ادبیمضامین

فردوس نشیں روح حضرت مضطر مجاز کی ادبی خدمات کے حوالے سے مشاہیر ادب کا اعتراف نامہ

مضطر مجاز کی فنی شخصیت کے کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو ان کی انفرادیت کا غماز ہے۔ وہ شاعر بھی ہیں اور مترجم بھی، مبصر بھی ہیں اور نقاد بھی۔ ترجمے کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں اور شاعری کے کچھ اور ایک سطح پر ان میں ٹکراؤ بھی ہوسکتا ہے۔

پروفیسر سید وحید الدین: سابق صدر شعبہ فلسفہ عثمانیہ ودہلی یونیورسٹی و ہمدردیونیورسٹی

مضطر مجاز کی فنی شخصیت کے کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو ان کی انفرادیت کا غماز ہے۔ وہ شاعر بھی ہیں اور مترجم بھی، مبصر بھی ہیں اور نقاد بھی۔ ترجمے کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں اور شاعری کے کچھ اور ایک سطح پر ان میں ٹکراؤ بھی ہوسکتا ہے۔ مترجم ترجمے کے قید وبند سے رو گردانی نہیں کرسکتا اور اگر ترجمے کے حدود سے انحرا ف کرے تو اسے یا تو اس کے فہم کی کوتا ہی یا پھر دانستہ گمراہی پر محمول کیاجائے گا۔

اس کے برعکس شاعر بہ حیثیت شاعر کے آزاد ہو تا ہے۔ اس کی پا بندی اس کے فن کے تقاضوں کی پابجائی تک محدود رہتی ہے شاعری کے مترجم کو اچھا شاعر ہونا ضروری ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ اچھا شاعر اچھا مترجم بھی ہو۔ اگر مترجم کا موضوع کوئی معمولی شاعر نہیں بلکہ اقبال جیسا عظیم المرتبت شاعر ہوتو اس کی دشواریوں میں بے پناہ اضافہ ہو جا تا ہے کیوں کہ اس کے فن کی تعبیر کے امکانا ت ہر زمانے میں نئی راہوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔

ترجمے میں ہم تعبیر کے عنصر کو نظر انداز نہیں کرسکتے اس اس لیے ترجمے کا تقاضہ یہ ہے کہ شاعر کے فکر و فن کی ہمہ جہتی متاثر نہ ہو نے پائے۔ مضطر مجاز کے تراجم کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے شاعر کے اسلوب اظہار کا تحفظ کیا ہے۔اس وقت ہمارے پیش نظر ”پیام مشرو“ اقبال کی فکر و شاعری کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کو اقبال نے جرمنی کے عظیم شاعر گوئیٹے (1749-1832) کے دیوان مشرق و مغرب کے جواب میں لکھا۔ وہ خود کہتے ہیں

در جوابش گفتہ ام پیغام شرق
ماہتا بے ریختم بر شام شرق

یہاں اقبال کا جواب کوئی منفی مضمرات کا حامل نہیں بلکہ اس کی حیثیت و علیکم کی ہے۔ گوئیٹے نے جب حافظ کا ترجمہ جرمنی زبان میں پڑھا تو اس کے مزا ج میں ایک ہیجان برپا ہوگیا۔ یوں تو گوئیٹے کی اسلام سے وابستگی دیوان مشرق و مغرب کی تخلیق سے بہت پہلے پیدا ہو چکی تھی، جس کی عکاسی اس کی دل کش نظم ”نغمہ محمد“ سے ہوتی ہے۔ اقبال نے اس کو اپنے رنگ میں پیش کیا ہے۔ ترجمہ کیا ہے؟ گوئیٹے کے خیالات کی تعبیر ہے۔

مضطر مجاز نے اپنے ترجمہ میں اس کی دلکشی کو برقرار رکھنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی یعنی الفاظ کے بہاؤ اور اور ترنم کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ گوئیٹے ان لوگوں میں سے تھا جو ہم سب انسانوں کی طرح زندگی کے ہر دورسے گزرتے ہیں لیکن پھر بھی کسی دور سے یکسر گزر نہیں جاتے بلکہ ہر دور کے امتیاز کو اپنے اندر سمولیتے ہیں۔ جب گوئیٹے کو حافظ کی سدا بہار شاعری سے سابقہ پڑا تواس کی عمر ساٹھ سال سے متجاوز ہو چکی تھی لیکن شباب کا اضطراب جوں کا توں باقی تھا۔

