طنز و مزاحمضامین

وجودِ زن سے ہے

یوسف ناظم

کہا جاتا ہے ہماری دنیا میں جتنا بھی رنگ و روغن ہے وہ صرف عورت کے وجود کی بناء پر ہے۔ ہمارا بھی یہی خیال ہے، مردوں کی یہ حیثیت نہیں کہ وہ تصویر کائنات میں اپنی طرف سے کوئی رنگ بھر سکیں۔ زندگی بھر خود ان کا رنگ اُڑا اُڑا سا رہتا ہے تو وہ غریب کہاں سے یہ کارنامہ سرانجام دے سکیں گے بلکہ ہم تو یہ تک کہیں گے کہ یہ دنیا قائم ہی ان لوگوں کی وجہ سے ہوئی ہے (اور اس کا تمت بالخیر بھی ان کی وجہ سے ہوگا۔ مرد تو صرف شکریے کی رسم ادا کریں گے۔)
عورت اگر دنیا میں آنا نہ چاہتی تو کیا مردوں کی عقل ماری گئی تھی کہ وہ ادھر کا رخ کرتے۔ مردوں کو شروع ہی سے عورتوں کے پیچھے پیچھے چلنے کی عادت رہی ہے اور اپنی اس عادت کے سلسلے میں انھیں یہاں آنا پڑا۔ اس دنیا میں آنے سے پہلے مرد تو کہیں اور رہتے تھے۔ وہ تنہا ضرور تھے لیکن محفوظ تو تھے۔ اب مرد تنہائی ڈھونڈتے ہیں اور کوئی گوشہ¿ عافیت انہیں ملتا نہیں ہے۔ ہرطرف ایک نہ ایک قوس و قزح موجود ہے کیوں کہ جب سے وجود میں آئی ہے یہ دنیا رنگوں کا کارخانہ بنی ہوئی ہے۔
عورت کی پیدائش کا مقصد اختلاف رائے رہا ہے اور یہی ایک مقصد ہے جس کی تکمیل کی خاطر عورتوں اور مردوں کو کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی۔ مرد اور عورت کبھی ہم خیال نہیں ہوسکتے۔ ہاں ان دو موسیقاروں کی بات اور ہے جن میں سے ایک مرد اور ایک عورت ہو اور دونوں مل کر ”خیال“ گا رہے ہوں۔ اس کے آگے ان کی ہم نوائی کا سوال نہیں پیدا ہوتا اور موسیقی میں بھی اس ہم نوائی کے لیے انہیں کتنا ریاض کرنا پڑتا ہے۔ یہ انہی کا دل جانتا ہے (دل دکھتا بھی ہوگا) دن رات محنت کرتے ہیں، گھنٹوں سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں تب کہیں جاکر دونوں کے سُر ایک سے نکلتے ہیں۔ موسیقی کو اسی لیے فنونِ لطیفہ پر فوقیت حاصل ہے کیوں کہ کسی دوسرے فن میں مرد اور عورت ایک ساتھ نہیں پیش کیے جاسکتے۔
مغربی تہذیب میں عورتوں کو اولیت حاصل ہے، کوئی جلسہ ہورہا ہو تو مقرر کا فرض ہوتا ہے کہ وہ عورتوں کو مردوں سے پہلے مخاطب کرے حالانکہ عورتیں اس کی تقریر سنتی نہیں ہیں، وہ یہ دیکھتی رہتی ہیں کہ کس عورت نے کیا پہن رکھا ہے اور بعض وقت تو بڑی مشکل میں پڑجاتی ہیں کیوں کہ جلسے میں کچھ خواتین ایسی بھی نظر آتی ہیں جو صرف زیور پہننے کی شوقین ہوتی ہیں۔ تکمیل ضابطہ کی خاطر لباس پہننے کو لباس پہننا نہیں کہا جاتا۔
مقرر صاحبان کو اس طرز تخاطب کی اتنی عادت ہوجاتی ہے کہ جلسے میں اگر صرف مرد ہی مرد ہوتے ہیں تو بھی وہ خواتین حضرات ہی کے الفاظ سے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہیں اور مرد سامعین کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ان میں سے کس کس کو خواتین سمجھا گیا ہے (ویسے مقرر کی اصل تقریر بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی) جلسوں میں مردوں کی تعداد اس لیے زیادہ ہوتی ہے کہ مرد گھر سے باہر نکلنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ مقرر کتنا ہی کیوں نہ بولے کبھی نہ کبھی تو خاموش ہوگا۔ عورتوں کے کئی رنگ ہوتے ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ عورتیں بیحد نرم دل ہوتی ہیں اور ہر عورت کے پاس آنسوﺅں کا ایک ریزر وائر ہوتا ہے جس سے اس کے قلب کی رقت ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔ دنیا کی ہر پائپ لائن خراب ہوسکتی ہے بلکہ بعض صورتوں میں آسمان سے بھی پانی کی فراہمی کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے لیکن عورتوں کے ریزروائر کبھی خشک نہیں ہوتے، اس لیے ہمارے شاعروں نے بہ غلبہ¿ آرا ان کی آنکھوں کو ہمیشہ جھیل کہا ہے۔ جن شاعروں نے احتیاطاً عورتوں کی آنکھوں کو جھیل کہنے سے گریز کیا ہے وہ بہرحال اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی آنکھیں ساغر و مینا ہیں خواہ وہ بینائی کے معاملے میں کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہوں۔ عورتوں کے نرم مزاج ہونے کے ہم بھی دل سے قائل ہیں۔ ساسوں اور بہوﺅں کے آنسو تو کبھی نہیں رکتے۔ عام طورپر یہ دونوں جب بھی ایک دوسرے کو دیکھتی ہیں ان کا دل بھرآتا ہے اور نرم مزاجی کی وجہ سے دونوں کی آنکھوں سے نہریں بہنے لگتی ہیں۔ نندوں اور بھاوجوں کو بھی اس قسم کی رقت میں مبتلا ہوتے دیکھا گیا ہے۔ محبت کی یہ کیفیت مردوں کی قسمت میں نہیں لکھی گئی ہے۔ مرد میدان جنگ میں تو کچھ نہ کچھ کرلیتے ہیں لیکن گھر کے صحن میں جن ہتھیاروں کی ضرورت پڑتی ہے وہ مردوں کے پاس نہیں ہوتے اور اگر ہوتے بھی ہیں تو وہ ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی تکنیک سے واقف نہیں ہوتے۔ دو آنسو ٹپکانا ان کی جان پر آتا ہے۔ عورتوں کو دیکھئے، وہ ہمیشہ اس کے لیے کمربستہ رہتی ہیں، حالانکہ کمر ان کی ہوتی ہی کتنی ہے۔ عورتوں کا ایک رنگ یہ بھی کہ ایک خاص درجہ حرارت پر پہنچنے کے بعد ان کی عمر منجمد ہوجاتی ہے ،وہ جمود جو بالعموم ادب وغیرہ میں آیا کرتا ہے، ان کی عمر میں آجاتا ہے۔ ویسے اس انجماد سے ان کی سالگرہ کی تقریبات میں خلل واقع نہیں ہوتا۔ یہ بلاناغہ ہرسال منائی جاتی ہیں۔ کیک بھی آتا ہے، لیکن جو وزن اور پیمائش میں پچھلے سال سے کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے، البتہ موم بتیوں کی تعداد گھٹتی جاتی ہے۔ یہ اتنی کم ہوجاتی ہیں کہ صحیح عمر دریافت کرنے کے لیے انھیں دو سے ضرب دینا پڑتا ہے۔ بعض وقت تو صورت حال اتنی خطرناک ہوجاتی ہے کہ سالگرہ منانے والی خاتون کی بیٹیاں پریشان ہوجاتی ہیں کہ وہ ان کی کتنی کمسنی کی پیداوار ہیں۔ بہت کم مردوں کو سالگرہ مناتے دیکھا گیا ہے، اس کی وجہ شاید یہ ہوتی ہوگی کہ مردوں کو غلط بیانی کے لیے سالگرہ منانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کوئی بھی مرد دروغ گوئی کے لیے کامل ایک سال صبر نہیں کرسکتا۔ کچھ رشتے بھی ہیں جو عورتوں ہی کے توسط سے مشہور ہیں۔ مثلاً دو شادی شدہ مرد، مرد ہونے کے باوجود آپس میں ہم زلف ہو سکتے ہیں۔ اس میں ان کا قصور صرف یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے ایک ہی گھر کی دو بہنوں سے اپنی اپنی شادیاں کی تھیں۔ (ہم زلفوں کی تعداد دو سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے) اس کے برخلاف دو بھائیوں کی بیویاں آپس میں ہم زلف نہیں ہوسکتیں، کیوں کہ زلف سے منسوب ہونے کے باوجود یہ رشتہ خالص مردانہ رشتہ ہے حالانکہ اب تو مردوں نے بھی اپنی زلفیں کافی بڑھالی ہیں اور عورتوں کا جی چاہے تو وہ بھی ہم زلف کہلا سکتی ہیں۔
