وکیل کی خدمات نہ ملنے پر 63 لاکھ مقدمات التواء کا شکار
ملک بھر میں زائد از63لاکھ مقدمات اس لئے زیرالتواء ہیں کیونکہ ان مقدمات کیلئے وکیل کی خدمات دستیاب نہیں ہیں جبکہ14لاکھ مقدمات، دستاویزات یا ریکارڈ کے انتظار میں تاخیر کا شکار ہیں۔
امراوتی: ملک بھر میں زائد از63لاکھ مقدمات اس لئے زیرالتواء ہیں کیونکہ ان مقدمات کیلئے وکیل کی خدمات دستیاب نہیں ہیں جبکہ14لاکھ مقدمات، دستاویزات یا ریکارڈ کے انتظار میں تاخیر کا شکار ہیں۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرا چوڈ نے جمعہ کے روز یہ بات کہی۔ آندھرا پردیش جو ڈیشیل اکیڈیمی کے افتتاح کے بعد اپنے خطاب میں جسٹس چندرا چوڈ نے کہا کہ لوگوں کو درجہ بندی، ضلعی عدالت کو ماتحت عدالتوں کا حوالہ دینے، نوآبادیاتی ذہنیت سے چھٹکارا پانا چاہئے۔
عوام، جوڈیشری کیلئے ریڈھ کی ہڈی کے مانند ہوتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ضمانت مگر جیل نہیں، ضابطہ فوجداری نظام میں ایک عام بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے مگر ملک کی جیلوں میں مقید زیر دریافت قیدیوں کی بھاری تعداد مختلف صورتحال پیش کرتی ہے۔
یہ قیدی آزادی سے محروم ہیں۔ حتیٰ کہ ان کیلئے ایک دن بھی کئی دنوں جیسا ہے۔ این جے ڈی جی (نیشنل جوڈیشیل ڈاٹا گرڈ) ڈاٹا کے مطابق ملک بھر میں کم و بیش14لاکھ مقدمات، کسی دستاویزیا ریکارڈ کے منتظر ہیں۔ اس لئے یہ مقدمات التو کا شکار ہیں جو عدالت کے کنٹرول سے باہر ہے۔ اسی طرح وکیل کی عدم دستیابی کے سبب ملک بھر میں 63 لاکھ سے زائد کیسس التواء کا شکار ہیں۔
اس سلسلہ میں ہمیں بارکونسل(وکلاء) کے تعاون کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ہماری عدالتیں پوری صلاحیتوں کے ساتھ کارکرد ہیں۔ ضلعی عدالتوں کے بارے میں چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ ضابطہ فوجداری نظام (سی آر پی سی) کے سکشن438 کے تحت ضمانت دی جاتی ہے جبکہ اسی نظام کے 439 سکشن کے تحت ضمانت کو منسوخ کیا جاسکتا ہے۔
ضلعی اور نچلی سطح کی عدالتوں میں اسی طرح کا بے معنی میکانکی طریقہ کار کا علاج نہیں ہونا چاہئے۔ ضلعی عدالتوں میں ضمانت حاصل کرنے اور مسترد کرنے تک رہ گیا ہے۔ یا پھر اعلیٰ عدالت سے رجوع ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے مطابق ضلعی عدالتوں کو از خود اس کا علاج دریافت کرنا چاہئے کیونکہ یہ عدالتیں ملک کے غریبوں کو متاثر کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کئی معاملوں میں ضمانت دینے پر ہائی کورٹ، تحت کی عدالتوں کے ججس کی سرزنش کرچکی ہیں۔ کسی بھی جج کی کارکردگی اور فرائض کے تئیں اس کے مظاہرہ کا تجزیہ، ان کی جانب سے دی گئی سزاؤں سے کیا جانا چاہئے۔
انہوں نے جوڈیشیل آفیسرس کو مشورہ دیا کہ وہ باہر کی دنیا میں کیا ہورہا ہے اس پر بھر پور توجہ دیں اور ججوں کو فرائض کی انجام دہی کے دوران جذبات کے استحکام کا احساس دلانا چاہئے۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ بہت جلد ہر عدالت میں جسٹس کلاک قائم کئے جائیں تاکہ کیسس میں پیش رفت پر نگرانی رکھی جاسکے۔