہوا کرتے ہیں ۔نیتا لوگ سر پر ٹوپی لگاناہرگز نہیں بھولتے تاکہ وہ سادہ لوح مسلمانوں کو ’’ ٹوپی پہنا‘‘ سکیں۔ وہ روایتی مسکراہٹ کے ساتھ حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ بڑے ہی صاف گو اور صاف دل نظر آئیں، چاہے ان کا دل کتنا ہی داغدار کیوں نہ ہو…سنتے ہیں اب تو ایسی عجیب و غریب افطار پارٹیاں بھی ہونے لگی ہیں کہ اگر روزہ دار بعد افطاربا جماعت نماز پڑھنے کی کوشش کرے تو وہ تناول طعام سے محروم ہوجاتا ہے اور کچھ ایسے روزہ دار بھی ہیں جو’’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے ‘‘ کے مصداق خالی ہاتھ بلکہ خالی پیٹ افطار پارٹیوں سے باہر ہو جاتے ہیں…کیوں کہ ان افطار پارٹیوں میں غذائی دہشت گرد کثیر تعداد میں شریک ہوتے ہیں…
معروف مزاحیہ شاعرخالد عرفان ماہ رمضان کی غذائی دہشت گردی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’ روزہ خور کا انٹرویو‘‘ کے عنوان سے رقم طراز ہیں:
میں نے انٹرویو کیا کل ایک روزہ خور سے
میں زباں سے بولتا تھا وہ شکم کے زور سے
میں نے پوچھا آپ نے روزہ یہ کیوں رکھا نہیں
پیٹ دکھلانے لگا بولا کہ یوں رکھا نہیں
روزہ یوں رکھا نہیں چلتی نہیں باد صبا
موسم گرما میں روزے آئے ہیں اس مرتبہ
جاب کرنی ہے ضروری کام کرنا ہے مجھے
کوک پزّا کے سہارے شام کرنا ہے مجھے
میں نے لسی کے گلاسوں میں پیا کچھ اور ہے
دوپہر میں مرغ کھانے کا مزا کچھ اور ہے
دن میں کھانے کے لیے اقرار کر لیتا ہوں میں
شام کو مسجد میں بھی افطار کر لیتا ہوں میں
روزہ خور سے انٹرویو کی طرز پر ہم نے سوچا کہ افطارپارٹیوں میں تہلکہ مچانے والے کسی نامور ’’ غذائی دہشت گرد ‘‘سے انٹرویو کیا جائے۔نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ہمیں ایک نامور ماہر افطار پارٹیات نے بتایا:
’’ افطار پارٹی ہو یا کوئی تقریب، وہی خوب کھا سکتا ہے جو پہلے شرم و حیا کو بیچ کھائے۔‘‘ اس نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا:’’جس نے کی شرم، اس کے پھوٹے کرم…روایتی شرم و حیا کے حامل روزہ دار کو دستر خوان پر سوائے کھجور کی گٹھلیوں ،پھلوں کے چھلکوں اور خالی ڈشوںکے کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔‘‘
ہم نے ماہر افطار پارٹیات سے کہا:وہ حضرات جو افطار پارٹی میں سرخرو ہونے کے متمنی ہوں، انہیں آپ اپنے زرین مشوروں سے نوازیں …
ہماری بات سن کر ماہر افطار پارٹیات پہلے تو مسکرایا او رپھر اس نے اپنا منہ کھولا: ’’ویسے تو یہ باتیں عام کرنے کی نہیں ہوتیں ،کچھ ایسے گر ہیں جو سینہ بہ سینہ چلے آرہے ہیں لیکن پھر بھی میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ اگر کوئی بندہ افطار پارٹی میں مختلف ڈشس پر ہاتھ صاف کرنا چا ہے تو وہ ہرگز پانی یا شربت کا جگ اپنے قریب رکھنے کی حماقت نہ کرے …‘‘
لیکن یہ کیسے ممکن ہے ؟ موسم گرما عروج پر ہے اورہر روزہ دار، روزہ کھولتے ہی شربت یا پانی پینا چاہتا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ انہیںدور رکھیں…
