نوراتری تہوار: گربا رقص میں مسلمانوں کا خیر مقدم ہے اگر۔۔۔۔۔؟
وزیر نے کہا کہ ”انہیں (مسلمانوں کو) گربا میں مدعو نہیں کیاجارہا ہے، لیکن اگر انہیں گربا پر اتنا ہی ایمان ہے تو پھر انہیں مورتی پوجا پر بھی ایمان ہونا چاہیے اور ان کی مقدس کتاب قرآن میں بھی اس کی اجازت دی جانی چاہیے۔
بھوپال: ایک ایسے وقت جب کہ نوراتری تہوار چند دن بعد منایا جانے والا ہے، مدھیہ پردیش میں گربا رقص کا تنازعہ ایک بار پھر شروع ہوچکا ہے۔ ریاستی وزیر سیاحت و کلچر اوشا ٹھاکر نے کہا ہے کہ گربا پروگرامس، لو جہاد کے مقامات بن چکے ہیں۔
اگر مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن انہیں مورتی پوجا کی اجازت دیتی ہے تو ان کا وہاں خیرمقدم کیا جائے گا۔ ریاستی وزیر نے کہا کہ ”انہیں (مسلمانوں کو) گربا میں مدعو نہیں کیاجارہا ہے، لیکن اگر انہیں گربا پر اتنا ہی ایمان ہے تو پھر انہیں مورتی پوجا پر بھی ایمان ہونا چاہیے اور ان کی مقدس کتاب قرآن میں بھی اس کی اجازت دی جانی چاہیے۔
علاوہ ازیں مورتی پوجا میں یقین رکھنے والے مسلم مردوں کا گربا کے مقامات پر اسی وقت خیرمقدم کیا جائے گا جب وہ اپنے خاتون ارکانِ خاندان کے ساتھ وہاں آئیں“۔ اوشا ٹھاکر نے اس بات کو دہرایا کہ ریاست بھر میں حقیقی شناختی ثبوت کے بغیر کسی کو بھی گربا کے مقامات پر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ہم تمام ضلع کلکٹرس کو مکتوب روانہ کررہے ہیں اور ان سے درخواست کررہے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آنے والے نوراتری تہوار کے دوران صرف ان افراد کو گربا میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے جن کے پاس حقیقی شناختی ثبوت ہوں۔
ایسا کرنے سے ان لوگوں کو روکا جاسکے گا جو گربا کے مقام پر داخل ہونے کے لیے ا پنی حقیقی شناخت کو چھپاتے ہیں۔ ریاستی وزیر نے گزشتہ ہفتہ کہا تھا کہ ماضی میں گربا پروگرام لو جہاد کی سرگرمیوں کا ایک بڑا ذریعہ بن چکے تھے، لیکن اب تمام متعلقہ ذمہ دار کافی چوکس ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی مناسب شناختی ثبوت کے بغیر گربا پنڈال میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک صلاح بھی ہے اور ایک نصیحت بھی۔
اہم بات یہ ہے کہ 2013ء میں جب وہ اندور کی بی جے پی رکن اسمبلی تھیں تو اوشا ٹھاکر نے نوراتری تہوار سے قبل غیرہندوؤں بالخصوص مسلمانوں کو گربا پروگراموں میں داخلہ پر پابندی کا مطالبہ کیاتھا، تاکہ مسلم لڑکوں کو ہندو لڑکیوں اور خواتین کو رجھانے سے روکا جاسکے۔
بعد ازاں انہوں نے گربا پنڈالوں میں داخلہ کے لیے آدھار اور دیگر شناختی ثبوتوں کا لزوم عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا، تاکہ مسلم لڑکوں کو ہندوؤں کے بھیس میں پنڈالوں میں داخل ہونے سے روکا جاسکے۔