مسلمانوں کی بے حسی اور غفلت سے دشمنوں کے حوصلے بلند مینمار ‘ سری لنکا کے بعد ’’ یو کے‘‘ سے انہیں نکالنے کا منصوبہ
آر ایس ایس 15سال میں ایشیاء کے آٹھ ممالک پر اپنا رائج قائم کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے ان آٹھ ممالک میں پاکستان‘ برما‘ بھوٹان‘ سری لنکا‘ انڈونیشیاء ‘ افغانستان‘ بنگلہ دیش اور نیپال شامل ہیں۔ اس ارادے کی تکمیل کے لئے ان ممالک میں بے ڈھنگی حرکتیں کی جارہی ہیں۔ مسلمانوں کی غفلت ‘ بے حسی اور لاپرواہی کا آر ایس ایس کو ہی فائدہ حاصل ہورہا ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ بھاگوت یہی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں تفریق پیدا کی جائے ۔ اسلامی ممالک کو ایک دوسرے سے دور رکھا جائے تاکہ وہ اسلام اور ملت کے نام پر متحد نہ ہوسکیں۔
سلیم مقصود
برطانیہ کے شہر لیسٹر اوربرمنگھم میں جو ہندو۔مسلم فرقہ وارانہ فساد برپا ہوا وہ صرف ہند۔پاک کرکٹ میاچ کے نتیجہ کے سبب نہیں ہوا۔ بلکہ 2ستمبر کو برطانیہ کے وزیراعظم کے انتخاب کا سلسلہ ہندوستانی نژاد امیدوار رشی سونک (Rishi Sunak)کے قدامت پسندپارٹی کے امیدوار اور سابق معتمد امورخارجہ لزٹرس کے مقابلے میں شکست تسلیم کرنے کے بعد انتہا پسند ہندو برطانوی شہریوں میں شدید غصہ پیدا ہونے کے باعث بھی ہوا۔ سابق برطانوی وزیراعظم برس جانسن نے ان کی حکومت پر شدید رشوت ستانی کے الزامات لگ جانے کی وجہ سے اپنی حکومت کی میعاد سے پہلے ہی اقتدار سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ رشی سونک بورس جانسن کی کابینہ میں شامل تھے مگر سب سے پہلے انہوں نے ہی رواں سال 6جولائی میں اس کابینہ سے دوری اختیار کرلی تھی۔ بورس کابینہ میں کئی ہندو وزراء بھی شامل تھے ‘ جانسن کی حکومت کے استعفیٰ کے بعد تقریباً 8امیدواروں میں سے 4امیدواروں کا تعلق سفید فام نسل سے نہیں تھا۔ پریا انجلی ملک کے مطابق جس ملک کی ملکہ انجیلک چرچ کی سربراہ تھیں اور جو چرچ ہاؤز آف لارڈ میں 26بشپ کا تقرر کیا کر تی تھی اس ملک میں ہندوؤں کو اعلیٰ عہدے حاصل تھے۔ جسکا فخر ان لوگوں کو بہت زیادہ تھا۔ وزارت عظمی کے ہندو دعویدار رشی سونک آر ایس ایس کے نظریہ کے عملاًحامل تھے۔ اور ان کی ہندتو پر عمل آوری نے بعض برطانوی شہریوں کو بھی متفکر کردیاتھا۔ خصوصاً ان کے دفتر میں اس نظریہ کی علامات بھی دکھائی دیتی تھیں۔ لزٹرس کے مقابلے میں سونک کو ناکامی نہایت ہی کم ووٹوں سے حاصل ہوئی جس نے انتہا پسند ہندوستانی نژاد برطانوی شہریوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور انہیں سخت مایوس کردیا حالانکہ سونک کا ارادہ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا تھا۔ سابق وزیراعظم بورس جانسن نہ صرف مودی سے بلکہ ان کے مذہبی نظریہ سے بھی متاثر رہے ہیں۔ بورس جانسن کو برطانوی مسلمان ان کے متعصبانہ رویہ کے سبب زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ مگر انہوں نے کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کی ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ رشی سونک کو اپنی کابینہ میں اہم عہدہ دینے اور ان کے نظریات سے متاثر ہونے کے باوجود بھی وزیراعظم کے عہدے کی دوڑ میں بورس نے لزٹرس ہی کی تائید کی اور رائے دہندوں کو انہیں ہی منتخب کرنے کا مشورہ دیا۔
