محمد مصطفی علی سروری
عدنان عادل گذشتہ 32 برسوں سے پاکستان کے شہر لاہور میں پیشہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ان کا تعارف بی بی سی لندن کی اردو ویب سائٹ سے ہوا تھا۔ بات دراصل یہ تھی کہ بی بی سی لندن کی اردو ویب سائٹ نے ہندوستان میں شائع ہونے والی ایک کتاب کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی تھی۔ رپورٹ پڑھنے کے بعد پتہ چلا کہ بی بی سی کی اس رپورٹ کو بی بی سی کے نمائندے عدنان عادل نے لاہور سے لکھا ہے۔
پیشہ تدریس کو اختیار کرنے سے پہلے ہم بھی پیشہ صحافت سے جڑے ہوئے تھے۔ یہ اسی وقت کی بات ہے۔ جب بی بی سی پر ایک اسٹوری پڑھتے ہوئے میں نے دیکھا کہ اسٹوری دراصل ایک کتاب پر کی گئی تھی۔ جو ایک کانگریس کے لیڈر نے لکھی تھی۔ اس کتاب میں موجود مواد پر کتاب کی اجرائی سے پہلے ہی تنازعہ پیدا ہوگیا تھا۔ بحیثیت صحافی اور صحافت کے طالب علم میں نے اس بات کو نوٹ کیا کہ بی بی سی لندن کی اسٹوری ہندوستانی موضوع پر ہے لیکن اس اسٹوری کو عدنان عادل نے لکھا ہے جو کہ پاکستانی شہر لاہور سے بی بی سی کے لیے رپورٹنگ کرتے تھے۔ اپنی رپورٹ کے مصدقہ بنانے کے لیے عدنان عادل نے ہندوستان میں انگریزی کے مشہور اخبار دی ٹیلی گراف کے نمائندے رشید قدوائی سے ٹیلی فون پر بات کی تھی۔ چونکہ کتاب کی اشاعت کے حوالے سے جڑے کسی کام سے جناب رشید قدوائی کو مذکورہ کتاب کو پڑھنے کا موقع ملا تھا تو وہ اس آنے والی کتاب کے مواد کو اچھی طرح جانتے تھے۔ اس حیثیت سے انہوں نے کتاب کے متعلق عدنان عادل کو انٹرویو بھی دیا۔
اب ہمارے لیے چیالنج تھا کہ ہم شہر حیدرآباد میں رہتے ہوئے کیسے اس موضوع پر قلم اٹھائیں۔ ایک تو صورت یہ تھی کہ بی بی سی لندن کی رپورٹ کے حوالے سے کچھ لکھتے لیکن شرم اس بات کی ہوئی کہ موضوع ہندوستانی ہے اور ہم بھی ہندوستانی ایسے میں کیسے پڑوسی ملک کے ایک صحافی کو نقل کریں۔
خیر سے ان دنوں موبائل فون کا استعمال اس قدر عام تو نہیں تھا۔ پھر انٹرنیٹ کی مدد سے ہم نے پہلے تو ٹیلی گراف اخبار کا پتہ اور فون نمبر ڈھونڈ نکالا اور جب ایس ٹی ڈی کال کر کے کولکتہ میں ٹیلیگراف کے دفتر میں بات کی اور پوچھا کہ رشید قدوائی سے بات کرنی ہے تب ہمیں بتلایا گیا کہ کولکتہ کے دفتر میں تو کوئی رشید قدوائی نہیں ہیں البتہ دہلی کے آفس میں رشید قدوائی بحیثیت سینئررپورٹر کارگذار ہیں۔ تب ہم نے ان کا فون نمبر مانگا۔ یوں رشید قدوائی صاحب سے ہماری فون پر پہچان ہوئی اور ہم نے بھی ارجن سنگھ کی آنے والی کتاب کے مسئلے پر آرٹیکل لکھا۔
قارئین یوں رشید قدوائی جیسے سینئر صحافی سے ہماری شناسائی ہوئی۔ اب مزید یہ بھی جان لیجئے کہ رشید قدوائی کس قدر سینئر ہیں اور دہلی جیسے شہر میں ٹیلیگراف اخبار کے نمائندے کے طور پر کام کیا کرتے تھے۔
صحافت کے طلبہ جیسا کہ جانتے ہیں کہ میدان صحافت میں اخبارات اور ٹیلی ویژن چیانلس خبروں کے حصول کے لیے اپنے اپنے نمائندوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور ساتھ میں خبر رساں اداروں پر بھی انحصار کرتے ہیں۔
خبروں کے حصول کے لیے کسی رپورٹر کو تفویض کیا جانے والا شعبہ وزارت، محکمہ اور موضوع اس رپورٹر کی (Beat) کہلاتا ہے۔ ایسے ہی رشید قدوائی صاحب نئی دہلی میں کانگریس کا کوریج کیا کرتے تھے۔
قارئین جب رپورٹر کسی موضوع، محکمہ، وزارت یا شعبہ سے رپورٹنگ کرتے ہوئے طویل وقت گذار دیتا ہے تو اس رپورٹر کو متعلقہ Beat میں اور موضوع پر کام کرنے کا کافی تجربہ اور مہارت حاصل ہوجاتی ہے۔
