نہیں ہے صفر میں کوئی بھی نحوست
کیا ماہِ صفر المظفر منحوس ہے؟: ماہِ صفر کو بے برکت مہینہ خیال کیا جاتا ہے، جب کہ صفر کے معنی ’’خالی‘‘ کے ہیں۔ اکثر بڑی عورتیں اس کو ’’خالی کا مہینہ‘‘ بھی کہتی ہیں۔
مفتی حافظ محمد وجیہ اللہ سبحانی نظامی نقشبندی
صفر المظفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے۔ تاریخ اسلام میں اس مہینہ کو ایک خاص حیثیت حاصل ہے۔ اس مہینے کی ۲۷ تاریخ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی جو اسلام کے غلبہ اور اسلامی ریاست کے قیام کا سبب بنی اور پوری دنیا میں اسلام کے پھیلا ئو کا آغاز بھی مدینہ منورہ سے ہوا گویا پوری دنیا میں پھیلی تاریکی، روشنی سے اور ہرطرف خزاں ،بہار سے بدل گئی۔ اسی ماہ صفر میں ۲ھ کو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اپنی چہیتی دختر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح فرمایا تھا جن سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسل چلی جو قیامت تک رہے گی۔ یہی وہ ماہ صفر ہے جس میں ایران فتح ہوا اور اسلامی سلطنت کو وسعت ملی اور اسی مہینے میں عمرثانی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفۂ وقت بنے اور اپنے اڑھائی سالہ دور اقتدار میں عدل عمر رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ فرما دی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض لوگ آج بھی اس مہینہ کو نحوست کا مہینہ تصور کرتے ہیں۔ جب کہ یہ مہینہ اسلامی تاریخ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے بالخصوص اس مہینہ کے ابتدائی تیرہ دنوں کو نہایت منحوس تصور کیا جاتا ہے، جب کہ اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ۔ لیکن اس مہینہ کو دور جاہلیت سے ہی آسمان سے بلائوں اور آفتوں کے نزول کا ، مزید یہ کہ باعث نحوست سمجھا جاتا رہا۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ اس مہینہ میں خوشی کی تقریبات کرنا بُرا سمجھتے تھے اور حیرت و افسوس کا مقام ہے یہ تصور نسلاً بعد نسل آج تک جاری ہے۔ علاوہ ازیں ماہ صفر میں تیرہ تیزی کا اور آخری چہارشنبہ کا بےبنیاد تصور بھی پایا جاتا ہے۔ ذیل میں ماہِ صفر ، تیرہ تیزی ، ماہِ صفر میں شادی بیاہ و خوشی کام کرنا وغیرہ اور آخری چہارشنبہ کے حوالہ سے تفصیل ملاحظہ کیجئے۔
کیا ماہِ صفر المظفر منحوس ہے؟: ماہِ صفر کو بے برکت مہینہ خیال کیا جاتا ہے، جب کہ صفر کے معنی ’’خالی‘‘ کے ہیں۔ اکثر بڑی عورتیں اس کو ’’خالی کا مہینہ‘‘ بھی کہتی ہیں۔ اہل عرب اس مہینہ کو ’’صفر‘‘ اس لئے کہتے تھے کہ وہ ماہ محرم میں قتل و غارت اور لوٹ مار حرام سمجھتے تھے ۔ جونہی ماہ صفر کا آغاز ہوتاہل عرب اپنے گھروں کو چھوڑ کر جنگ و جدل کے لئے نکل پڑتے، جنگ و جدل کی وجہ سے خون خرابہ ہوتا۔ مرد مارے جاتے، عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوتے۔ معاشی حالت ابتر ہو جاتی ۔ اہل عرب بجائے اس کے کہ اپنی اصلاح کرتے اس مہینہ کو منحوس سمجھنے لگے۔ بالخصوص خواتین اسے زیادہ نحوست والا مہینہ گرادنتی، کیونکہ ان کے گھر اجڑ جاتے تھے۔ عرب میں جب اسلام کی روشنی آئی تو ان باطل نظریات اور عقائدفاسدہ کا قلع قمع ہوگیا۔