برطانیہ میں ایک عرصے سے ہندتوا کے ماننے والوں نے مسلمانوںکے خلاف ایک تحریک شروع کررکھی تھی۔ ہندو انتہا پسند برطانوی شہری یہاں کی قدامت پسند پارٹی کے ساتھ اس کے قدامت پسند تصور کے سبب بہت ہی قریب ہوچکے تھے۔ بلکہ وہ اس سیاسی و مذہبی جماعت پر چھاگئے تھے۔ ان کی ایک خاص خاتون قائد نے اس سلسلے میں اسرائیل کا دورہ بھی کیا تھا۔ وہاں جاکر اس نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں رہنے والوں کے ساتھ اسرائیل کے سلوک کا خفیہ جائزہ بھی لیا تھا جس کا مقصد بعض ماہرین کی رائے میں برطانیہ میں مقیم افریقی اور ایشیائی نسل کے برطانوی شہریوں کے ساتھ امتیازی رویہ اختیار کرنا بتلایا گیا۔ برطانوی حکومت کو جب ان کے ارادوں اور ان کی سرگرمیوں کا پتہ چل گیا تو انہیں ان کے سرکاری عہدے اور قدامت پسند پارٹی کی قیادت سے برطرف کردیا گیا۔
ہندتو کے ماننے والوں نے مسلمانوں اور اصل برطانوی شہریوں کے درمیان منافرت پھیلانے کے لئے یہ افواہ عام کردی کہ برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔ (یہ افواہ یہ لوگ اکثر ہندستان میں بھی پھیلایا کرتے ہیں ۔ یہی افواہ آسام کی ریاستی حکومت نے خود آسام میں پھیلادی ہے اور مسلمانوں کو کم بچے پیدا کرنے کا حکم دے دیا ہے) مینمار اور سری لنکا کی طرح مسلمانوں کو یہاں سے دربدر کرنے ‘ ان کی تعداد کو گھٹانے ‘ ان کی چھوٹی موٹی تجارت کو برباد کرنے ‘ انہیں تعلیم سے محروم کرنے‘ ان کے تعلق سے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کئی برسوں سے کوشش کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف سیاسی ‘ سماجی ‘ مذہبی اور تجارتی ماحول ہندوستان کی طرح یہاں بھی پیدا کرنے کی لگاتار مساعی کی جارہی ہے ۔ مسلمان اس سے بہت غفلت میں تھے۔ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ اور برطانوی شہریوں کی تعداد میں کمی کا شوشہ بھی چھوڑا گیا تھا اس سے بعض برطانوی شہری متاثر بھی ہوچکے تھے۔
بہت سے برطانوی دانشوروں کا خیال تھا کہ رشی سونک کے وزیراعظم بن جانے سے برطانیہ کا سیکولر نظریہ متاثر ہوسکتا ہے۔ اس کے برعکس آر ایس ایس کے بہت سے فرقہ پرستوں اور انتہا پسندوں نے برطانوی تنظیموں کو بتایا تھا کہ رشی سونک وزیراعظم منتخب ہوجائیں گے۔ اس کے بجائے ایک سیکولر برطانوی نسل کی خاتون لزٹرس وزیراعظم بن گئیں اور برطانیہ کے سیکولر اور امن پسند شہریوں کو کامیابی حاصل ہوگئی جس سے ہندوتوا کے ماننے والوں کے ذہنوں میں آگ لگ گئی اور نفرت کے شعلے بلند ہونے لگے ۔ برطانیہ میں ہندو مسلم فسادات کے لئے بنگلہ دیش کی طرح یہاں بھی انتخابات سے قبل 400بلوائیوں کو مختلف طریقوں سے بعض مقامات سے اکٹھا کیا گیا تھا۔ ان فسادات کا پورا پورا انداز ہی آر ایس ایس ‘ ہندووشواپریشد اور بجرنگ دل کی طرح تھا۔ تقریباً سارے ہی فسادیوں نے اپنے لباس اور چہرے ڈھانک رکھے تھے تاکہ کسی بھی طرح ان کی شناخت نہ ہو۔ اطلاع کے مطابق فسادات کے بعد 22 ستمبر کو ہندوستانی سفارت خانے نے برطانیہ کے حکام سے رابطہ قائم کیا اور تین ہفتوں سے جاری ان فسادات پر تشویش کا اظہار کیا۔ ہندوستان کے وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم بخشی نے کہا کہ وہ سفارتی اور صیانتی شعبے کے حکام سے رابطے میں ہیں تاکہ مزید حملوں کو روکا جاسکے اور جو لوگ یہ حملے کررہے ہیں
