منور مرزا
گزشتہ دنوں جب صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب کی سرزمین پر قدم رکھا، تو ان کے لیے سرخ قالین بچھایا گیا، جو مہمان نوازی کی ایک اعلیٰ ترین علامت کا اظہار تھا۔پھر دوطرفہ گرم جوشی کی ٹھوس شکل وہ34 معاہدے تھے، جو سعودی عرب اور چین کے درمیان ہوئے۔اِن تمام معاہدوں کا تعلق پیٹرو کیمیکل، ٹیکنالوجی اور اور دیگر معاشی شعبوں سے ہے۔ چینی صدر کا یہ دورہ، امریکی صدر جو بائیڈن کے دورے کے تقریباً چھ ماہ بعد ہوا، جو امریکہ اور اس کے دیرینہ حلیف، سعودی عرب کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے بیچ ہوا تھا۔ اس دورے میں صدر جوبائیڈن کی تیل پیداوار کم کرنے کی امیدیں پوری نہیں ہو سکی تھیں۔ چین، سعودی عرب سے اپنی ضروریات کا 18 فی صد تیل درآمد کرتا ہے، جب کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا سالانہ حجم80 ارب ڈالرز ہے۔ اس طرح چین، سعودی عرب کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہوا۔ صدر شی جن پنگ کے دورے کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے خلیج تعاون کونسل کے اجلاس میں شرکت کی اور اس سے خطاب بھی کیا۔ اجلاس کا انتظام میزبان ملک، سعودی عرب نے کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سعودی عرب، خلیجی ممالک اور چین کے درمیان وسیع و مضبوط تعلقات کا خواہاں ہے، جن کا بنیادی محور معیشت اور ٹیکنالوجی کے شعبے ہیں۔
اگر یوکرین جنگ کے پس منظر میں دیکھا جائے، تو یہ دورہ مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے، کیوں کہ اس جنگ نے دنیا کو توانائی کی مہنگے داموں فراہمی کے حوالے سے بہت پریشان کیا۔ گو، ان دنوں تیل کی قیمتیں ستر ڈالر فی بیرل سے کم ہوچکی ہیں،جس پر امیر اور غریب، دونوں ممالک نے سکھ کا سانس لیا ہے، کیوں کہ عالمی مہنگائی کی ایک بڑی وجہ مہنگا تیل بھی ہے، جس پر عرب اور روس کی بڑی حد تک اجارہ داری ہے۔چین کو روس سے سستا تیل خریدنا پڑا، اس کے باوجود کہ امریکہ اور یوروپ نے اس پر پابندیاں عاید کر رکھی ہیں۔
چین اور سعودی عرب کے تعلقات30 ویں برس میں داخل ہوچکے ہیں اور یہ کسی بھی چینی صدر کا سعودی عرب کا چھٹا دورہ تھا۔ پہلا دورہ صدر جینگ ذی نے1999 ء میں کیا تھا۔ صدر شی جن پنگ کا یہ دوسرا دورہ تھا، اس سے قبل وہ2016ء میں ریاض گئے تھے۔ انہوں نے حالیہ دورے میں سعودی فرماں روا، شاہ سلمان اور ولی عہد، محمد بن سلمان سے ملاقاتیں کیں۔چینی صدر کا یہ دورہ نہ صرف ان حالات میں اہم ہے، بلکہ یہ عرب دنیا اور چین کے درمیان تعلقات کے فروغ کی بھی عکاسی کرتا ہے۔
چینی کمپنیز نے سعودی عرب میں گزشتہ برسوں میں 36 ارب ڈالرز کے ٹھیکے حاصل کیے۔ چین، سعودی عرب کا اسٹریٹجک پارٹنر اور بڑا تجارتی شراکت دار ہونے کے ساتھ، ٹیکنالوجی کے فراہم کنندگان میں بھی سرِ فہرست ہے۔یہ ٹیکنالوجی اْس ویژن کے لیے بے حد اہم ہے، جو ولی عہد محمد بن سلمان کا فلیگ شپ ہے اور جس پر وہ عمل پیرا ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد مستقبل میں تیل کی آمدنی پر انحصار کم کر کے دوسرے شعبوں کو فروغ دینا ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو یہ سبق2016 ء کے بعد ملا، جب تیل کی قیمتیں گرتے گرتے30 ڈالر سے بھی کم پر آگئیں۔ اس سے ذرا پہلے یہ114 ڈالر فی بیرل پر تھیں۔
