مضامین

کانٹوں بھرا تاج کھرگے کے سر پر

سید سرفراز احمد

سیاست دراصل اسی شعبہ کا نام ہے جدھر سبزہ نظر آئے ادھر رخ کرلیا جائے لیکن کچھ سیاستداں ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی وفاداری کا ثبوت مرتے دم تک دیتے رہتے ہیں، چاہے اس کے لیے جان کے لالے ہی کیوں نہ پڑ جائیں۔ ملکارجن کھرگے کانگریس کے ایک ایسے ہی تجربہ کار سیاستداں ہیں جنہوں نے کانگریس کے دامن کو ہر حال میں مضبوطی سے تھامے رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دن وفاداری کا صلہ ضرور ملتا ہے۔ بالکل کھرگے کی قسمت نے ایسا ہی کردکھایا۔ جس نازک دور سے کانگریس گزر رہی ہے، ایک ایسے وقت میں ملیکارجن کھرگے کو کانگریس کا تاج پہننا پڑا پریہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے کہ صدارت کا تاج پہنتے ہی گھوڑے پر سوار ہوجائیں یا پھر راتوں رات انقلاب برپا ہوجائے بلکہ اس کے لیے عزم محنت، مشقت، صبر، حکمت، دانشمندی یہ سب درکار ہے بلکہ کھرگے کو اس کشتی کا ناخدا بنایا گیا جو لڑکھڑاتے اپنی مسافت طئے کررہی ہے جس کے داخلی انتشار کی کیفیت دگرگوں ہے جس کے کئی مسافر تھک کر اس ڈگمگاتی کشتی سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں۔ اب اس کشتی کے سفر کو آگے بڑھانے کے لیے ایک ایسے ملاح کی ضرورت تھی جو اس سفر کو بناءکسی ہچکولے کے آگے بڑھائے۔ بڑی کشمکش و مزاحمت کے بعد جمہوری طرز سے یہ بڑی ذمہ داری کھرگے کے کاندھوں پر ڈالی گئی۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کانگریس پارٹی ملک کی سب سے قدیم پارٹی ہے۔ ایک وقت تھا جب کانگریس کا مقابلہ انتخابات میں ملک میں کسی دوسری پارٹی سے نہیں ہوتا تھا بلکہ بناءکسی دوڑ و دھوپ کے وہ اقتدار پر قابض ہوجاتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ نشیب وفراز آتے گئے جبکہ کانگریس اپنے زعم قیادت و طاقت کے نشہ میں مست تھی جنھیں یہ پتہ بھی نہیں چل سکا کہ ان کی کمسن اپوزیشن پارٹی پوزیشن میں آنے کے لیے زمینی کام کرتے ہوئے سیاسی میدان ہموار کررہی تھی۔ 1984 میں صرف دو لوک سبھا نشستوں پر سمٹ کر رہ جانے والی بھاجپا 1989 کے انتخابات میں 85 نشستوں پر قابض ہوگئی جس کے بعد اڈوانی کو سیاست چمکانے کا تجربہ ملا۔ 1990 میں اڈوانی نے کانگریس کی کمزوریوں کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے رتھ یاترا شروع کی جس کا مقصد بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا مطالبہ تھا، جس کو زعفرانی تنظیم نے گدی تک پہنچنے کا آسان ذریعہ سمجھا اور اکثریتی طبقہ کو خوب ورغلایا۔ فرقہ پرستی کی سیاست کے سامنے کانگریس بے بس ہوچکی تھی جس کا سیاسی گراف نصف درجے تک پہنچ چکا تھا۔ کانگریس کو اس وقت شدید صدمہ سے دوچار ہونا پڑا جب 1991 میں راجیو گاندھی کا قتل کردیا گیا۔ مزید ملک کو سنگین دور سے اس وقت گزرنا پڑا جب سنہ 1992 میں بابری مسجد کو شہید کردیا گیا جس کے بعد مسلمانوں نے کانگریس کو دھول چٹاکر قیادت کے نشہ سے اتارا اور کانگریس کو منہ کی کھانی پڑی لیکن دوسری طرف بھاجپا کی چاندی سونے میں بدل چکی تھی۔ سنہ 1996 میں یہی بھاجپا 161 نشستوں کے ساتھ علاقائی جماعتوں کے تعاون سے اقتدار پر قدم جماچکی تھی لیکن سیاسی اتھل پتھل کے سبب یہ حکومت 13 دنوں میں سیاسی بحران کا شکار ہوگئی پھر 1998میں 182 نشستوں کے ساتھ مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے واپس اقتدار پر قابض ہوتے ہوئے میعاد کی تکمیل کی۔ اگر چہ کہ راجیوگاندھی کے قتل کے بعد کانگریس کو اقتدار حاصل ہوا تھا لیکن مندر مسجد کی سیاست اور کانگریس دور میں بابری مسجد کی شہادت کے سبب کانگریس کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا۔ 2004 کے لوک سبھا الیکشن میں کانگریس نے 145 نشستیں حاصل کیں اور بھاجپا نے 138، لیکن کانگریس نے علاقائی جماعتوں کے اتحاد کے ساتھ حکومت تشکیل دی۔ سال 2009 میں کانگریس نے بہتر مظاہرہ کرتے ہوئے 206 نشستیں حاصل کیں اور بھاجپا 138 سے گھٹ کر 116 پر سمٹ گئی۔ بھاجپا سیاسی طور پر لڑکھڑا تو رہی تھی لیکن رام مندر کا مدعا اس کو چین کی نیند دے رہا تھا۔ بھاجپا نے اڈوانی کی مہم رام مندر کی تعمیر کو نریندر مودی کی قیادت میں آگے بڑھایا اور اتنی تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھایا کہ سیکولرزم دم توڑ رہا تھا اور جم کر فرقہ پرستی کی سیاست کھیلی جس کے بعد وہ 2014 میں برسر اقتدار تک پہنچ گئی اور سال 2019 میں یہی بھاجپا نے دوبارہ تاریخ ساز کامیابی حاصل کی۔
بھاجپا کے ان آٹھ سالہ دور حکومت میں سب کچھ بدل گیا حتیٰ کہ کانگریس خود کی ساکھ بھی بچانے سے قاصر رہی جس طرح سے بھاجپا نے مذہبی بھید بھاو¿ کے ذریعہ ملک کے سیکولرزم کو کمزور کیا بلکہ ساتھ ہی ساتھ کانگریس کو بھی کمزور کرنے میں اپنی پوری طاقت صرف کردی اور کانگریس کا یہ حال ہوگیا کہ وہ جب بھی سیکولرزم کا لفظ استعمال کرنا چاہتی ہے تو وہ بھاجپا کے ہندوتوا کارڈ کے پیچھے ہوجاتی ہے جس کے لیے کانگریس نے اکثریتی طبقہ اور اقلیتی طبقہ پر دباو¿ بنانے کے لیے نرم ہندوتوا کو اپنے آپ میں ڈھالنے کی کوشش کی اور اقلیتوں پر ہونے والے مظالم پر کچھ حد تک خاموش بھی رہی، لیکن کانگریس کی یہ دو رخی پالیسی کامیاب نہیں رہی۔ پچھلے دو لوک سبھا الیکشن میں کانگریس علاقائی جماعتوں سے بھی پیچھے رہی جس کی اہم وجہ وہ اقلیتوں سے برتاو¿ میں جانبدار بنی ہوئی نظر آرہی تھی شائد کہ وہ اس زعم میں تھی کہ اقلیتیں کانگریس کو کبھی نہیں چھوڑ سکتیں لیکن ملک کی اقلیتوں نے کانگریس کو جو سبق سکھایا شائد اب وہ اس سے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہی ہے۔ بہت اچھی بات بھی ہے اگر کانگریس کی سوچ اس طرح سے بن چکی ہو۔
