کرناٹک

کرناٹک کے اسکولوں و کالجوں میں بھگود گیتا پڑھانا زیرغور

کرناٹک کے وزیر تعلیم بی سی نگیش نے پیر کے دن اعلان کیا کہ ریاستی حکومت‘ ریاست بھر کے اسکولوں اور کالجوں میں جاریہ تعلیمی سال سے بھگود گیتا پڑھانے پر غور کررہی ہے۔

بنگلورو: کرناٹک کے وزیر تعلیم بی سی نگیش نے پیر کے دن اعلان کیا کہ ریاستی حکومت‘ ریاست بھر کے اسکولوں اور کالجوں میں جاریہ تعلیمی سال سے بھگود گیتا پڑھانے پر غور کررہی ہے۔

انہوں نے اسمبلی اجلاس میں ایک سوال کے جواب میں یہ بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ ہم جاریہ تعلیمی سال سے بھگود گیتا پڑھانا شروع کرنے پر غور کررہے ہیں۔ اسے مورل سائنس کے مضمون کے تحت پڑھایا جائے گا۔ بات چیت جاری ہے۔ ایک کمیٹی بنے گی اور ہم عنقریب فیصلہ کریں گے۔

بی جے پی کے رکن قانون ساز کونسل ایم کے پرنیش نے سوال کیا تھا کہ حکومت کہتی ہے کہ کرناٹک کے طلبا کو بھگود گیتا پڑھانے کی کوئی تجویز نہیں ہے۔ کیا حکومت کو اس میں کوئی پس و پیش ہے؟ حکومت نے پہلے جو دلچسپی دکھائی تھی وہ کیوں ختم ہوگئی؟۔

امکان ہے کہ یہ مسئلہ تنازعہ پیدا کرے گا کیونکہ مختلف اقلیتی گروپس اور افراد نے نگیش کے پچھلے اعلان پر مخالفت کی تھی۔ نگیش نے قبل ازیں کہا تھا کہ نیشنل ایجوکیشن پالیسی(این ای پی) کے مطابق ریاست ِ گجرات کے خطوط پر کرناٹک میں بھگود گیتا متعارف کرائی جائے گی۔ اس کے لئے ماہرین تعلیم سے صلاح و مشورہ کیا جائے گا۔

چیف منسٹر بسواراج بومئی نے کہا تھا کہ ان کی حکومت کا موقف ہے کہ بھگود گیتا کو مورل سائنس کے مضمون کے تحت نصاب میں شامل کیا جائے۔ وزیر بھاری و متوسط صنعتیں مروگیش نیرانی نے کہا کہ بھگود گیتا میں انسانی اقدار ہیں اور بچوں کو یہ اقدار سکھانے کی ضرورت ہے۔

حکومت ِ گجرات فیصلہ کرچکی ہے اور کرناٹک میں بھی یہ فیصلہ ہونا چاہئے تاہم سینئر کانگریس قائد اور سابق وزیر تنویر سیٹھ (میسورو) نے یہ کہہ کر تنازعہ پیدا کردیا کہ نصاب میں بھگود گیتا متعارف کرانا کووِڈ وباء سے زیادہ خطرناک ہے۔

سابق چیف منسٹر ایچ ڈی کمارا سوامی نے ریاستی حکومت کی تجویز پر سوال اٹھایا اور کہا کہ بھگود گیتا پڑھانے سے پیٹ بھرنے والا نہیں۔ ریاست کو ہزاروں مسائل کا سامنا ہے۔ بھگود گیتا پڑھانے سے عوام کو کھانا ملنے والا نہیں۔ ملک میں جذباتی معاملات اہمیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ بھولے بھالے لوگوں کو گمراہ کیا جارہا ہے۔

اپوزیشن قائد سدارامیا نے کہا کہ ہم ہندو دھرم کو مانتے ہیں اور دیگر مذاہب کا مساوی احترام کرتے ہیں۔ ہمیں بچوں کو بھگود گیتا‘ بائبل‘ قرآن پڑھانے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بچوں کو معیاری تعلیم دی جانی چاہئے۔