ان کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔ وشواہندوپریشد کے عالمی صدر آلوک کمار نے اپنے ایک بیان میں برطانیہ کی نئی وزیراعظم لزٹرس پر زور دیا کہ وہ فوری لیسٹر شہر میں اوربرمنگھم میں ہندوؤں پر جو تشدد ہورہا ہے اس کا خاتمہ کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ بڑی تعداد میں ہندوؤں اور ان کی عبادت گاہوں ‘ ان کی ثقافتی اور مذہبی علامات کو اسلامی انتہا پسندوں کی جانب سے نشانہ بنایاجارہاہے اور نقصان پہنچایاجارہاہے۔ لیکن اس قسم کی چیزیں مسلمانوں اور اسلامی اشیاء یا عبادت گاہوں کے مقامات پر نہیں ہورہی ہیں‘‘ اس کا مطالبہ کسی بھی مسلم ملک کے سفارتی دفتر یا کسی مذہبی ادارے نے نہیں کیا حالانکہ لیسٹر اور برمنگھم میں بہت سے مسلم ممالک کے لوگ رہتے ہیں جو ہندو انتہا پسندوں کی سنگ باری سے اور اپنی دوکانوں کے نقصان سے متاثر ہوچکے تھے۔ مگر انہوں نے سفارتی سطح پر ایسی کوئی کارروائی نہیں کی ۔ بات دراصل یہ ہے کہ سابق وزیراعظم بورس جانسن کی طرح لزٹرس کی کابینہ میں بھی بہت سے ہندو اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ ہندوستانی نژاد سویلا بریورمین ‘ ہوم سکریٹری ہیں۔ آگرہ کے رہنے والے آلوک شرما محکمہ موسمیات کے وزیر ہیں۔ رینل جئے وردن دیہی ‘ غذائی اور ماحولیات کے امور کے وزیر ہیں ‘سابق کابینہ میں برطانیہ کے وزیر داخلہ بھی ہندو ہی تھے۔ ہندتو کے ادارے اور ان کی تنظیمیں ایسے ہی لوگوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کیا کرتی ہیں لیکن برطانیہ کے مقابلے میں کینیڈا میں ان کا ستارہ گردش میںآچکا ہے اس لئے ہندوستانی خارجی امور کی وزارت نے یہاں مقیم ہندوستانیوں کو یہ صلاح دی ہے کہ وہ کینیڈا میں محتاط رہیں کیوں کہ یہاں منافرت پر مبنی کرائم بہت ہورہے ہیں ہندوستانی سفارت خانے نے ہندوؤں کے خلاف فساد برپا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کے ساتھ انہیں برطانیہ سے دربدر کرنے کا سخت مطالبہ بھی کیا ہے۔ لیکن بعض امن پسند اور یکجہتی پر ایقان رکھنے والے ہندوؤں اور مسلمانوں نے مشترکہ طورپر ان فسادات کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ہمارا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ ان کے بیان کے مطابق اس علاقے کے ہندو اور مسلمان نہایت ہی برادرانہ زندگی گزارتے ہیں اور جن لوگوں نے یہاں فسادات پیدا کئے ان کا تعلق اس علاقے سے نہیں ہے۔ یہ کسی اور علاقے کے تربیت یافتہ لوگ ہیں۔
برطانوی پولیس نے 400 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ لیکن ہندووشوا پریشد‘ بجرنگ دل اور آر ایس ایس ‘ لزٹرس کی حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ یہ واقعہ ہندوؤں کے خلاف پیش آیا ہے ‘ اس لئے جن مسلمانوں نے یہ حرکت کی ہے انہیں فوراً شہر بدر کیا جائے اور ہندو نسل کے برطانوی شہریوں کی حفاظت کی جائے ۔ اس اطلاع کے علاوہ یہ افواہ بھی پھیل رہی ہے کہ خلیجی ریاستوں میں مقیم بعض انتہا پسند ہندوؤں کو بھی ان فسادات میں اہم خدمات ادا کرنے کی دعوت دی گئی تھی ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ آر ایس ایس اور دیگر ہندتوا تنظیموںکو یہ خوف پیدا ہوچکا ہے کہ حالیہ عرصہ میں برطانیہ میں ان کی تنظیموں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی خبریں بھی آرہی ہیں۔
آر ایس ایس 15سال میں ایشیاء کے آٹھ ممالک پر اپنا رائج قائم کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے ان آٹھ ممالک میں پاکستان‘ برما‘ بھوٹان‘ سری لنکا‘ انڈونیشیاء ‘ افغانستان‘ بنگلہ دیش اور نیپال شامل ہیں۔ اس ارادے کی تکمیل کے لئے ان ممالک میں بے ڈھنگی حرکتیں کی جارہی ہیں۔ مسلمانوں کی غفلت ‘ بے حسی اور لاپرواہی کا آر ایس ایس کو ہی فائدہ حاصل ہورہا ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ بھاگوت یہی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں تفریق پیدا کی جائے ۔ اسلامی ممالک کو ایک دوسرے سے دور رکھا جائے تاکہ وہ اسلام اور ملت کے نام پر متحد نہ ہوسکیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