اِتنا بڑا جھٹکا خلیجی ممالک کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ اکثر ماہرین اْن کے دیوالیہ ہونے کی پیش گوئیاں کرنے لگے اور یہ بحث عام ہوئی کہ اْنہوں نے اپنے اخراجات تیل کی آمدنی پر اِتنے بڑھا لیے ہیں کہ اب اِس کم قیمت پر اْن کا گزارہ ممکن نہیں۔مشرقِ وسطی میں بڑے پیمانے پر سیاسی عدم استحکام کی پیش گوئیاں بھی اْن دنوں عام تھیں۔ایسے میں شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے ویژن کے تحت تیل کے ساتھ دیگر شعبوں میں بھی ترقی کا عمل شروع کردیا تاکہ مختلف ذرایع سے آمدنی ہوسکے۔ یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، تاہم اس میں کام یابی نظر آرہی ہے۔
سعودی عرب نے کئی نئے شہر تعمیر کرنے کی شروعات کی ہے، جو معاشی سرگرمیوں میں معاون ثابت ہوں گے۔نیز، تعلیم اور ٹیکنالوجی پر بھی بہت توجہ دی جا رہی ہے۔ظاہر ہے، چین، جو اس شعبے میں سعودی عرب کا اہم حلیف ہے، بڑا کردار ادا کرے گا۔ یاد رہے، خلیجی ممالک بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں بھی شمولیت کا عندیہ دے چکے ہیں، جو صدر شی جن پنگ کا فلیگ شپ ہے۔ ان اقدامات سے ثابت ہوتا ہے کہ اقتصادی میدان میں ترقی سے متعلق سعودی عرب اور چین کی سوچ میں مماثلت پائی جاتی ہے۔سعودی کمپنی، آرامکو نے30 سال قبل چین میں تیل صاف کرنے کے کارخانے کا معاہدہ کیا تھا اور وہ آج اْس کی سب سے بڑی تیل کی سپلائر ہے۔
چین کے لیے یہ اقتصادی پیش رفت اِس وقت بہت اہمیت کی حامل ہے، کیوں کہ امریکہ اعلان کر چکا ہے کہ اْس کے مفادات مشرقِ وسطیٰ سے جنوب مشرقی ایشیا منتقل ہو گئے ہیں۔البتہ،یہ یاد رہے کہ امریکہ آج بھی مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو حفاظتی چھتری فراہم کرتا ہے اور اکثر ممالک کے ساتھ اس کے دفاعی معاہدے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ چین وہ خلا پُر کرنا چاہتا ہے، جو امریکہ کے پیچھے ہٹنے سے خطے میں سامنے آیا ہے۔
اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آسکتی ہے کہ افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحدیں رکھنے کے باوجود چین نے امریکہ کے جانے کے بعد وہاں کوئی بڑی سرمایہ کاری کیوں نہیں کی اور نہ ہی کسی غیر معمولی مدد کا اظہار کیا۔ دراصل،خلیجی ممالک کے مقابلے میں طالبان کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں، جس میں چین دل چسپی کا اظہار کرے۔چین بڑی تیزی سے آگے بڑھنا چاہتا ہے اور اس کی دل چسپی کا مرکز توانائی کا حصول اور اپنے تیار مال کی فروخت ہے، جس کے خریدار عرب ممالک ہیں۔