رشید قدوائی صاحب نے ٹیلی گراف اخبار میں اسوسی ایٹ ایڈیٹر کی ذمہ داریاں نبھائیں اور آج وہ اپنی (Beat) کانگریس، کانگریس قائدین سونیا گاندھی کے حوالے سے بھی ایک معتبر اور ماہر تجزیہ نگار کے طور پرجانے جاتے ہیں۔
سوانح نگاری عام طور پر ایسا میدان تسلیم کیا جاتا رہے جہاں پر بہت ہی کم صحافی حضرات شہ سواری کرتے ہیں۔ مگر جناب رشید قدوائی نے اس میدان میں طبع آزمائی کرتے ہوئے ثابت کیا کہ سنجیدہ صحافی کسی بھی موضوع کے ساتھ انصاف کرسکتا ہے۔ رشید قدوائی کا شمار ایسے صحافیوں میں ہوتا ہے جنہیں وراثت میں صحافیت کے جراثیم ملے تھے۔ انہوں نے صرف اسی خاندانی پس منظر پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ برطانیہ کی یونیورسٹی آف بسٹر سے ماس کمیونکیشن کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے کامن ویلتھ انڈیا اسکالر شپ بھی حاصل کی۔ ان کا شمار ایسے صحافیوں میں کیا جاتا ہے جنہوں نے صحافت کو پوری سنجیدگی کے ساتھ ایک پروفیشن کے طور پر اپنایا اور انگریزی کی قومی صحافت میں اپنے لیے ایک خاص مقام بنایا۔ ان کا شمار ایسے مسلم صحافیوں میں بھی کیا جاسکتا ہے جو کہ انگلش میڈیا میں صرف مسلم اقلیتی موضوعات پر ہی قلم نہیں اٹھاتے ہیں بلکہ علاقائی، قومی اور بین الاقوامی موضوعات حالات اور واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
قارئین کرام رشید قدوائی کے متعلق اتنی ساری تفصیلات اب اس وقت درج کرنے کا مقصد کیا ہے تو یہاں یہ بتلانا ضروری ہے کہ حالیہ عرصے میں نئی دہلی میں کانگریس کی سینئر لیڈر محترمہ محسنہ قدوائی کی ایک کتاب کی رسم اجراء انجام پائی۔
’’ہندوستانی سیاست اور میری زندگی‘‘ اس کتاب میں محسنہ قدوائی کی کہانی رشید قدوائی کی زبانی تحریر کی گئی ہے۔
محترمہ محسنہ قدوائی گذشتہ چھ دہائیوں سے انڈین نیشنل کانگریس کی رکن کے طور پر عوامی زندگی میں مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے مرکزی حکومت میں ایک سے زائد مرتبہ کابینی وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام ویں وہ جواہر لعل نہرو سے لے کر اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی تک سبھی وزرائے اعظم کے دور کو دیکھ چکی ہیں اور ان میں اکثر شریک کار بھی رہی ہیں اور سب سے خاص بات یہ کہ 1951ء سے لے کر 2016ء تک لوک سبھا کے لیے منتخب ہونے والی مسلم خواتین کی تعداد 20 ہے اور ان ہی میں سے محسنہ قدوائی ایک ہیں۔
جب کانگریس کی اس قدآور مسلم خاتون رہنماء نے اپنی سوانح عمری لکھنے کا ارادہ کرتی ہیں تو ان کی نظر انتخاب جناب رشید قدوائی پر ہی ٹکتی ہے۔
رشید قدوائی صاحب یوں سمجھ لیجئے کہ کانگریس پارٹی اور کانگریس قائدین کے لیے کوئی نیا نام نہیں ہیں۔ اس سے قبل سال 2008ء میں ان کی کتاب سونیا گاندھی کو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی طرف شائع کیا گیا تھا۔ سونیا گاندھی کی زندگی پر لکھی جانے والی وہ ایک جامع کتاب مانی جاتی ہے۔ ہندوستانی سیاست کی بڑی بڑی شخصیات پر قلم اٹھانے کے لیے انہیں تحریک اور مواد کہاں سے ملتا ہے۔ اپنی ایک کتاب سونیا ایک سوانح میں وہ لکھتے ہیں۔
’’میں کانگریس پارٹی کے ممبروں کی بڑی تعداد کا ممنون ہوں جنہوں نے مجھے سونیا کی شخصیت کو سمجھنے اور کانگریس پارٹی میں ان کے کام کرنے کے طریقوں اور ان کی معاملہ فہمی کے بارے میں بڑے کارآمد مفید اور دلچسپ مشورے دیئے ہیں۔
عام طور پر صحافی حضرات جب کسی سیاسی جماعت پر بطور Beat کوریج کرتے ہیں تو وہ صرف قائدین اور پارٹی کے عہدیداروں سے ہی رابطے میں رہتے ہیں لیکن یہ رشید قدوائی صاحب کی کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک اچھے صحافی کو سیاسی جماعتوں کے عام کارکنوں سے بھی بہت سارا مواد اور بہت سارے معلومات مل سکتی ہیں۔