عرب کے اندر جہاں اچھی صفات شجاعت، مہمان نوازی وغیرہ پائی جاتی تھیں وہیں ان میں بری صفات بھی تھیں۔ وہ ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے، بیمار شخص کی عیادت کرنے کی بجائے اس سے دور بھاگتے۔ سفر سے پہلے تیر پھینکتے، اگر تیر دائیں طرف گرتا تو سفر کرتے ورنہ سفر سے اجتناب کرتے۔ سفر پر نکلتے وقت اگر کوئی غریب شخص یا کوئی دشمن سامنے آجاتا تو سفر نہ کرتے تھے۔ حضور علیہ السلام نے ان سب کی نفی فرمائی اور فرمایا ان چیزوں سے کچھ نہیں ہوتا، نفع و نقصان سب کچھ اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تفاعل خیر (نیک فال) کوپسند فرمایا ہے۔ تفاعل خیر سے مراد بندے کا کسی کام سے پہلے ایسی بات کو سننا جو اس کو اچھی لگے، یہ اسلام میں درست ہے کیونکہ اس سے تقدیر پر ایمان اور بھی مضبوط ہو جاتا ہے۔ ابودائود شریف میں منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم کوئی ایسی چیز دیکھو جو تمہیں ناگوار گزرے تو تم دعا پڑھ لیا کرو۔اے اللہ! اچھائیاں لانے والے بھی آپ ہی ہیں اور برائیاں دور کرنے والے بھی آپ ہی ہیں۔ نیک کام کرنے کی توفیق بھی آپ ہی دیتے ہیں اور برے کاموں سے بچانے کی قوت بھی آپ ہی دیتے ہیں ۔ آنحضرتؐ نے فرمایا جس نے ایسے موقع پر (منحوس جانتے ہوئے) کام کرنے سے اجتناب کیا اس نے خدا کے ساتھ شرک کیا۔
ماہِ صفر کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے علمائے کرام فرماتےہیں کہ جس وقت مہینوں کے نام تجویز کئے جا رہے تھے، موسم خزاں کے سبب پتے جھڑ رہے تھے۔ موسم خزاں میں جھڑنے والے پتوں کا رنگ چوں کہ پیلا ہوتا ہے، اس لئے موسم کی مناسبت سے اس مہینہ کا نام ’’صفر‘‘ رکھ دیا گیا، جس کا معنی عربی میں ’’زرد‘‘ (پیلا) ہوتا ہے۔
یہ اظہر من الشمس ہے کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بہت ہی واضح اور صاف الفاظ میں اس مہینہ میں اور اس کے علاوہ پائے جانے والے تما م توہمات اور قیامت تک کے تمام باطل نظریات کی تردیداور نفی فرما دی ، جیسا کہ صحیح البخاری، کتاب الطب، باب الھام ، حدیث نمبر ۵۷۷۰ میں فرمایا گیا ’’لا عدوی ولا صفر ھام‘ ‘ یعنی (حکم رب تعالیٰ کے بغیر) ایک شخص کی بیماری کے دوسرے کو (خود بخود)لگ جانے(کا عقیدہ) ، ماہِ صفر (میں نحوست ہونے کا عقیدہ) اور ایک مخصوص پرندے کی بد شگونی (کا عقیدہ) سب بے حقیقت باتیں ہیں۔
معلوم ہوا کہ اسلام میں اس قسم کے فاسد و باطل خیالات و نظریات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح کے نظریات و عقائد باطلہ کی بیخ کنی فرمادی۔
یہاں یہ تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ کچھ فاسد العقیدہ لوگوں نے ماہِ صفر کے منحوس ہونے کے حوالہ سے ایک موضوع (من گھڑت) روایت کا سہارا لیاہے۔ جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ من بشرنی بخروج صفر، بشرتہ بالجنۃ یعنی جو شخص مجھے (ماہ) صفر کے ختم ہونے کی خوشخبری دے گا میں اسے جنت کی خوشخبری دوںگا۔
درحقیقت صفر المظفر کے حوالہ سے نحوست والاعقیدہ پھیلانے کی خاطر دشمنانِ اسلام نے حبیب کردگار علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف جھوٹی روایات پھیلانے جیسے مکروہ اور گھناوٴنے افعال کے ارتکاب سے بھی دریغ نہیں کیا۔ العیاذ باللہ