امریکہ اسی لیے اب اپنی مشرقِ وسطیٰ پالیسی پر نظرثانی کررہاہے اور اعلیٰ ترین سطح پر بیانات دیے جا رہے ہیں کہ”ہم مشرقِ وسطیٰ میں موجود ہیں اور یہاں سے کہیں نہیں جارہے۔“ چین اور اسرائیل کے درمیان بہت اچھے تعلقات ہیں، اِس لیے یہ معاملہ بھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرے گا۔ تاہم،جو امر چین اور عرب ممالک کے درمیان اب بھی امریکہ کی فوقیت کا سبب ہے، وہ امریکہ کا اْن کے لیے فوجی حفاظت مہیا کرنا ہے۔ اکثر عرب ممالک سمجھتے ہیں کہ شاید ابھی چین ایسا نہ کرسکے۔
اس کے علاوہ، بیجنگ کی شام کے معاملے میں روس کی سپورٹ بھی عربوں کے لیے کوئی خوش گوار بات نہیں تھی۔ایک اور معاملہ بھی ہے، جو اِن تعلقات، خاص طور پر سیکورٹی معاملات کو آگے بڑھنے سے روکتا ہے اور وہ ہے، چین، ایران تعلقات۔ عرب ممالک ہرگز یہ نہیں چاہیں گے کہ چین، ایران کو نیوکلیئر انرجی میں کسی قسم کی مدد کرے، کیوں کہ اس سے انہیں خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
صد شی جن پنگ کے حالیہ دورے سے چین کو اپنی ترقی کے لیے درکار تیل کی فراہمی یقینی ہوجائے گی،اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں عربوں کی پیش قدمی نظر آئے۔ چین کو تیل تو آسانی سے مل جائے گا، لیکن وہ اس کی سمندر کے راستے سپلائی یقینی بنانے پر قادر نہیں، کیوں کہ اِن پانیوں میں وہ امریکی اور یوروپی بحری طاقت کے مقابلے میں کم زور ہے۔ یہی ایک بات عرب ممالک کو بھی اقتصادی معاملات سے آگے نہیں بڑھنے دیتی، لیکن دوسری طرف، چین نے عربوں کو امریکہ کا ایک متبادل بھی فراہم کر دیا ہے۔
جو بائیڈن کے آتے ہی امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں جس نوعیت کی کشیدگی دیکھی گئی، وہ سعودی عرب کو اس سے دور کرنے کے لیے کافی تھی۔گو کہ جوبائیڈن کے دورے میں اسے کم کرنے کی کوشش کی گئی،مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب کے دورے کے دَوران خلیج تعاون کونسل کے ارکان اور کچھ افریقی ممالک کے سربراہان سے بھی ملاقات کی، جس سے انہیں مشرقِ وسطیٰ سے متعلق اپنی پالیسی واضح کرنے کا موقع ملا۔یہ ان کے لیے مستقبل میں بہت اہم ہوگا، جب وہ سوپر پاور بننے کی طرف قدم اْٹھائیں گے۔ کم از کم ایک بات تو طے ہے کہ عرب اس کی مخالفت نہیں کریں گے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ اس وقت مغربی ایشیا کے تمام بڑے ممالک مشرِق وسطیٰ میں موجود ہیں۔یعنی چین، روس اور بھارت وغیرہ۔روس، مشرقِ وسطیٰ سے جا چکا تھا، لیکن شام کے بحران نے صدر پوٹن کو موقع دیا کہ وہ دوبارہ دھماکے دار اینٹری دیں۔ اْنہوں نے صدر اسد کی افواج کے ساتھ مل کر اْس خانہ جنگی میں بم باری اور فوجی سپورٹ کے ذریعے حصّہ لیا،جس میں شام کے پانچ لاکھ سے زاید شہری ہلاک اور ایک کروڑ سے زاید دربدر ہوئے، لیکن روس کا امیج ایک بڑی طاقت کے طور پر اْبھرا اور صدر پوٹن ”اسٹرانگ مین“ کہلائے۔
