مذہب

نومولود کا نام کب رکھا جائے ؟

بعض حدیثوں میں پیدائش کے دن ہی نام رکھنے کا ذکر ملتا ہے ، چنانچہ صحیح مسلم میں اس پر مستقل عنوان قائم کیا گیا ہے اور ایسی روایتیں جمع کردی گئیں ہیں ،( دیکھئے : مسلم ، حدیث نمبر : ۵۶۱۷)

سوال:- بچہ کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی اس کا نام رکھنا چاہئے یا ساتویں دن نام رکھا جائے ؟ براہ کرم اس کے بارے میں بتائیں ؛ کیونکہ ہاسپٹل میں ولادت کے بعد ڈسچارج ہونے سے پہلے پہلے نام دریافت کیا جاتا ہے ؟ (محمد عارف ، ہمایوں نگر)

جواب:- بعض حدیثوں میں پیدائش کے دن ہی نام رکھنے کا ذکر ملتا ہے ، چنانچہ صحیح مسلم میں اس پر مستقل عنوان قائم کیا گیا ہے اور ایسی روایتیں جمع کردی گئیں ہیں ،( دیکھئے : مسلم ، حدیث نمبر : ۵۶۱۷)

بعض حدیثوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ملتا ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کیا جائے اور نام رکھا جائے ، (سنن ترمذی ، أبواب الأضاحي ، حدیث نمبر : ۲۸۳۲)

امام بخاریؒ نے دونوں حدیثوں میں اس طرح تطبیق پیدا کی ہے کہ اگر عقیقہ کرنے کا ارادہ ہو تو ساتویں دن نام رکھے اور اگر ابھی عقیقہ کرنے کا ارادہ نہ ہو تو ولادت کے دن ہی رکھ دے (دیکھئے : صحیح البخاری ، حدیث نمبر : ۵۴۶۷، باب تسمیۃ المولود غداۃ یولد لمن لم یعتق عنہ)

شارح بخاری حافظ ابن حجرؒ نے امام بخاریؒکی اس تطبیق کو بہت سراہا ہے : ’’ … وہو جمع لطیف ولم أرہ لغیر البخاري‘‘ (فتح الباري : ۱۰؍۱۷۳۳، باب العقیقۃ) –

غرض کہ مستحب طریقہ تو یہ ہے کہ عقیقہ وقت پر کرنا ہو تو ساتویں دن نام رکھا جائے ؛ لیکن اگر قانونی طور پر نام لکھنے کی ضرورت ہو تو پہلے نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ؛ کیوںکہ ضرورت کی بناء پر تو واجبات میں بھی چھوٹ دی جاتی ہے اور یہ تو مستحبات میں سے ہے ۔
٭٭٭

a3w
a3w