اس آٹھ سال میں جہاں بھاجپا عروج حاصل کرتی گئی وہیں کانگریس زوال کی سمت بڑھتی گئی۔ کانگریس کے زوال پذیر ہونے کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ کانگریس پارٹی میں بھی بہت سے ایسے چہرے تھے یا ہیں جو صرف اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کی سوچ رکھت ے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو کانگریس میں تو رہتے ہیں لیکن نظریہ آر ایس ایس کا رکھتے ہیں۔ کانگریس کو ایسے قائدین کی شناخت کرنی ہوگی اور انھیں باہر کا راستہ دکھانا ہوگا۔ خود کانگریس میں داخلی انتشار پیدا ہوا، کئی کانگریس کے سینئر قائدین کٹی پتنگ کی طرح پارٹی کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرلی۔ سوال یہ ہے کہ یہ انتشارپیدا ہوایا پیدا کیا گیا؟ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کانگریس کے زوال سے اپنی چمک دمک کھودینے کے خدشات کو لے کر پارٹی سے بے وفائی کی ہوگی۔ خیر جن حالات سے کانگریس گزررہی تھی اور پارٹی میں سیاسی بحران کے آثار نظر آرہے تھے کہ راہول کی بھارت جوڑو یاترا نے مضبوط ستون کے مترادف کام کیا۔اب سوال یہ تھا کہ کانگریس کو دوبارہ کیسے بحال کیا جائے؟اور کانگریس کا صدر کس کو بنایا جائے؟ اسی دوران ایک طرف راہول گاندھی صدارت کی کرسی کی پرواہ کیے بغیرملک کو جوڑنے اور پارٹی کو مضبوط بنانے کے لیے بھارت جوڑو یاترا میں انتھک جدوجہد کررہے ہیں جنھوں نے خود کانگریس کا صدر بننے سے بھی صاف انکار کردیا تھاتو دوسری طرف کانگریس کی کمان سنبھالنے کی بات چھڑی ہوئی تھی۔ پہلے پہل بات راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت پر آکررکی کہ گہلوت کو متفقہ طور پر صدر بنایا جائے لیکن اشوک گہلوت کو دونوں اقتدار سے ایک منتخب کرنا تھا یا تو وزیر اعلیٰ بنے رہیں یا کانگریس کے قومی صدر لیکن گہلوت دونوں عہدے حاصل کرنے کی تگ ودو کررہے تھے اور انھوں نے پارٹی سے باغیانہ تیور اپناتے ہوئے اراکین اسمبلی کو اپنی چاپلوسی کی بوتل میں اتارا۔ پر بعد میں انھوں نے سونیا گاندھی سے ملاقات کرتے ہوئے معافی بھی مانگی اور میڈیا کے روبرو آکر صدارتی عہدے سے دور رہنے کا ذکر کیا۔ یہ تو ایسے ہوا جیسے انھوں نے خود کے پیر پر کلہاڑی مارلی۔ لہٰذا ان کے اسی باغیانہ تیور سے انہیں قومی صدر کے عہدہ سے ہاتھ دھونا پڑا، لیکن بعد میں پارٹی نے طئے کیا کہ کانگریس کی صدارت کے لیے جمہوری طریقے سے انتخاب کیا جائے گا حالانکہ صدارت کی دوڑ میں کھرگے کا نام کہیں بھی شامل نہیں تھا، لیکن انتخابی عمل میں ششی تھرور اور کھرگے مقابلے میں آمنے سامنے آئے۔ اگرچہ کہ مقابلہ انتخابی تھا، لیکن گاندھی خاندان غیر محسوس طریقے سے کھرگے کی حمایت میں کھڑا تھا۔ بعد ازاں بھاری اکثریت سے کھرگے کو جیت حاصل ہوئی اور وہ 24 سال بعد کانگریس کے غیر گاندھی خاندان کے صدر منتخب ہوگئے جس کو ششی تھرور نے بھی قبول کیا اور کہا کہ کھرگے ایک سینئر اور تجربہ کار سیاستداں ہیں، ہم ان کی قیادت میں پارٹی کو مستحکم کریں گے۔ کانگریس کے حق میں یہ بڑی اچھی بات تھی کہ داخلی اختلافات کو پس پشت ڈال کر کھرگے کو تسلیم کرلیاگیا۔