ماہر افطار پارٹیات ہماری بات سن کر تڑخ گیا، کہنے لگا: ’’آخر کردی نا آپ نے احمقوں والی بات… اگر آپ شربت یا پانی کا جگ اپنے قریب رکھیں گے تو پھر سبھی آپ سے شربت یا پانی مانگنا شروع کردیں گے اس طرح آپ دستر خوان پر سجی ڈھیر ساری لذیذ ڈشوں سے محروم ہوجائیں گے جبکہ آپ کی ساری توجہ دستر خوان پر ہونا ضروری ہے ، تقاریب بالخصوص افطار پارٹیوں میں عقابی نظر ،ناگزیر ہے ۔ یہی تو وہ موقع ہوتا ہے کہ آپ کو آگے بڑھ بڑھ کر دشمن کے ٹھکانوں پر مسلسل حملے کرنے ہوتے ہیں ،یاد رکھیں شرمانا باعث پچھتانا ہوا کرتا ہے ۔ دوست احباب کی قطعی پرواہ نہ کیجیے ،بس آپ کے ذہن میں یہی بات ہو کہ افطار پارٹی میں آنے کا مقصد دوسروں کے منہ سے نوالہ چھین لینا ہے ۔ آپ نہایت خلوص اور جوش و خروش کے ساتھ تابڑ توڑہوائی اور زمینی حملے جاری رکھیں …سچا غذائی دہشت گرد وہ ہوتا ہے جس کا پیٹ بھلے ہی بھر جائے لیکن کبھی اس کا دل نہیں بھرتا… لہٰذادستر خوان سے اٹھنے سے پہلے اس بات کا تفصیلی جائزہ ضرور لیں کہ خدا نخواستہ کوئی پسندیدہ ڈش آپ سے چھوٹ تو نہیں گئی…یاد رکھیں! ذرا سی لاپرواہی اور کاہلی کی بدولت آپ کفران نعمت کے مرتکب ہوسکتے ہیں ۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ اچانک ایسے غائب ہوگیا جیسے فلم انڈسٹری سے شبیر کمار…اس کے یوںغائب ہونےپر غور کیا تو پتا چلا کہ افطار کا وقت بالکل قریب ہے اور اسے غالباً کسی افطار پارٹی میں پہنچنا تھا…
روزے کے بے شمار فوائد ہیں، ان میں سے ایک فائدہ نفس کی تربیت بھی ہے لیکن افطار ہوتے ہوتے ہم اپنے نفس کو اس قدر آزاد چھوڑ دیتے ہیں کہ ہم اتنا کچھ کھا لیتے ہیں کہ جتنا عام دنوں میں بھی نہیں کھاتے… گلی گلی میں سجی بےشمار چھوٹی بڑی رمضانی ہوٹلوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتاہے جیسے انہوں نے روزہ داروں کو کھلا کھلا کر مارنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے …ہم سمجھتے ہیں کہ انسان کو جینے کے لیے کھانا چاہیے نہ کہ کھانے کے لیے جینا چاہیے …ہمیں اس حقیقت کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیےکہ دنیا میں اتنے لوگ بھوک سے نہیں مرتے جتنے زیادہ کھانے کی وجہ سے مرتے ہیں…کہنے والوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ انسان اپنے ہی دانتوں سے اپنی قبر کھودتا ہے…
او خدا! صرف ایک وقت کا کھانا اوردن بھر پیاسے رہنے پر ہمارا یہ حال ہے …مظلوم فلسطینیوں کے تعلق سے سوچیں تو آنکھیں بھیک جاتی ہیں، جن کی سحری کا پتا ہے اور نہ افطاری کا اور جن پر ہر وقت موت کے سائے منڈلارہے ہیں… وہ غذائی امداد حاصل کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں تو ظالم یہودی فوج بمباری کے ذریعے انہیں ہلاک کردیتی ہے … جب کہ ہم شکم سیر کھا پی کر بھی پریشان ہیں اور ہر روز مزید کچھ نئے کی تلاش جاری ہے …ہم فلسطینیوں کے لیے بھلے ہی کچھ کرنہ سکیںلیکن گڑگڑا کر دعا تو کر ہی سکتے ہیں…
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
علامہ اقبال
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w