منور مرزا
آج دنیا کا کوئی ملک اپنے حالات سے خوش اور مطمئن نظر نہیں آتا۔ امیر ترقی یافتہ ممالک کے باسی اُن اچھے دنوں کو یاد کررہے ہیں، جو رواں صدی کے آغاز میں انہوں نے دیکھے تھے کہ ملینیم کے آغاز میں ابھرتی معیشتیں انہیں ترقی یافتہ دنیا میں شامل کررہی تھیں۔ غریب ممالک گرچہ کسی شمار و قطار میں نہیں تھے، لیکن پہلے کم ازکم وہ اس آس اور امید پر جدوجہد کر رہے تھے کہ کبھی تو حالات بدلیں گے۔ درحقیقت ان سب خوابوں کو عالمی وباءکورونا اور پھر یوکرین کی ناگہانی جنگ اور اس سے پیدا ہونے والی مہنگائی نے چکناچور کیا۔ تاہم، اس تناظر میں زیادہ تر وہ لوگ سوچتے ہیں، جو دنیا کو ایک خاص زاویے سے دیکھتے ہیں، حقیقتاً دنیا کو اس مشکل میں ڈالنے میں کئی عوامل نے اہم کردار ادا کیا اور جو یقینا یک دم پیدا نہیں ہوئے، بلکہ ان کے یک جا ہوکر موثر ہونے میں کم ازکم 80 سال لگے۔ یہ تیز رفتار ترقی کی قیمت کے علاوہ توانائی کے سستے ذرایع سے کام چلانے کی قیمت بھی ہے اور یہ کسی ایک قوم یا ملک کا قصور نہیں، بلکہ اس دنیا میں بسنے والے ہر شخص کی لاپروائی کا نتیجہ ہے۔
ان عوامل میں سرفہرست تو آبادی میں ہوش ربا اضافہ ہے۔ دوم، موسمیاتی تبدیلیاں اور سوم، معاشروں میں ایک بار پھر قومیتوں کا ابھرنا بھی شامل ہے۔ اگر گزشتہ صدی کی آبادی کا موجودہ صدی کے بائیس سال سے موازنہ کیا جائے، تو اندازہ ہوگا کہ یہ دگنی ہوچکی ہے۔ یعنی اس وقت دنیا کی آبادی ساڑھے سات ارب سے زیادہ ہے۔ صرف چین اور ہندوستان میں دو ارب ساٹھ کروڑ افراد بستے ہیں۔ زمین اور اس کے وسائل تو جتنے تھے، اتنے ہی رہے، البتہ آبادی میں اضافے سے خوراک کی قلت ضرور پیدا ہوگئی، اسی لیے ہر وقت کہیں نہ کہیں سے خوراک کی کمی کا شور سنائی دیتا ہے۔
ایک طرف آبادی بڑھنے سے لوگوں کے لیے رہنے کی جگہ کم سے کم ہوتی جارہی ہے، دوسری طرف موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بھی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ حالاں کہ دنیا بھر کے سائنس دان اس عفریت سے مقابلے کے لیے نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے توجہ اوراحساس دلارہے ہیں، اس کے باوجود حکومتیں اور سب سے بڑھ کر عوام معاملے کی حساسیت اور سنجیدگی سمجھنے پر آمادہ نہیں۔ اب جب کہ برطانیہ اور یوروپ میں گرمی ٹراپیکل ممالک کے برابر ہورہی ہے۔ عرب ممالک کے صحراﺅں میں سیلابی صورت حال پیدا ہونے لگی ہے، گلیشیئرپگھلنے سے شہر کے شہر غرق ہورہے ہیں، تو عقل ٹھکانے آرہی ہے۔ تیسری انتہائی خطرناک بات یہ ہے کہ انسانی رویوں میں مثبت تبدیلیوں کی جگہ منفی رجحانات فروغ پانے لگے ہیں، حالاں کہ دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد دنیا کھلنے لگی تھی اور یوں محسوس ہورہا تھا کہ دنیا سب کی ہے، ملک تو صرف جغرافیائی سرحدیں متعین کرنے کے لیے ہیں۔ یوروپی یونین کے قیام کا مقصد بھی یہی تھا، گلوبلائزیشن اس کی سرخیل تھی، کیوں کہ اس کے ذریعے معاشرتی مفادات، معاشی ضرورتوں سے منسلک ہوگئے تھے، لیکن موجودہ صدی کے دس سال گزرنے کے بعد ایک بار پھر وہی رویہ اختیار کیے جانے لگے ہیں۔ قوموں میں برداشت کم ہورہی ہے، قومیت فروغ پانے لگی ہے اور اس تمام تر صورت حال میں سب سے خطرناک بات یہ ہوئی کہ معاشی تحفظات یعنی protectionalism نے اس کی جگہ لے لی اور ”دنیا سب کے لیے ہے“ کا نظریہ پھر سے اس نظریے کا تابع ہونے لگا کہ ”نہیں، ہمارا ملک اور قوم اول، باقی سب اس کے بعد۔