ماہ صفر کو نحوست والا مہینہ ظاہر کرنے کے لیے بطور استدلال کہا گیا کہ ’’اس مہینہ میں نحوست تھی تب ہی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مہینے کے گزرنے پر جنت کی خوشخبری دی ہے‘‘۔ جب کہ ائمہ حدیث ملا علی قاری، علامہ اسمٰعیل بن محمد عجلونی،علامہ شوکانی رحمہم اللہ وغیرہم نے اس روایت کو موضوع بتایا ہے اور اس عقیدے کے باطل ہونے کو بیان کیا ہے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ لا اصل لہ یعنی اس (روایت )کی کوئی اصل نہیں۔
کسی بات کے حوالہ سے سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایسی نسبت کرنا کہ جسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نہ فرمایا ہو، جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ مسند احمد اور سنن دارمی میں حدیث شریف میں وار د ہے کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے“۔
اس من گھڑت اور موضوع روایت کے قطع نظر ماہِ صفر کے بارے میں بہت ساری احادیث صحیحہ ایسی موجود ہیں جو ماہِ صفر کی نحوست کی تردید کرتی ہیں،ان احادیث صحیحہ کے ہوتے ہوئے موضوع روایت پر عمل کرنایا اس کی ترویج کرنا اور اس کے مطابق اپنا ذہن بنانا کوئی سمجھ داری نہیں۔
نحوست اور بدشگونی کے حوالہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ یہ ملتا ہے کہ ایک بار آپ رضی اللہ عنہ لشکر کے ہمراہ سفر پر روانہ ہوئے ایک شخص نے کہا کہ اس موقع پر سفر نہیں کرنا چاہئے بلکہ فلاں گھڑی میں سفر کرنا چاہئے ورنہ شکست ہوگی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب یہ جملہ سنا تو فرمایا لشکر والو! ابھی کوچ کرو فتح و شکست اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ چنانچہ لشکر نے اسی گھڑی میں کوچ کیا اور کامیاب و بامراد لوٹے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر ہم اس کی بات مان لیتے اور اس کے بتائے ہوئے وقت پر سفر کرتے تو یہ شخص کہتا کہ میری وجہ سے فتح ہوئی ہے۔ اسی لیے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا جس نے کسی کو اپنا حال جاننے کے لئے ہاتھ دکھایا اس کی چالیس دن کی نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نجومی کے پاس جانے سے بھی منع فرمایا ہے ۔
تیرہ تیزی کا تصور: کچھ توہم پرست لوگ ماہِ صفر کی تیرہ تاریخ کو منحوس قرار دے کر اسے ’’تیرہ تیزی‘‘ سے موسوم کرتے ہیں۔ اسی طرح صفر کی تیرہ تاریخ کو انتہائی منحوس اور مصیبت و بلا کا دن سمجھا جاتا اور ماہِ صفر کی تیرہویں شب کو سرہانے تیرہ تیزی کے نام سے انڈے وتیل وغیرہ رکھے جاتے ہیں اور تیرہ صفر کی صبح کو خیرات کردیا جاتا ہے، اس تصور کے ساتھ ہمارے سر سے نحوست ، مصیبت و بلا ٹل گئی۔ ایسا تصور رکھنا بھی لغواورقابل ترک کام ہے ۔ قطع نظر اس کے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت کی رضا جوئی کے لیے فقیروں، غریبوں اور مسکینوں کو صدقہ وخیرات کرنا دیگر مہینوں کی طرح اس مہینہ میں بھی جائز ومستحسن ہے۔
