حیدرآباد

پارٹی دفتر کی افتتاحی تقریب سے کئی اہم قائدین کی دوری

بی آرایس قائدین‘اپنے قائد کے فیصلہ کو مناسب وقت پرلیاگیا درست فیصلہ قرار دے رہے ہیں مگرسیاسی حلقوں میں جاری مباحث میں کے سی آر کے فیصلہ کوجلد بازی میں کیاگیا فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔

حیدرآباد: آیا کے سی آر نے بھارت راشٹراسمیتی کے قیام کے فیصلہ میں جلدبازی کامظاہرہ کیا ہے؟ بی آرایس قائدین‘اپنے قائد کے فیصلہ کو مناسب وقت پرلیاگیا درست فیصلہ قرار دے رہے ہیں مگرسیاسی حلقوں میں جاری مباحث میں کے سی آر کے فیصلہ کوجلد بازی میں کیاگیا فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ جب کے سی آر نے قومی سطح پر فسطائی جماعت بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لئے نئی پارٹی قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا تب بہت سارے قائدین نے ان کے منصوبہ اورمقاصد سے اتفاق کرتے ہوئے نئی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے تیاررہنے کا تیقن دیا تھا۔

مگر جب کے سی آر نے اپنی نئی سیاسی جماعت بی آرایس تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے تو اُس وقت کوئی بھی قائد ان کے ساتھ آنے کے لئے تیار نہیں تھا۔14 دسمبر کوکے سی آر نے نئی دہلی میں بی آرایس کے دفتر کا افتتاح کیااس وقت صرف اکھلیش یادو اور ایچ ڈی کمارا سوامی ہی ان کے ساتھ رہے۔

کئی قائدین تو کے سی آر کو مبارکباددینابھی ضروری نہیں سمجھا۔ایسا محسوس ہورہاہے کہ قومی سطح پر بی جے پی سے مقابلہ کرنے میں سوائے کے سی آر کے دوسرے تمام قائدین غیر سنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں۔ قومی سطح پرجاری مباحث سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ کئی قائدین کوبی جے پی کی مخالفت کی صورت میں سی بی آئی کا خوف ستارہا ہے۔

اسی لئے شائد کے سی آر نے بھی ان قائدین سے بات چیت کرنا ضروری نہیں سمجھا۔بتایا جارہاہے کہ کئی قومی قائدین تلنگانہ اسمبلی انتخابات کاانتظار کررہے ہیں۔اگر کے سی آر پھرایک باراسمبلی انتخابات میں کامیاب رہتے ہیں ایسی صورت میں ان کی تائید کی جائے گی۔

کے سی آر خودبھی تلنگانہ اسمبلی انتخابات میں بی آرایس کے نام پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے اپنی اہمیت منوانا چاہتے۔ کے سی آر کی اسمبلی انتخابات میں کامیابی سے ایک وقت میں کئی سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔قومی سطح پر ان کی شخصیت کواوربھی اہمیت حاصل ہوگی۔

بی جے پی کے خلاف نبردازماجماعتوں کواپنی طرف راغب کرنے میں انہیں مدد حاصل ہوگی۔

واضح رہے کہ سابق میں چیف منسٹربہارنتیش کمار‘چیف منسٹرمغربی بنگال ممتابنرجی‘چیف منسٹرٹاملناڈو ایم کے اسٹالن‘چیف منسٹرجھارکھنڈ ہیمنت سورین‘ چیف منسٹردہلی اروند کیجریوال‘ صدر این سی پی شردپوار‘ صدر شیوسینا اودھو ٹھاکرے نے کے سی آر کے قومی سیاست میں قدم رکھنے اورنئی پارٹی بنانے کی تجویز کی بھرپور حمایت کی تھی مگر جب کے سی آر نے بھارت راشٹرا سمیتی تشکیل دی ہے توان میں سے کسی نے بھی کے سی آر سے ملاقات تودورمبارکباددینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