“ اس تصور کے بعد کچھ ممالک اور قوموں کو ہر ملک دشمن نظر آنے لگا ہے، سازشی تھیوریز پھر مقبول ہورہی ہیں اور اب تو اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی انہیں شیئر کرتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کی تعصب پر مبنی بکواس پر صرف کان ہی نہیں دھرتے بلکہ بڑے مدلّل الفاظ میں لوگوں کو ان پر اعتبار پر مجبور بھی کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ اگر دنیا کا ہر ملک دوسرے کے لیے دروازے بند کر بیٹھا، تو اس دنیا کا انجام کیا ہوگا۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اس تناظر میں تنگ نظر لیڈرز کو مقبولیت مل رہی ہے اور وہ اقتدار کے لیے ہر چیز کو داﺅ پر لگارہے ہیں۔ سب سے حیرت انگیز اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ رجحان ان ہی ممالک اور خطوں میں پروان چڑھ رہا ہے، جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ رجحان ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ہلکی پھلکی نظریاتی جنگیں سرد جنگ کی شکل میں چلتی رہیں، لیکن اس میں کسی ایسے عنصر نے دخل اندازی نہیں کی، جو اس چلتے ہوئے نظام کو تلپٹ کرکے رکھ دے۔ سوویت یونین اپنے سوشلسٹ نظام میں مگن تھا، جب کہ امریکہ اور مغرب سرمایہ دارانہ نظام میں خوش تھے۔ چین آہستہ آہستہ انقلاب سے نکل کر معاشی ترقی کے ذریعے دنیا سے نمٹ رہا تھا، جب کہ سوویت یونین بکھرنے کے بعد دنیا کے جاری نظام میں کوئی بڑا انقلاب یا تبدیلی نہیں لاسکا۔ ان کا یونی پولر سسٹم کی طرف آناخاصا پُرامن رہا، کیوں کہ اس میں کسی عالم گیر جنگ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ سوویت روس اور مغرب میں کوئی جنگ نہیں ہوئی، بلکہ ان کا مقابلہ نظریاتی تھا اور اس نظریاتی جنگ میں مواصلاتی ٹیکنالوجی نے اہم کردا ادا کیا۔ اس وقت، جب کہ مشرقی اور مغربی یوروپ پھر سے ایک ہوچکے ہیں، توسرمایہ دارانہ نظام، بلکہ معیار زندگی کو بہتر بنانے کی حقیقت کمیونسٹ نظریے کی ہم آہنگی پر غالب ہے اور اس حوالے سے خاص طور پر مغربی جرمنی نے اہم کردا ادا کیا کہ اس نے اپنے پس ماندہ مشرقی حصے کو نہ صرف سیاسی طور پر قبول کیا، بلکہ اعلیٰ انسانی روایات کی پاس داری کرتے ہوئے وہاں کے عوام کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے اور پھر دونوں بھائیوں کی طرح مل کر یوروپ کی ترقی میں جٹ گئے۔ اسی تناظر میں یہ جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ جرمنی میں آج کل ہو کیا رہا ہے، کیوں کہ برسلز یوروپی یونین کا ہیڈکوارٹر تھا، چانسلر انجیلا امرکل کے دور اقتدار میں سارے یوروپ کے فیصلے یہیں سے ہوتے رہے۔ جرمنی میں پہلی تبدیلی تو خود مرکل کے زمانے میں دیکھی گئی، جب انہوں نے پناہ گزینوں کے سلسلے میں ایک سخت پالیسی اپنائی۔ انہوں نے شام کے پناہ گزینوں کے لیے دروازے کھولتے ہوئے مشہور الفاظ wir shafen das (ہم انھیں سنبھال سکتے ہیں) کہے، جو اس وقت کی جرمن پالیسی کے عکاس تھے۔ اسے برطانیہ اور دوسرے یوروپی ممالک نے نہ صرف بہت پسند کیا، بلکہ واہ واہ کے ڈونگرے بھی برسائے، کیوں کہ بظاہر وہ نہیں چاہتے تھے کہ لاکھوں کی تعداد میں آنے والے خانماں برباد افراد ان کی معیشت پر بوجھ بن جائیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ بھی تھا کہ روس کے صدر پوٹن اور ایرانی حکومت نے بشار الاسد کا جس طرح ساتھ دیا، پھر عرب اور ترکی پسپا ہوئے، اس کے بعد ان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ جرمن ایک مختلف قوم ہے، انہیں اپنے اوپر بہت فخر ہے، اورپھرتاریخ بتاتی ہے کہ جرمنی نے یوروپ سے باہر کے کسی ملک کو فتح کیا، کالونیاں بنائیں اور نہ ہی باہر کے لوگوں کو قبول کیا۔ وہاں صرف جرمن قوم ہے اور جرمن زبان کے علاوہ کوئی دوسری زبان بولی جاتی ہے، نہ سنی جاتی ہے۔ شاید ہی وہاں کہیں کوئی انگریزی سائن بورڈ ملے۔ مشرقی جرمنی کے مغربی جرمنی سے انضمام کے بعد ان کے دل تو ایک ہوگئے، لیکن روسی زبان بولنے والے جرمنز کی بھی ایک بڑی تعداد ملک میں آبسی۔ خود مرکل، جنہوں نے ایک طویل عرصے تک جرمنی کی قسمت کا فیصلہ کیا، مشرقی جرمنی کے ایک روسی زبان بولنے والے پادری کی صاحب زادی ہیں۔ ان کے متعلق عام طور پر کہا جاتا تھا کہ وہ روس کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں، اسی لیے جب امریکہ اور روس کے درمیان حد سے زیادہ تناو¿ بڑھ جاتا، تو وہی پوٹن کے ساتھ مل کر معاملات کو سنبھالتی رہیں۔ جرمنی رواں برس کے صرف چھ ماہ، یعنی فروری سے اب تک بہت تبدیل ہوچکا ہے۔ مرکل کے سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے جانشیں اولف شلز جرمنی کی ترقی کے تسلسل کو تو جاری رکھنا چاہتے ہیں، لیکن وہ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ ان کے ملک کی ترقی مغرب اور امریکہ سے منسلک ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر جرمنی یوروپ کو لیڈ کرتا ہے، تو اس کی سمت بھی یہی ہوگی۔ اولف شلز اس کا واضح اشارہ یوکرین کی جنگ کے فوراً بعد ہی دے چکے ہیں اور انہیں اپنے اتحادیوں کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے، جن میں ”گرین پارٹی“ اور ”لبرل“ شامل ہیں۔
انہوں نے تین بنیادی تبدیلیوں کا اعلان روسی ٹینکوں کے یوکرین میں داخل ہونے کے چار دن بعد ہی کردیا تھا۔ اول یہ کہ جرمنی، یوکرین کی آخر دم تک ہر میدان میں حمایت کرے گا۔ دوم، روس پر پابندیاں لگا کر اسے اس حملے کی سزا دے گا اورسوم، اپنی افواج کی تعداد میں اضافہ بھی کرے گا۔ گرین پارٹی اور لبرل جیسے اتحادیوں کے ساتھ اس پالیسی پر عمل یقینا ایک ہمہ جہت قومی ہم آہنگی کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یوکرین کی کھل کر فوجی اور مالی امداد بھی کی۔ نیز، اولف شلز نے روس کے ساتھ گیس کی درآمد کے حوالے سے اپنی تجارتی پالیسی بھی تبدیل کردی ہے۔ جرمنی کی یہ جارحانہ پالیسی یقینا صدر پوٹن کے لیے حیرت اور تشویش کا باعث ہے۔
جرمنی، ٹیکنالوجی کے اعتبار سے پوری دنیا کا لیڈر ہے، اسے کسی بھی طور کم تر سمجھنا بھول ہوگی۔ صرف اتنا ہی یاد رکھنا کافی ہے کہ آئن اسٹائن جرمنی میں پیدا ہوا۔ جرمنی کے سولر اور ایٹمی انرجی پلانٹ دنیا میں تعداد اور صلاحیت کے اعتبار سے اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر جرمنی اور یوروپ نے متبادل انرجی کا فیصلہ کرلیا، تو روس کے لیے اس کے سامنے ٹھہرنا آسان نہ ہوگا۔ وہ چین اور ہندوستان پر انحصار کررہا ہے۔ یہ دونوں بڑے ممالک پابندیوں کے باوجود اس کا ساتھ تو دے رہے ہیں، لیکن کس قیمت پر؟
