پرانے شہر میں کسی بھی مکان‘ اپارٹمنٹ کی تعمیر بلیک میلرس کے نشانے پرl بھاری رقومات کا مطالبہ کیا جارہا ہے ورنہ قانونی کارروائیوں کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔l کئی مالکینِ جائیداد ہائیکورٹ میں مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ جائیدادیں خطرے میں ہیں۔
٭ سب سے پہلے رقومات کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ٭ اس کے بعد کمشنر میونسپل کارپوریشن سے شکایت کی جاتی ہے۔ ٭ اگر شکایت پر عمل درآمد نہ ہو تو ہائیکورٹ میں رٹ درخواست پیش کی جاتی ہے۔ ٭ پھر مالکِ جائیداد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔
حیدرآبادہائیکورٹ میں یہ آئے دن کا معمول ہے کہ رِٹ درخواستیں پیش کی جاتی ہیں جن میں درخواست گزار یہ شکایت کرتا ہے کہ ایک شخص ایک غیر مجاز عمارت تعمیر کررہا ہے جس کی تعمیر کا اس نے اجازت نامہ حاصل نہیں کیا ‘ یا یہ شخص تعمیری اجازت نامہ کی خلاف ورزی میں تعمیری عمل جاری رکھے ہوئے ہے یا اس نے ایک غیر مجاز عمارت تعمیر کرلی ہے ۔ میں نے کمشنر میونسپل کارپوریشن کے روبرو ایک شکایتی درخواست پیش کی اور ساتھ ہی متعلقہ ٹاؤن پلاننگ افسر کو بھی اس درخواست کی کاپی دی اور درخواست کی کہ غیر مجاز تعمیر کے مالک کے خلاف میونسپل کارپوریشن کے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے ۔ اس کے بعد بھی میں نے دوسری شکایتی درخواست پیش کی جس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا اور غیر مجاز تعمیر جاری ہے یا مکمل ہوچکی ہے۔ شکایت میں یہ بات بھی درج ہوتی ہے کہ ٹاؤن پلاننگ عہدیدار زیرِ تعمیر عمارت کے مالک کے ساتھ ساز باز کررہا ہے اور اپے فرائض منصبی کو ادا نہیں کررہا ہے۔ درخواستوں کی نقولات رٹ درخواست کے ساتھ منسلک کی جارہی ہیں۔ عدالت العالیہ سے استدعا کی جاتی ہے کہ متعلقہ عہدیدار اور غیر مجاز تعمیر کے مالک کے خلاف کارروائی کی جائے اور غیر مجاز تعمیر کو منہدم کرنے کی ہدایت جاری کی جائے۔ ہائیکورٹ ایسی رٹ درخواستوں پر متعلقہ عہدیداروں اور مالکینِ غیر مجاز تعمیرات کو نوٹس جاری کرتا ہے اور جواب طلب کرتا ہے ۔ پھر اس کے بعد مالکینِ جائیداد ایک مصیبت میں پڑجاتے ہیں۔
ایسی رِٹ درخواست کا محرک کوئی اور ہوتا ہے اور جس شخص کے نام سے ایسی درخواست پیش کی جاتی ہے اس کا پتہ تو ضرور رہتا ہے لیکن وہ شخص سامنے نہیں آتا اور ساری کارروائی ایڈوکیٹ کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ یہ بات بہت ہی افسوس کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بعض ایڈوکیٹس درخواست گزار کے قاتل اِرادوں سے ناواقف رہتے ہیں یا واقفیت حاصل کرنا نہیں چاہتے۔ انہیں شائد اس بات کا علم نہیں رہتا کہ جس شخص کے خلاف یہ درخواست پیش کی جارہی ہے‘ اس کو کتنا نقصان برداشت کرنا پڑے گا اور شائد ہائیکورٹ اس غیر مجاز تعمیر کی مکمل انہدامی کارروائی کا حکم صادر کرے۔ ایسی صورت میں مالکِ جائیداد جس کی زندگی کا سارا اثاثہ اس تعمیر میں لگا ہوا ہے آنِ واحد میں برباد ہوجائے گا۔ پیشۂ وکالت کا استعمال حصولِ انصاف کے لئے ہونا چاہیے نا کہ کسی کی تباہی و بربادی کیلئے ۔