مشکل یہ ہے کہ ”ہم ریش“ رشتے کے لیے کوئی موزوں لفظ نہیں ہے۔ اب دنیا میں ایسے مرد کتنے ہیں جو داڑھی کا ذوق رکھتے ہیں۔ داڑھی ہی ایک چیز تھی جس سے مرد علی الاعلان پہچانے جاسکتے تھے۔ اس سے قطع تعلق کر کے انہوں نے اپنی شناخت کے معاملے میں کافی نقصان اٹھایا۔ مردوں کی ثانوی حیثیت کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ خسر جیسی عظیم شخصیت کو بھی وہ عزت حاصل نہیں ہے جو ساس کو حاصل ہے۔ ساسیں خوش دامن کہلاتی ہیں آج کسی خسر کو خوش کلاہ نہیں کہا گیا۔ مشہور بھی ہوئی تو ان کی کج کلاہی مشہور ہوئی۔ یہ بھی بس چند گنے چنے لوگوں کی حد تک محدود تھی۔ لوگوں کا جی چاہتا تو انھیں خوش کلاہ نہ سہی قبا کہہ سکتے تھے، لیکن جی چاہتا تب نا۔ اسی لیے مردوں کا رنگ کبھی نہیں جما۔ جمتا بھی کیسے، نہ یہ اپنے ناخن رنگتے ہیں نہ ہونٹ۔ مہندی جیسی نرم و نازک شے سے بھی انھیں دلچسپی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ لگایا تو خضاب لگایا اور خضاب کا رنگ بھی کوئی رنگ ہے۔ ہاں مردوں نے رنگین شاعری ضرور کی۔ عورتوں کے سراپا کے بارے میں ڈھیروں اشعار کہہ ڈالے انھیں رنگوں میں نہلا دیا۔ عارض شہابی رنگ کے عرض کردیئے تو ہونٹوں کو یاقوت فرمادیا۔ زلفیں سبزی رنگ میں ڈبو دیں اور آنکھوں کو دریائے نیل کے پانی سے تر کردیا۔ کسی کے چہرے پر سبزہ اگا دیا تو کسی کو چمپئی یا صندل بنا دیا۔ وجودِ زن سے تصویر کائنات میں رنگ نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا۔ اس میں عورتوں کی کوشش کم اور مردوں کا دخل زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ عورتیں رنگوں کے معاملے میں بے حد سخت گیر ہوتی ہیں۔ کھانا خراب پکے (بلکہ نہ بھی پکے) تو انھیں پرواہ نہیں۔ گھر کی کوئی چیز ٹھکانے پر نہ رہے تو کہیں گی ایسی کیا آفت آگئی۔ بچوں نے اگر ہوم ورک نہیں کیا تو وہ اسے ان کے والد کی ذمہ داری قرار دیں گی لیکن اگر ان کے لباس و کان کے بندوں، ناک کی کیل، پیشانی کی بندیا، ہاتھ کی چوڑیاں اور پاﺅں کی چپلوں کا رنگ ایک دوسرے سے میل نہ کھائے تو وہ اس کے لیے زمین آسمان ایک کرنے میں دریغ نہ فرمائیں گی۔ ہم نے کتنی ہی خواتین کو اس سلسلے میں ایک بازار سے دوسرے بازار اور ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے ہوئے دیکھا ہے (وہ تو اور بھی آگے چلی جاتیں لیکن اس کے آگے جانے کے لیے پاسپورٹ درکار ہوتا ہے) لیکن سچ یہ ہے کہ جہاں تک رنگوں کی بات ہے، اس میں صرف عورتیں قصوروار نہیں، ہمارا سماج خود رنگوں پر فریفتہ ہے۔ عورت سے رنگوں کے انتخاب میں کوئی غلطی ہو جائے توسماج اسے کبھی معاف نہیں کرتا کیوں کہ عورتوں کی تخلیق کا مدعا یہی ہے کہ وہ کائنات کی تصویر میں ٹھیک سے رنگ بھرتی رہیں اور مردوں کی تخلیق کی غرض وغایت شاید یہ رہی ہے کہ وہ ان خواتین کے آگے پانی بھرتے رہیں۔ خواتین کو اس طرح رنگوں کے سلسلے میں فکرمند ہوتے دیکھ کر ہمارے چند رحم دل (لیکن ذہین) دکانداروں نے تو اپنی دکان کا نام ہی میچنگ سینٹر رکھ چھوڑا ہے۔ شروع شروع میں تو شہر کے نوجوانوں میں کچھ یعنی تھوڑی بہت غلط فہمی پھیلی کیوں کہ یہ چیزغلط فہمی ہمارے یہاں ذرا جلد ہی پھیلتی ہے اور اس غلط فہمی کے نتیجے میں ہمارے نوجوانوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ انھیں ان کا میچ یہیں کہیں مل جائے گا۔ کچھ اسپورٹس مین قسم کے نوجوان تو یہ بھی سمجھے کہ یہاں کوئی نہ کوئی میچ ہوتا رہتا ہے لیکن وہاں انھیں ایسٹ اسٹینڈ یا نارتھ اسٹینڈ نظر نہیں آیا۔ رنگوں نے اب تک اتنی زیادہ اہمیت حاصل کرلی ہے کہ خواتین اپنی (شربتی) آنکھوں کو اپنے لباس کے ہم رنگ بنانے لگی ہیں۔ جس خاتون کی آنکھو ں کو آپ سنیچر کے دن سبز رنگ کے غلاف میں دیکھیں گے انہی غلافی آنکھوں کو آپ اتوار کے دن نیلے رنگ کا پائیں گے۔ عورتوں کی آنکھیں اسی طرح بدلتی ہیں لیکن قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ مشہور یہ ہے کہ مرد کی آنکھ بدلتے دیر نہیں لگی۔ دنیا میں یہی ہوتا آیا ہے، یہ سب وجود زن کے کرشمے ہیں۔ اسی لیے شاعر نے کہا ہے؛
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا ٭ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ مردوں کے چہرے بالکل سپاٹ ہوتے ہیں۔ بہتوں کے چہروں پہ کچھ نہیں لکھا ہوتا ہے باوجود اس کے کہ ان کا چہرہ کتابی ہوتا ہے لیکن بہت سے چہرے ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر تبدیلیاں اپنا رنگ دکھاتی رہتی ہیں۔ جب بھی رائے دینے کا موسم نزدیک آتا ہے امیدواروں کا حال یہ ہوتا ہے کہ؛
ان کی وہ آمد آمد اپنا یہاں یہ عالم ٭ اک رنگ آرہا ہے اک رنگ جارہا ہے
امیدواروں کی فہرست بھی اب زیادہ رنگین ہوتی جارہی ہے کیوں کہ یہی ایک میدان ایسا ہے جس میں وجودِ زن کی بہتات بافراط ہے۔ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کے دن گئے، اب مرد عورتوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کے خواہشمند نظر آتے ہیں۔ یوں تو دفاتر بھی اب مدرسوں اور کالجوں کی طرح مخلوط ہوگئے ہیں اور یہ سب نمود زن سے متاثر ہیں لیکن اس میدان کی بات ہی اور ہے یہ کسی چار دیواری سے محصور نہیں ہوتا۔ عورتیں پہلے صرف پن گھٹ پر جایا کرتی تھیں، اب سارے گھاٹ ان کے قدومِ منمیت لزوم سے کچھ کچھ فیض پاتے ہیں۔ پہلے عورتوں کو مردوں پر بہت بھروسہ تھا، لیکن اب یہ ان سے بدظن ہوگئی ہیں۔ وہ ہرجگہ اپنی نمائندگی خود کرتی ہیں بلکہ بہت سی جگہیں تو ایسی بھی ہیں جہاں عورتیں، مردوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ مردوں نے اپنا سب کچھ انھیں کے حوالے کر رکھا ہے۔ دنیا کی تصویر میں پہلے یہ رنگ ذراہلکا تھا اب یہ شعلے کی طرح چمکتا ہے‘ مردوں سے اگر کسی تصویر میں رنگ بھرنے کو کہا جائے تو وہ نہایت تکلف سے اور بڑی احتیاط سے برش کی نوک سے اس طرح رنگ بھریں گے گویا کینوس کو رنگ سنگھاررہے ہیں۔ عورتیں بخل سے کام نہ لے کر فراخ دلی کا مظاہرہ کریں گی۔ وہ بھی اگر ان کا جی چاہا ورنہ کینو س پر رنگ انڈیل دینے میں بھی تامل نہیں فرمائیں گی۔ وجودِ زن کی اہمیت اس لیے بھی مستزاد ہوگئی ہے کہ مرد کی پسلی نے صرف ایک ہی مرتبہ کام کیا تھا، اب مرد عورتوں کے دست نگر ہیں۔ اس لیے اگر تصویر کائنات میں صرف تصویر کے فریم کے کام کے رہ گئے ہیں تو اس میں قصور عورتوں کا نہیں ہے۔

a3w
a3w