تیرہ تیزی کی ایک توجیہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ ۱۳؍ صفر المظفر کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض الموت کا آغاز ہوا، درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۲۸ یا ۲۹؍ صفر بروز چہار شنبہ بستر علالت پر فریش ہوئے۔ یہ عالم اسلام کے لیے بالخصوص اور ساری کائنات کے لئے بالعموم یقیناً ایک بہت بڑا سانحہ ضرور تھا، لیکن اسے تیرہ تیزی کا اثر کہنا غلط ہے اس کی کوئی اصل نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اکثر عاملین و منجمین کے نزدیک صفر کا مہینہ بالعموم اور اس کی تیرہ تاریخ کو بالخصوص بلاؤں کے نزول کا موقع سمجھا گیا ہے، لیکن ایسا سمجھنا اسلامی عقائد کے مغائر ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت و تشریف آوری کے بعد جاہلیت کی ساری رسموں کو اور نحوست کے سارے خیالات کوآپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے باطل قرار دیا۔ علمائےکرام فرماتے ہیں کہ اگر کسی کے لیے نحوست ہے تو وہ صرف اور صرف عقیدۂ توحید و رسالت سے محروم شخص کے لیے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ایسے ہی نافرمانوں پر نازل کردہ عذاب کی ساعتوں کو منحوس کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ہم نے ان پر ایک سخت آندھی بھیجی ایسے دن میں، جس کی نحوست ان پر ہمیشہ کے لئے رہ گئی‘‘۔
شادی بیاہ سے گریز: برصغیر بالخصوص ہندوستان میں آج بھی ماہِ صفر میں شادی بیاہ یا کوئی خوشی کا کام مناسب نہیں سمجھا جاتا، یہاں تک کہ نئے دولھا دُلہن بھی تیرہ دِنوں تک کے لئے ایک دوسرے سے دُور کردیئے جاتے ہیں، جو اسلامی تعلیمات کے بالکل منافی ہے۔ لفظ ’’تیرہ تیزی‘‘ ایک منحوس اصطلاح یا ایک خاص تلمیحی اشارہ ہے، جس کا اصل تعلق توہمات و رسومات سے ہے۔
ماہِ صفر کے آخری چہارشنبہ کا تصور: ماہِ صفر کے متعلق لوگوں میں یہ غلط عقیدہ و نظریہ ہے کہ اس مہینہ کے آخری چہارشنبہ کو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بیماری سے شفا ملی اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے غسلِ صحت فرمایا، لہٰذااس خوشی میں شیرینی تقسیم کی جاتی ہے اور بہت سے علاقوں میں تو اس دن خوشی میں روزہ بھی رکھا جاتا ہے اور مخصوص نوافل بھی ادا جاتی ہیں۔ یہ بالکل خلاف حقیقت اور خلاف واقعہ ہے۔ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ اس دن تو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مرضِ وفات کی ابتداء ہوئی تھی ۔ مرض کی نہ انتہاء ہوئی اور نہ مرض سے شفاء۔ یہ افواہ اور جھوٹی خبر دراصل یہودیوں کی طرف سے آپ کی مخالفت میں آپ کے بیمار ہونے کی خوشی میں پھیلائی گئی تھی اور مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں۔ البتہ روزہ رکھنا اور مخصوص نوافل ادا کرنا؟ اس بارے میں علمائے کرام فرماتے ہیں کہ دیگر مہینوں کی طرح اس ماہ میں روزے رکھنا اور نوافل ادا کرنا جائز و مسحسن ہے۔
مذکورہ بالا تحریر کے پیش نظر امت مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اعمال صالحہ کی جانب حتی المقدور متوجہ ہوجائے اور اس طرح کے توہمات و منکرات سے بچیں اور مقدور بھر دوسروں کو بھی اس طرح کی خرافات ، بے بنیاد و بے اصل باتوں سے بچانے کی کوشش کریں، کیوں کہ توہمات، منکرات و بد اعمالیاں ہی دراصل بہت بڑی نحوستیں ہیں۔
نہیں ہے صفر میں کوئی بھی نحوست
معاصی، نحوست کا بے شک سبب ہے
اللہ ہم سب کو اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے والا بنائے۔ آمین بجاہ طٰہٰ و یٰسین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
٭٭٭