غیر مجاز تعمیر کے مالک کے ایڈوکیٹ کے پاس کوئی دفاعی ہتھیار نہیں رہتا۔ وہ اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ ان کے موکل نے قانون وضوابط کی خلاف ورزی میں تعمیر کی ہے یا سرے سے تعمیری اجازت ہی حاصل نہیں کی ہے۔ اگر دو منزلہ عمارت کی تعمیر کی اجازت ملی ہے اور تیسری منزل بھی تعمیر کرلی گئی ہے تو صرف تیسری منزل کی انہدامی کارروائی کا حکم صادر ہوسکتا ہے۔
اگر اس عمل میں ٹاؤن پلاننگ عہدیدار تساہل سے کام لیں تو پھر ان کے خلاف تحقیر عدالت کی کارروائی کی جاسکتی ہے جو خود عہدیدار کے لئے اور مالکِ جائیداد کے لئے بہت نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ افراد کون ہیں جو دوسروں کی تباہی کی وجہ بن رہے ہیں۔ یہ گروہ ایک بلیک میلرس کا گروہ ہے جو ایسی عمارتوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو غیر مجاز طور پر تعمیر ہوئی ہیں ۔ اگر صرف دیڑھ تا دو سو مربع گز اراضی کے پلاٹ پر پانچ منزلہ اپارٹمنٹ تعمیر ہوا ہے جس میں(STILT) اور اوپر کے فلورس ہوں تو یہ بات سمجھی جائے گی کہ یہ تعمیر غیر مجاز اور غیر قانونی ہے کیوں کہ ایک چھوٹے سے رقبہ پر پانچ منزلہ عمارت کی تعمیر کی اجازت مل ہی نہیں سکتی۔ لہٰذا ایسی عمارتیں راست طور پر ایسے بلیک میلرس کی نظر میں آجاتی ہیں ‘ پھر اس کے بعد وہ اپنے مطالبات مالکِ جائیداد کے سامنے رکھتے ہیں اور ساتھ ہی متعلقہ ٹاؤن پلاننگ عہدیداروں کو بھی خوفزدہ کرتے ہیں اور یہ راشی عہدیدار ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اگر ایسی شکایت ٹاؤن پلاننگ عہدیدار کے پاس پیش ہو تو وہ مالکِ جائیداد کے پاس جاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ بھائی ! اس شخص کے ساتھ (Compromise) کرلو کیوں کہ اس میں سب کی بھلائی ہے۔
دراصل اگر دیکھا جائے تو اس لاقانونیت اور بلیک میلنگ کے عمل کے ذمہ دار ٹاؤن پلاننگ عہدیدار ہی ہوتے ہیں۔ ہرمحلہ میں ان عہدیداروں کے مخبر ہوتے ہیں جو انہیں ایسی غیر مجاز تعمیرات کی اطلاع دیتے رہتے ہیں۔ اگر ٹاؤن پلاننگ عملہ اپنی خدمات ایمانداری سے سرانجام دے تو ایک بھی عمارت غیر مجاز طور پر تعمیر نہیں ہوسکتی۔ لیکن یہ محکمہ دراصل سونے کی کان یا ہیرے کی منڈی ہے۔ جہاں رشوت ستانی اپنی انتہائی بلندی تک پہنچ گئی ہے۔ اس محکمہ کے ایک ادنیٰ ملازم کی آمدنی لاکھوں روپیہ ماہانہ ہوتی ہے۔ تو پھر آپ سمجھ سکتے ہیں ٹاؤن پلاننگ عہدیدار کس قدر رشوت حاصل کرتے ہوں گے اور خاص طور پر ایسی صورت میں کہ زمینِ حیدرآباد تنگ ہوتی جارہی ہے اور رہائشی عمارتیں اوپر کی طرف جارہی ہیں۔
