35ارب ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدوں پر مذاکرات۔ طالبان نے روس سے تجارت بڑھادی۔ زراعت میں خود کفالت کیلئے نہری نظام بحال کرنا شروع کردیا۔ سالانہ چھ ارب کسٹم ٹیکس اکٹھا کیا۔ دو سال میں9ارب زکواۃ کی مد میں جمع۔
محمد قاسم
افغان طالبان کے کابل پر قبضے کو پندرہ اگست کو دو سال مکمل ہوجائیں گے۔ دو سال کے دوران طالبان کی حکومت کو اب تک دنیا کے کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ تاہم طالبان مسلسل اپنی حکومت مضبوط کررہے ہیں۔ ایک طرف طالبان نے افغانستان بھر میں چینی کمپنیوں کیلئے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں۔ دوسری جانب زراعت میں خود کفالت کیلئے پرانے زمانے کے نہری نظام کو دوبارہ بحال کرنا شروع کردیا ہے۔ دو سال کے دوران طالبان نے سالانہ چھ ارب افغان کرنسی سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیاہے۔ حالانکہ طالبان نے اسلامی نظام نافذ کرکے لوگوں پر مختلف ٹیکس ختم بھی کئے ہیں۔ دوسری جانب زکواۃ کا نظام رائج کرنے سے تقریباً دو سال میں نو ارب سے زائد رقم بھی اکٹھی گئی ہے۔ اس سب کے باوجود طالبان کو دنیا کی جانب سے مختلف پابندیوں کا سامنا ہے۔ جس میں طالبان حکومت کے اہم عہدیداروں پر سفری پابندیوں کو دوبارہ نافذ کرنا ہے۔ جبکہ افغانستان کے بینکنگ سسٹم کو بین الاقوامی بینکنگ سسٹم (Swift System)سے نکال دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے بیرون ملک افغان باشندے اپنے رشتہ داروں کو زر مبادلہ نہیں بھجواسکتے اور نہ ہی افغان تاجر بینکوں کے ذریعہ کاروبار کرسکتے ہیں۔ طالبان حکومت نے روس تک سڑکوں کے ذریعہ رسائی حاصل کی ہے۔ جس کے کے ذریعہ ماسکو کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوا ہے اور افغانستان کے اندر مہنگائی پر کنٹرول حاصل کرلیا گیا ہے۔ تاہم افغان حکومت کو اس وقت سب سے زیادہ خواتین کی تعلیم پر پابندیوں کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے افغان وزارت تعلیم کے اہلکار قاری ادریس نے بتایا کہ افغان حکومت یا طالبان خواتین کی تعلیم کے خلاف نہیں بلکہ مخلوط نظام تعلیم کے خلاف ہیں۔ امریکہ نے گزشتہ بیس برس میں افعانستان میں رائج نظام تعلیم کو تباہ کرکے مخلوط نظام تعلیم رائج کیا۔ جس کی وجہ سے اب افغان حکومت کو خواتین اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے۔ افغان حکومت نے پرائیوٹ یونیورسٹیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ خواتین اساتذہ کا بندوبست کرکے کلاسیس شروع کرسکتے ہیں۔ تاہم پرائیوٹ کالجز اور یونیورسٹیوں کو مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ کیوں کہ افغان طالبان کا نظام مغرب کے مخالف ہے اور مغربی نظام ا فغانستان میں ناکام ہوگیا ہے۔ تاہم افغان حکومت کی جانب سے افیون کی کاشت تقریباً92 فیصد ختم کردی گئی ہے ۔ جس کی نہ صرف امریکہ اور اقوام متحدہ نے تصدیق کی ہے بلکہ افغان حکومت نے زراعت کو ترقی دینے کے لئے کسانوں کو بیج ‘ پھلدار پودے اور دیگر سہولتیں فراہم کی ہیں۔ صرف جلال آباد میں2023ء میں پندرہ ملین مالٹے کے پودے تقسیم کئے گئے۔ جبکہ آٹھ کروڑ ڈالر کے انار صرف قندھار سے 2022-23 ء میں روس کو برآمد کئے گئے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کو بھی سبزیاں‘ ڈرائی فروٹ اور تازہ پھل برآمد کئے جارہے ہیں۔ تاہم اس کی مقدارانتہائی کم ہے ۔
