طنز و مزاحمضامین

ٹوپی

زکریا سلطان

ٹوپیاں کئی قسم کی ہوتی ہیں، کچھ پہنی جاتی ہیں اور کچھ ڈالی جاتی ہیں۔ٹوپی پہننا بہت اچھی بات ہے اور ڈالنا بری بات ۔ ٹوپی پہن کر نماز پڑھنے سے نماز کی کیفیت بدل جاتی ہے اور نماز میں خشوع و خضوع پیدا ہوجاتا ہے، یہ سنت طریقہ ہے۔ کلام پاک کی تلاوت بھی ادب سے ٹوپی پہنے ہوئے قبلہ رخ بیٹھ کر کرنے میں انسان پرللہیت طاری ہوتی ہے اور تلاوت کی حلاوت ولطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ننگے سر نماز پڑھنا اور تلاوت کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا، بزرگوں نے اس سے منع فرمایا ہے، لہٰذا ٹوپی پہننے کا اہتمام کرنا چاہیے، یہی وجہ تھی کہ کسی زمانہ میں حیدرآباد کی مساجد میں کوئی ننگے سر نظر نہیں آتا تھا اور اگر کبھی کوئی ایسا شخص نظرآتا تو لوگ حالتِ نماز میں ہی اس کے سر پربورئیے کی ٹوپی رکھ دیتے تھے، مجبوری میں بعض حضرات سر پر دستی باندھ لیا کرتے تھے اور یہی حال شاعروں کا بھی ہوتا تھا بلکہ اب بھی ہے کہ جب کبھی وہ نعت شریف پڑھتے تو اپنے سر پر دستی باندھ لیا کرتے ہیں۔بعض حضرات کہا کرتے تھے کہ ننگے سر نماز پڑھنے پر شیطان سر پر دھپے مارتا ہے، آجکل تو اچھی خاصی نمازیوں کی تعداد شیطان کے دھپے کھا رہی ہے ۔ بعض حضرات ننگے سر قرآن مجید کا درس بھی دیتے ہیں ، یہ صحیح نہیں ہے، آداب و اصول کے خلاف ہے، پوچھنے پرکہتے ہیں ضروری نہیں ہے۔ اللہ انہیں نیک توفیق اور ہدایت دے۔ٹوپیاں کالی پیلی ہری زعفرانی رنگ کی بھی دیکھنے میں آتی ہیں، مگر ٹوپی سفید ہی شاندار اور باوقار لگتی ہے کہ ہمارے آقا ﷺ کا پسندیدہ لباس سفید ہی تھا۔ مختلف رنگ کی ٹوپیوں سے مسلمانوں کے فرقوں میں بٹ جانے کا بھی گمان ہوتا ہے، اس لیے مسلمانوں کی اکثریت سفید ٹوپی پہننا ہی پسند کرتی ہے۔ پسند اپنی اپنی سوچ اپنی اپنی والی بات ہے۔ کوئی کسی پرزور زبردستی نہیں کرسکتا۔ بعض حضرات ٹوپی پہن کر دوسرں کو ٹوپی ڈالتے(چونا لگاتے)ہیں، یہ بات جائز نہیں ہے، ایسے لوگ بہت برا کرتے ہیں ۔چونا لگانے کا اختیار صرف پان کی دکان والے کو ہے ،وہی بے چارہ پوچھ کر چونا لگاتا ہے کہ صاحب چونا کتنا لگاو¿ں، باقی سب زبردستی چونا لگاتے ہیں۔ آج کل دوست احباب رشتہ دار سب ہی کو چونا لگایا جارہا ہے، کوئی رعایت، مروت اور شرافت باقی نہ رہی۔ صرف شر اور آفت رہ گئے ہیں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا ٹوپیاں کئی قسم کی ہوتی ہیں، مثلاً پولیس والوں کی ٹوپی یا کیپ، ان میں بھی عہدے اور مرتبہ کے لحاظ سے الگ الگ ہوتی ہیں ۔ ایک مولوی یا عالم کی ٹوپی ہوتی ہے، بعض حضرا ت شاید اپنا علمی مقام و مرتبہ ظاہر کرنے کے لیے سر سے تقریباً ایک بالشت لمبی اونچی ٹوپی پہنتے ہیںاور بھرے مجمع میںکھڑے دور سے نظر آجاتے ہیں۔ ایک کاﺅ بوائے کی ٹوپی ہوتی ہے جیسے جیمس بانڈ کی ہیٹ ، اس پر اگر آپ کوٹ پہن کر چشمہ لگالیں تو سونے پہ سہاگہ۔لونڈوں کی کیپ بھی آجکل خوب چل رہی ہے جو الٹی لگائی جاتی ہے ۔ایک امپائر کی ٹوپی ہوتی ہے کہ وہ بھی ہیٹ ہی کہلاتی ہے ، وہ پہن کر وکٹ سے امپائر جب انگلی اٹھادیتا ہے تو پھر بولڈ!!! ۔ ملکہ الزبتھ کی ہیٹ بھی بڑی قابل دید اور مشہور تھی۔ ہمارے وزیراعظم مودی صاحب نے بھی کچھ عرصہ قبل چیتے چھوڑتے وقت شکاری کے لباس میں اپنے سر پر ایک ہیٹ لگا رکھی تھی، بہت اسمارٹ لگ رہے تھے، ساری دنیا کی نظر یں ان پر تھیں اور ان کی نظر کیمرہ پر!!! بی آر ایس کے سربراہ اور تلنگانہ کے وزیراعلیٰ کے سی آر بھی کچھ عرصہ سے اکثر ہیٹ لگائے نظر آرہے ہیں ،اس سے ان کا سیاسی قد اونچا ہوگیا ہے، شاید کسی نجومی نے صلاح دی ہوگی، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ سیکرٹریٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے موقع پر کے سی آر کے سر پر ہیٹ ہوگی یا نہیں۔بورئیے کی بڑی چوڑی ٹوپی دھوپ سے بچاﺅ کے لیے بڑی اچھی ہوتی ہے ،اس کا استعمال گرما میں ضرور کرنا چاہیے۔ اس سے دماغ ٹھنڈا رہتا ہے۔ ایک لوہے کی ٹوپی بھی ہوتی ہے، جسے فوجی استعمال کرتے ہیں، یہ جنگوں میں اور ہنگامی حالات میںبڑی کارآمد ہوتی ہے ۔ایک پلاسٹک یا فائبر کی ٹوپی بھی ہوتی ہے جسے ہیلمٹ کہا جاتا ہے جو ہم لوگ دو پہیوں والی گاڑی چلاتے وقت استعمال کرتے ہیں، کبھی اگر کوئی بغیر ہیلمٹ کے نظر آیا تواسے دیکھ کر پولیس والوںکے منہ میں پانی آتا ہے اور وہ اسے روک کر فوری ٹوپی ڈال دیتے ہیں۔نظام سرکار کے زمانے کی لال ٹوپی تو کافی مشہور ہے، اب بھی کبھی کبھار کوئی نواب پہنے نظر آتے ہیں، قصہ مختصر یہ کہ ٹوپیوں کی کئی اقسام ہیں، مگر آجکل سب سے زیادہ مشہور اور زیر بحث اڈانی کی ٹوپی ہے جو ہزاروں لاکھوں لوگوں کو ڈالی گئی ہے، اس پر پارلیمنٹ میں بھی خوب گرما گرمی چل رہی ہے مگر اڈانی صاحب کی سرپرستی کرنے والے اس مسئلہ پر پارلیمینٹ میں کوئی بحث نہیں چاہتے، وہ ان کا مکمل تحفظ، ترقی اور نیک نامی چاہتے ہیں چاہے ملک کے کروڑوں عوام کو چونا لگ جائے اور سارے ملک کی دولت اور خزانے خالی ہوجائیں۔جب ملک کا داروغہ ہی چوروں اور لٹیروں کا سرپرست بن جائے تو بینک اور خزانے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں!!!
بنگال کی شیرنی مہوا مویترا نے ملک کو چونا لگانے اور عوام کو ٹوپی ڈالنے والے اربوں روپئے کے اسکینڈل پر پارلیمنٹ میں خوب دھواں دھار تقریر کرکے متعلقہ وزیروں کو خوب لتاڑا اور بی جے پی کی سرکاری بنچوں کو حواس باختہ کردیا۔ وہ اپنے ساتھ سالگرہ کی ٹوپیاں لے آئی تھیں جنہیں اٹھا اٹھاکر پارلیمنٹ کے ذریعہ ملک کے عوام اور دنیا کو بتایا کہ کس طرح چونا لگاکر لوٹا گیا ہے اور کیسے ٹوپی پہنائی گئی ہے۔٭٭

a3w
a3w