محسنہ قدوائی کی کتاب کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس 278صفحات کی کتاب میں ہر موضوع قابلِ مطالعہ ہے۔ اس کا انداز تحریر قاری کی توجہ کو باندھ کر رکھتا ہے۔ کتاب کو جملہ سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلے باب میں محسنہ قدوائی کے میدان سیاست میں سفر کے آغاز سے کہانی شروع ہوتی ہے اور ساتویں باب میں یادیں اور تاثرات کے عنوان کے تحت اپنے ہم عصر ساتھی اور مخالفین پر قلم اٹھایا گیا ہے۔
کانگریس کی مسلم قیادت پر آئے دن سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ صرف ہائی کمان کے تابع ہوتے ہیں۔ محسنہ قدوائی کی زندگی پر مبنی اس کتاب کو جسے برائون پبلشر پرائیویٹ لمیٹڈ، علی گڑھ نے شائع کیا ہے پڑھنے کے بعد قاری نہ صرف کانگریس پارٹی کے اقلیتی قائدین کے انداز کار کو سمجھ سکتے ہیں۔ بلکہ آزادی کے بعد سے لے کر اب تک پیش آنے والے اہم سیاسی واقعات کے دوران پارٹی کی اندرونی سیاست کیسے کام کرتی رہی کی جھلک بھی ہمیں مل جاتی ہے۔
حالات حاضرہ اور اہم سیاسی موضوعات پر انگریزی اور دیگر علاقائی زبانوں میں تو آئے دن کتابیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اردو زبان میں ایسی کتابیں بہت کم ہیں اور رشید قدوائی کی زبانی محسنہ قدوائی کی اردو زبان میں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں مگر قاری ماضی کے واقعات کو پڑھ کانگریس کے مستقبل خاص کر راہول گاندھی کی سیاست کو بھی سمجھنے میں سہولت محسوس کرے گا۔
یہ کتاب صحافی حضرات، کانگریس پارٹی سے دلچسپی رکھنے والے اصحاب، ملک کے موجودہ حالات کو سمجھنے کے طلب گار اور صحافت کے طلبہ کے لیے یقینا دلچسپ ثابت ہوگی۔
کتاب کی قیمت پانچسو روپئے رکھی گئی اور اس کو اردو کے بیشتر بڑے بک ڈپوز سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
محسنہ قدوائی ایسے زمانے کی سیاست داں ہیں جب بطور مسلم امیدوار وہ اعظم گڑھ سے بھی الیکشن جیت پاتی ہیں اور مغربی اترپردیش میروت سے بھی الیکشن جیتی ہیں۔
خود بہت سارے سیاست داں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی ایک سیاست داں اگر اعظم گڑھ سے الیکشن جیت سکتا ہے تو میروت سے اس کا الیکشن جیتنا ممکن نہیں یا آسان نہیں۔
جس طرح سے سیاسی قدروں میں تبدیلیاں آگئی ویسے ہی میدان سیاست میں قائدین کے رویوں اور سونچنے کے انداز بدل گئے ہیں۔ بقول رشید قدوائی حالانکہ محسنہ قدوائی ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں لیکن سیاسی حلقوں میں ان کا مسلمان ہونا کبھی بھی کوئی مسئلہ نہیں بنا۔ انہیں ہمیشہ ایک ہندوستانی کی حیثیت سے دیکھا گیا۔
ان کی سیاسی ٹیم میں ہر مذہب اور فرقہ کے لوگ تھے۔ جن کے ساتھ مل کر انہوں نے کئی برسوں تک میدان سیاست میں کامیابی کا پرچم بلند کیے رکھا۔ اکتوبر 2022ء میں جب محسنہ قدوائی کی کتاب کا انگریزی ایڈیشن جاری کی گئی تو اس کی تقریب رسم اجراء میں انہوں نے ایک بات کہی تھی جس کو ہندوستان ٹائمز اخبار نے شہ سرخی کے ساتھ شائع کیا تھا کہ ’’کانگریس کو کوئی بھی ختم نہیں کرسکتا ہے۔ پارٹی کی موجودہ صورت حال بھی بدلے گی۔‘‘ یقینا کانگریس کی کہانی ابھی باقی ہے۔ اس کا صحیح جواب آنے والا وقت ہی دے سکے گا۔
خواہشمند احباب اس دلچسپ کتاب کا خود مطالعہ کرسکتے ہیں جو اردو میں بھی دستیاب ہے۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں) ۔[email protected]