چین افغان تاجروں کے لئے نئی منڈی کے طورپر سامنے آیا ہے۔ تازہ سبزیاں ‘پھل اور ڈرائی فروٹ چین براہ راست برآمد کئے جارہے ہیں۔ افغانستان میں سبزیوں‘ پھلوں اور زراعت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ کیوں کہ جنگ ختم ہونے کے بعد تاجروں کو درپیش راہداری مشکلات ختم ہوگئی ہیں۔ دوسری جانب چین نے نورستان میں واقع لیتھیم کے ڈیپازٹ کان کیلئے افغان حکومت کو دس ارب ڈالر معاہدہ کی پیشکش کردی ہے۔ جس پر افغان حکومت اور چین کے درمیان خفے مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں۔ جبکہ پندرہ ارب ڈالر کے ایک بڑے معاہدے پر حال ہی میں بلخ کے کشقری کے ڈیپازٹ نمبر ایک سے ستر ٹن یومیہ کے حساب سے تیل نکالنا شروع کردیا ہے اور اس پر ابتدائی طور پر 35کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ جبکہ بلخ میں واقع ایک گیس ڈیپازٹ پر65 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کے ایک معاہدے پر بھی دستخط کئے گئے ہیں۔ جس کے ذریعہ افغان صوبہ بلخ کے دارلحکومت مزار شریف میں تانبے‘ سیمنٹ اور پٹروکیمیکل کے کارخانے قائم کئے جائیں گے۔ یہ کارخانے چینی کمپنیاں قائم کریں گی۔ جبکہ معاہدے کے مطابق چین تمام کمپنیوں میں ملازمین افغانی باشندوں کو رکھے گا۔
افغان وزارت تجارت اور معدنیات کے اہلکاروں کے مطابق اس حوالے سے افغانستان نے بنگلہ دیشی ماڈل پر کام شروع کردیا ہے کہ زمین اور بجلی افغان حکومت فراہم کرے گی اور اس کے لئے منصوبے بھی افغان حکومت کے تعاون سے بنائے جائیں گے۔ زمین کے پیسے نہیں لئے جائیں گے اور بجلی انتہائی کم قیمت پر دی جائے گی۔ تاہم اس کے بدلے میں تمام ملازمتیں افغان باشندوں کو دی جائیں گی۔ چین نے افغانستان میں35 ارب ڈالر تک سرمایہ کاری کے معاہدوں پر مذاکرات شروع کردیئے ہیں۔ تاہم امریکہ ان کمپنیوں کو روکنے کیلئے مختلف حربے استعمال کررہا ہے۔ متحدہ عرب امارات سمیت دیگر عرب ممالک میں قائم امریکی کمپنیوں کے ذریعہ چینی کمپنیوں کو مختلف ڈیپارٹس پر کام سے رکوانے کے لئے بڑی پیشکشیں کی جارہی ہیں ۔ تاہم افغان طالبان نے سختی سے م قامی افراد کو ہدایت کی ہے کہ وہ ماضی کی طرح انفرادی طور پر کوئی منصوبہ شروع نہیں کرسکتے۔ نہ کسی کو لیز پر دے سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو چوری چھپے مال مہیا کریں گے۔ بلکہ اگر کسی کو قومی سطح پر معاملات خراب کرتے ہوئے پایا گیا تواس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ماہرین کے مطابق اگر افغان طالبان اور چین کے درمیان یہ معاہدے کامیاب ہوجاتے ہیں تو افغانستان آئندہ پانچ سال میں ایشیاء میں ترقی کرنے والے ممالک بنگلہ دیش اور ہندوستان سے آگے نکل سکتا ہے۔ کیوں کہ افغانستان پر بیرونی مالیاتی اداروں یا اندرونی بینکوں کا کوئی قرضہ واجب الادا نہیں۔ امریکی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکہ نے سات ٹریلین ڈالر لگا کر بھی بیس برس میں طویل جنگ اور تعمیر کے باوجود افغانستان کھودیا۔ جبکہ چین ان تمام امریکی تعمیرات‘ فوجی اڈوں ‘ تجارتی ٹرمنلز اور کانوں تک بنائی گئی سڑکوں کو مفت استعمال میں لارہا ہے اور مستقبل میں افغانستان وسطی ایشیاء ‘ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء کیلئے چین کا بڑا فوجی پارٹنر بن سکتا ہے جو امریکہ کے مفادات کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہوگا۔ کیوں کہ چین35 ارب ڈالر کے قریب ممکنہ سرمایہ کاری کے ذریعہ افغانستان کے تمام وسائل اپنے فائدے میں لانے کے لئے معاہدے کررہا ہے اور یہ معاہدے مستقبل میں افغانستان اور چین کے فوجی تعاون میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ افغان حکومت اپنے اخراجات کو آہستہ آہستہ پورا کرنے اور پرانہ نہری نظام کو دوبارہ بحال کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اور دنیا خاص کر امریکہ جو خانہ جنگی اور افغانستان میں بھوک اور افلاس کا انتظار کررہا تھا وہ مایوسی اور پریشانی میں مبتلا ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