ایک ایسے وقت میں کھرگے کے کندھوں پر کانگریس کا بوجھ ڈالا گیا جب کانگریس آزمائشوں کے دور سے گزر رہی ہے۔ قدم قدم پر کانٹے بچھے ہوئے ہیں اور ایک ایسے وقت ہی کھرگے کو کانٹوں بھرا تاج پہنادیا گیا۔ کھرگے کے لیے سب سے بڑا چیلنج 2024 کے لوک سبھا کے انتخابات ہیں کیوں کہ بھاجپا اس طبقہ پر مضبوط گرفت بنا چکی ہے جنھیں نہ بھوک پیاس محسوس ہوتی ہے نہ روزگار کی ضرورت ہے بلکہ صرف مذہب کا لبادہ اوڑھے ہوئے اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر ذہنی غلامی و اند بھکتی کا ثبوت دے رہے ہیں، جنہیں ملک کی غریبی نظر نہیں آتی جنھیں بھائی چارگی سے کوئی سروکار نہیں، جنھیں نہ مہنگائی سے کچھ لینا دینا ہے نہ دو کروڑ نوکریوں کے وعدے سے، بس دماغ میں ایک ہندوتوا کی چپ پیوسط کردی گئی جس کو وہ دن رات کا مشغلہ بنارکھے ہوئے ہیں۔ اگر کانگریس کے صدر پارٹی کو ابھارنا چاہتے ہیں تو ان کو ان سب چیلنجوں سے نمٹنا ہوگا۔ اگر کھرگے ملک کی اکثریت کو اس ذہنی اندبھکتی سے نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ان کے سر پر موجود کانٹوں بھرا تاج ہیروں کے تاج میں بدل جائے گا، لیکن اس سے بھی بڑا چیلنج کانگریس کے داخلی مسائل کو حل کرتے ہوئے تنظیمی ڈھانچہ کو مضبوط بنانا ہے جو کھرگے کے لیے مشکل ترین نہیں ہے۔ کھرگے کے لیے تیسرا بڑا چیلنج ہے کہ کیا وہ آزادانہ طور پر پارٹی کے فیصلے لے سکتے ہیں یا گاندھی خاندان کے ریموٹ بن کر ابھرتے ہیں، کیوں کہ عوام میں یہ چہ مہ گوئیاں عام ہورہی ہیں کہ وہ گاندھی خاندان کے اشاروں پر ہی فیصلے لیں گے۔ ہمارا خیال ہے کہ نہ صرف کھرگے کے لیے بلکہ پارٹی اور ملک کے لیے بھی گاندھی خاندان اہمیت کا حامل ہے، جن کے بغیر خود کانگریس بھی بےساکھی کی طرح ہے ۔ لہٰذا کھرگے کو چاہیے کہ وہ کسی کو مایوس کیئے بناء پارٹی اور ملک کے مفاد میں فیصلے لینے کی کوشش کریں۔ سچ کہیں تو راہول گاندھی بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ 2024 کے انتخابات کا آدھا کام کرچکے ہیں، باقی منظم سیاسی منصوبہ بندی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے بشرطیکہ ملک کی اقلیتوں کو ساتھ لے کر چلا جائے اور کانگریس کے لیے یہ بھی نفع بخش ثابت ہوگا کہ دو مضبوط بازوﺅں راہول گاندھی اور کھرگے کی محنت اور منصوبہ بندی سے وہ پھر سے میدان مار سکتی ہے۔ اب تو بھاجپا بھی یہ شکوہ کرنے سے گریز کرے گی کہ کانگریس پر گاندھی خاندان کا قبضہ ہے۔ بہر حال ایسے سنگین حالات میں کھرگے کو کانگریس کا کانٹوں بھرا تاج پہننا پڑا لیکن سوال یہی ہے کہ وہ اس کانٹوں بھرے تاج پر ثابت قدمی دکھاتے ہوئے کانگریس کو کس مقام تک پہنچائیں گے؟