اِس معاملے میں صدر اوباما کی کم زوری اور سیاسی حماقتوں کا بھی بڑا دخل رہا۔ اور پھر یوکرین کی جنگ نے روس کو تیل کے معاملے میں عرب دنیا کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا موقع دیا۔ ہندوستان کی ہمیشہ سے مشرقِ وسطیٰ میں دل چسپی رہی ہے اور اس کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد وہاں روز گار کے لیے موجود ہے اور اب اس کی کمپنیز بھی سرمایہ کاری کے لیے وہاں پہنچ چکی ہیں۔ ظاہر ہے، ایسے میں چین خاموش تماشائی بن کر تو نہیں بیٹھ سکتا، پھر اْسے یہ بھی معلوم ہے کہ اْس کے تیل کے طویل المدّتی مفادات اسی علاقے سے وابستہ ہیں۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ صدر شی جن پنگ کے اِس دَورے سے ایک ماہ قبل امریکی صدر اور شی جن پنگ کی انڈونیشیا میں ملاقات ہوئی تھی۔گو،اْس میں عرب دنیا کا خصوصی ذکر نہیں تھا، تاہم توانائی کی قیمتوں میں استحکام کی بات ضرور ہوئی تھی تاکہ عالمی مہنگائی کو لگام دی جاسکے۔ شاید اِسی لیے سعودی عرب اور چین کے مشترکہ بیان میں بھی یہ بات موجود تھی کہ دونوں ممالک نے تیل کی قیمتوں کے استحکام پر اطمینان کا اظہار کیا۔اب جو تیل کی قیمتیں تیزی سے نیچے آئی ہیں، اس میں عالمی سفارت کاری کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہے۔ بالی کی میٹنگ ہو یا چین سعودی عرب اعلامیہ، دونوں میں یوکرین جنگ کے جلد اختتام پر زور دیا گیا۔اس سے روس پردباؤ بڑھے گا،کیوں کہ عرب ممالک اس کے اوپیک پلس کے ساتھی ہیں، تو چین اس کے سستے تیل کا سب سے بڑا خریدار۔
چین اِس امر سے بخوبی واقف ہے کہ سعودی عرب، مسلم دنیا میں ایک رہنما مقام رکھتا ہے۔خلیجی ممالک کے اجلاس میں نہ صرف عرب دنیا سے تعلق رکھنے والے ممالک موجود تھے، بلکہ عرب افریقی ممالک کی شرکت بھی یقینی بنائی گئی۔ مسلم آبادی کا بڑا حصّہ تو جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں آباد ہے۔ ان ممالک میں پاکستان، افغانستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ملائیشیا کو شامل کیا جائے، تو یہ آبادی تقریباً نوّے کروڑ کے لگ بھگ ہے، لیکن تیل کی وجہ سے جو اہمیت مشرقِ وسطیٰ کو حاصل رہی، وہ عالمی نوعیت کی ہے۔سعودی عرب میں اسلام کے دو مقدّس ترین مقامات موجود ہیں،جن کی زیارت کو ہر مسلمان اپنے لیے سعادت سمجھتا ہے۔
اِسی لیے فلسطین سے لے کر برماتک، کشمیر سے شام تک اور پھر لیبیا تک کے سب مسائل اور تنازعات میں عرب دنیا کے ممالک کوئی نہ کوئی کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ قطر کا افغان تنازعے کے حل میں بنیادی کردار رہا۔او آئی سی کا ہیڈ کوارٹر جدہ میں ہے، جو اقوامِ متحدہ کے بعد سب سے بڑی عالمی تنظیم ہے۔ چین کو مسلم اکثریتی علاقے،سنکیانگ کے معاملے میں خاصی تنقید کا سامنا ہے۔صدر شی جن پنگ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب ایسے معاملات میں کتنا اہم ہے، اِسی لیے چین، سعودی عرب سے تعلقات کو عالمی سیاست کے ساتھ،مسلم دنیا کی سیاست کی نظر سے بھی اہم سمجھتا ہے۔