مالکینِ اراضی کے لئے مشورہ
ایسے مالکین اراضی جو ایک سو تا دو سو مربع گز کے پلاٹ پر ہمہ منزلہ عمارت تعمیر کرنے کے خواہشمند ہیں ان کے لئے مشورہ ہے کہ وہ جب تک تعمیری اجازت نہ ملے‘ تعمیرات کا آغاز نہ کریں۔ اس رقبہ اراضی پر صرف G+1 ہی کی تعمیری اجازت ملے گی۔ سب سے پہلے منظورہ پلان ہی کے مطابق تعمیر کریں ۔ تھوڑا بہت Setback بھی ہو تو کوئی بات نہیں لیکن منظورہ پلان ہی کے مطابق تعمیر کریں۔
لیکن دوسری جانب چھوٹے رقبہ اراضی کے مالکین بلڈرس کی باتوں میں آجاتے ہیں جو کہتے ہیں ہمارے سیاسی رسوخ ہیں اور عہدیداران بھی ہم سے خوب واقف ہیں۔ ڈیولپمنٹ معاہدہ کے بعد یہ بلڈر صرف تعمیری اجازت کی درخواست داخل کرتے ہیں۔ اگر پرانا مکان ہو تو اسے منہدم کرکے تعمیر کا آغاز کردیتے ہیں۔ لہٰذا معاہدۂ ڈیولپمنٹ کرتے وقت بہت ہی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ بلڈر کو آپ قبل از وقت کہہ دیں کہ تعمیری اجازت پہلے حاصل کرلیجئے پھر اس کے بعد ہی تعمیری عمل شروع کریں۔ اگر آپ نے معاہدہ کیا اور تعمیر کی نگرانی نہیں کی تو فلورس کے بعد فلورس ڈالے جائیں گے اور جب نوٹس آئے گی تو سب سے بڑا نقصان زمین کے مالک کا ہی ہوگا۔
اس رائے کا لب لباب یہ ہے کہ تعمیری اجازت کے بعد ہی تعمیری کاموں کا آغاز ہونا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ آپ خود کسی بلیک میلر کے تیر کا شکار ہوجائیں اورآپ کو معلوم بھی نہ ہوسکے کہ تیر کس سمت سے آکر لگا ۔
یہ بہت ہی افسوسناک بات ہے کہ پرانے شہر میں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں سے اپنے ہی لوگوں کی بربادیاں ہورہی ہیں۔ کسی کے خون میں اپنے لقمہ کو تر نہیں کیا جاسکتا اور خاص طور پر اپنے ہی دینی بھائیوں کے خون میں اپنا لقمہ تر کرنا کس قدر افسوسناک بات ہے۔ اس چند روزہ دنیا میں تھوڑے سے پیسوں کی خاطر ایسی تباہ کن حرکتیں جو زندگیوں کو برباد کردیں کتنی عجیب لگتی ہیں۔ لیکن اس بات کا افسوس ہے کہ ایسی شکایتیں آتی ہی رہتی ہیں۔
ان افراد سے ہماری خواہش ہے کہ ایسے اقدامات سے باز رہیں جو دنیا اور آخرت میں انہیں رسوا کردیں۔ تھوڑے سے پیسوں کی خاطر اپنی آخرت کو برباد نہ کریں اور بددعا نہ لیں۔ کیوں کہ بددعا سے زیادہ خطرناک ہتھیار کوئی نہیں ہے۔
اگر بیوی خلع کا مطالبہ کررہی ہو تو اس کے مطالبہ کو تسلیم کرلینا چاہیے
جواب:- آپ نے لکھا ہے کہ آپ کی شادی چند ماہ پہلے ہوئی۔ اس شادی میں آپ نے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ شادی کے چند دن بعد آپ کی بیوی میکے چلی گئی۔ آپ کے والدین کے کہنے پر بھی وہ واپس نہیں آئی۔ آپ نے اپنی بیوی سے ملنے کی خواہش کی لیکن آپ کو اس سے ملنے نہیں دیا گیا۔ آپ کے گھر میں جہیز کی کوئی چیز نہیں۔ آپ نے لکھا کہ وہ صرف اپنے زیورات کے ساتھ واپس میکے چلی گئی۔ اب اس کے ایڈوکیٹ کے پاس سے نوٹس آئی ہے جس میں بعض ایسی باتیں بتائی گئی ہیں جن کا اظہار اس جواب میں ممکن نہیں۔ پھر بھی آپ نے لکھا ہے کہ آپ نے ایک ایڈوکیٹ صاحب سے مشورہ کیا جس پر انہوں نے رائے دی کہ بیوی کو طلبِ زوجہ کی نوٹس جاری کی جائے۔ جن باتوں کا تذکرہ آپ کی بیوی کے ایڈوکیٹ نے کیا ہے اور خلع کا مطالبہ کیا ہے‘ بالکل درست نظر آتا ہے۔ اگر آپ کے ایڈوکیٹ صاحب کی رائے آپ نے مان لی اور نوٹس جاری کردی تو یہ بات آپ کے لئے رسوائی کا باعث ہوگی۔ علاوہ ازیں آپ کے اور آپ کے والدین کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہوسکتی ہے جن میں دھوکہ دہی ‘ DVC 498-A تعزیرات ہند اور دیگر ہوسکتے ہیں۔
وہ آپ سے علاحدگی چاہتی ہے۔ حالات و واقعات اور بیوی کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کے مواد کی روشنی میں یہ بات آپ کے لئے موزوں ہوگی کہ آپ اس کے مطالبہ کو تسلیم کرلیں۔ اپنے ایڈوکیٹ صاحب کے ذریعہ جوابی نوٹس جاری کروائیے جس میں یہ بات کہی جائے کہ آپ اپنی کے مطالبۂ خلع کو تسلیم کرتے ہیں اور جو بھی کارروائی ہو وہ قاضی کے دفتر میں ہوسکتی ہے۔
اسی میں آپ کی اور آپ کی دور افتادہ بیوی کی بھلائی مضمر ہے۔ اس کے پاس کوئی وجہ ہوگی جس کی وجہ سے وہ علاحدگی چاہتی ہے ۔ لہٰذا مطالبہ خلع کے تسلیم کرنے میں کوئی برائی نہیں۔ آپ اس مشور پر عمل کریں ورنہ بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
بھاری رقومات کی نقد معاملت میں خطرہ لاحق ہوسکتا ہے
جواب:- آپ آئرن اینڈ اسٹیل کی تجارت کرتے ہیں۔ بڑرے بڑے کارخانوں کو آپ کا اسٹیل سپلائی ہوتا ہے علاوہ ازیں کنسٹرکشن میں بھی آپ کا اسٹیل استعمال ہوتا ہے آپ تو کچھ بلز کے ذریعہ مال فروخت کرتے ہیں لیکن زیادہ تر کاروبار کی اساس نقد رسومات پر ہوتی ہے جس کا نہ تو کوئی بل ہی دیا جاتا ہے اور نہ ہی جس پر GST ادا ہوتا ہے۔
آپ نے لکھا ہے کہ صرف چٹھیوں کی اساس پر کاروبار ہوتا ہے۔ ایک کنسٹرکشن کمپنی آپ سے کچھ ماہ نقد کی اساس پر کروڑوں روپیوں کا اسٹیل خریدتی رہی۔ رفتہ رفتہ بھروسہ بڑھتا گیا اور بات چٹھیوں پر آگئی۔ وہ بھی چند ماہ چلتا رہا اور کاروبار خوب ترقی کرتا رہا اور تعلقات بہت اچھے رہے۔ پھر ایک بہت بڑا آرڈر 30 دنوں کے وعدہ پر دیدیا گیا جس کی رقم کئی کروڑ روپیہ ہے۔ کمپنی نے ادائیگی بند کردی۔ یہ بہت بڑی بلڈرس لابی ہے۔
آپ نے کہا ہے کہ آپ کو اب امید باقی نہیں کہ آپ کی رقم لوٹائی جائے گی۔ کیوں کہ جب بھی فون کیا جائے کوئی جواب نہیں ملتا۔
آپ نے اپنی رقومات کی واپسی کیلئے کوئی قانونی راستہ تلاش کیا ہے۔ آپ نہ تو عدالت سے رجوع ہوسکتے ہیں اور نہ ہی پولیس میں کوئی شکایت کرسکتے ہیں کیوں کہ ایسی صورت میں آپ کو دونوں جانب سے یعنی GSTاور انکم ٹیکس کی جانب سے دبوچا جائے گا اور جس قدر رقم واپس آنی ہے اس کے بالمقابل کئی گنا رقم بطورِ جرمانہ ادا کرنا پڑے گا بہتری اسی میں ہے کہ خاموش رہیے۔