اسی زمانے میں اس کو اپنے دوست کی جوان بیوی Marianne سے لگاؤ پیدا ہوا یہ خاتون غیر معمولی ذہانت اور شاعرانہ صلاحیت رکھتی تھیں۔ جرمن شاعر نے اپنے محبوب کو زلیخا اور خود کو حاتم کے نام سے موسوم کیا۔ اب دونوں ایک دوسرے کے ساتھ شاعرانہ سطح پر ہم کلام ہوتے رہے۔ گویئٹے نے اس کے کلام کو بھی اپنے دیوان میں شامل کرلیا لیکن یہ افشاء نہیں کیا کہ اس کا کلام کہاں ہے۔ بہر صورت گوئیٹے کوحافظ کے توسط سے نیا شباب ملا اور حافظ کے ہمنوا ہونے کا اس نے اپنی زندگی کی سطح پر بھی حق ادا کیا کیوں کہ بلبل شیراز نے اپنی پیری میں شباب کی کیفیت کا برملا اظہار ہوں کیا ہے۔

پیرانہ سرم عشق جواں را بہ سر افتاد
واں راز کہ در دل بنہفتم بہ در افتاد

گویئٹے اس سے بخوبی واقف تھا کہ حافظ کو لسان الغیب بھی کہا جاتا ہے اور ان کے کلام کی صوفیانہ تعبیر کی جاتی ہے، لیکن شاعر کے اس پہلو سے گوئیٹے کو دلچسپی نہ تھی وہ تو ارضی کا دلدادہ تھا، پھربھی یہ کہنا غلط ہوگا کہ گوئیٹے کے دیوان میں یا اس کے کلام میں کوئی ماورا ئی جہت نہیں ملتی کیوں کہ ”فاوسٹ“ کے آخر میں یہ بلیغ جملہ ملتا ہے۔ ”ہر چیز جو گزر جاتی ہے وہ ایک مثال یعنی عالم شہادت قبلہ نما ہے“ اگر گوئیٹے کے دیوان میں جمالیاتی عنصر کا غلبہ ہے تو اقبال کے پاس فکری عنصر غالب ہے۔

اس طرح پیامِ مشرق، تہذیب حاضر پر ایک مبسوط تنقید و تبصرہ ہے۔ لیکن گوئیٹے کبھی کسی نظام فکر کا ناشر نہیں رہا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ گوئیٹے اپنے دیوان میں حکمت کے موتی بکھیرتا جاتا ہے۔ اس کے ایک جزکو اس نے”حکمت نامہ“ کانما دیا ہے، یہاں گوئیٹے کا یہ مشہور جملہ بھی ملتا ہے کہ اگر اسلام خدا کے حضور سپرد گی کا نام ہے تو ہم سب مسلمان ہیں۔

کہیں کہیں وہ طنز سے بھی کام لیتا ہے جس کا نشانہ اس کے ارد گرد کے واقعات اور تجربات ہیں مثلاً وہ حافظ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے۔”ہم مغرب کے شاعر بھلا مشرق کے شعراکا کہاں مقابلہ کرسکتے ہیں لیکن ہم میں یہ ضرور قدر مشترک ہے کہ ہم اپنے ہم مشربوں کو کبھی برداشت نہیں کرسکتے“ شعرا کی یہ خصوصیت شاید اب بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح المانوی شاعر کے زمانے میں رہی ہے۔

کیا مشرق اور کیا مغرب۔مضطر مجاز کے ترجمے کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اقبال کی جن نظموں میں غنائی اور صوتی حسن خاص طور پر نمایاں ہے اس کو انہوں نے بر قرار رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ میرے ذہن میں جو نظمیں اُبھر کر آئی ہیں وہ یہ ہیں: خوشبو، نوائے وقت،فصل بہارجگنو شبنم، جوئے آب وغیرہ۔

ہاں کوئی ترجمہ اصل کا بدل نہیں ہوسکتا لیکن اصل کی طرف رہنمائی کرسکتا اور کے سمجھنے میں معاون ہوسکتا ہے۔ آئندہ بھی کوئی مترجم مضطر مجاز کے ترجمہ کو نظر انداز نہیں کرسکے گا۔ مجھے اُمید ہے کہ یہ ترجمہ وقت کی کسوٹی پر پورا اترے گا اور دوسرے ترجموں کے مقابلوں میں اپنی امتیازی حیثیت برقرار رکھے گا۔