یوروپی اقوام نے نہ صرف دو عالمی جنگوں کی تباہ کاریاں دیکھیں، بلکہ شدید ترین سردیوں کا سامنا بھی کیا ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں ہٹلر کو سب سے تباہ کن شکست روس سے ہوئی تھی۔ اسٹالن گراڈ کا نو سو دنوں کا جرمن فوجوں کا محاصرہ بربادی کی ایک طویل داستان ہے۔ فوجی لحاظ سے محاصرے کے دوران جتنے افراد سردی سے ٹھٹھرکر ہلاک ہوئے، اتنے شاید پوری عالمی جنگ میں بھی نہیں ہوئے۔ فوجی ماہرین کا کہنا تھا کہ ہٹلر کی فوجی ناکامیوں کا اصل آغاز اسٹالن گراڈ ہی سے ہوا تھا۔
وہ تو خیرماضی تھا، تاہم، اب جرمنی نے جس طرح اپنی فوجی قوت میں اضافے کا عندیہ دیا ہے، وہ چونکا دینے والا ہے، خصوصاً روس کے لیے۔ اس نے اپنا پچاس بلین یورو کا فوجی بجٹ بڑھا کر فوری طور پر سو بلین یورو کردیا۔ یاد رہے، صدر بائیڈن نے اپنے ڈھائی سالہ اقتدار میں ناٹو کے دو اجلاسوں میں نہ صرف شرکت کی، بلکہ اسے مزید فعال، جارحانہ اور جدید بنانے پر بھی توجّہ دی۔ ناٹو کا حلقہ یوروپ سے جنوب ایشیاتک پھیلا ہوا ہے اور اس نے گزشتہ تیس برسوں میں افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں بڑی کارروائیاں کی ہیں۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ اور مغربی ایشیا سے جنوب مشرقی ایشیا شفٹ ہوچکا ہے۔ فوجی ماہرین کا خیال ہے کہ صدر پوٹن اور ان کے فوجی ماہرین تیزی سے اس خلا کو پُر کرنے کے لیے یوکرین کے ذریعے آگے بڑھے، لیکن انہیں جواباً مزاحمت کا سامنا کرنا پڑااور چھ مہینے بعد بھی بنیادی ہدف پورا نہیں ہوسکا۔ یوں لگتا ہے کہ امریکہ میں بریگزٹ کے بعد کم ازکم فوجی سربراہی کی ذمہ داری جرمنی کے سپرد کی جارہی ہے کہ اس کے پاس اقتصادی طاقت بھی ہے، ٹیکنالوجی اور افرادی صلاحیت بھی۔
اب ہم اس سوال پر واپس آتے ہیں کہ دنیا کی خوش حالی کا کیا ہوا، جو اس صدی میں عروج کو پہنچی، تو کورونا اور اس کے بعد کی دنیا کچھ انقلابی فیصلے کرچکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کا دوسری بڑی طاقت ہونا امریکہ اور مغرب کے لیے پریشان کن ہے، لیکن اس نے چین کے مقابل جاپان اور ہندوستان کو کواڈ فورم کے ذریعے کھڑا کرنے کی تیاری بھی کی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ اس میں کام یاب ہوتا ہے۔ دوسری طرف روس جسے وہ اپنا دشمن نمبر ایک کہہ رہا ہے، اس کے لیے ناٹو کو بہت فعال کیا گیا ہے۔ چھوٹے ممالک جو نائن الیون کے بعد دہشت گردی کو بڑا مسئلہ سمجھ رہے تھے، وہ غلط فہمی میں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ فوجی جتھے اور ملیشیاز بڑی طاقتوں کو ہلادیں گی، مگر الٹ ہوگیا۔ اب خود چھوٹے ممالک اس دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہورہے ہیں۔ افغانستان اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ عراق، افغانستان اگرچہ آزاد تو ہیں، لیکن کس حال میں ہیں، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ایران کے بارے میں عندیہ ہے کہ وہ عرب دنیا سے دوستی کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ بھی کرے گا، جب کہ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں چوکیدار کا مقام دیا گیا ہے، جس پر ترکیہ سے عرب اور افریقہ تک راضی ہیں۔ یہ سوال اب شاید چھوٹے ممالک کے لیے اتنا اہم نہیں کہ کون کس طرف جارہا ہے، کیوں کہ ہر ملک دوستی اور دشمنی بھول کر اپنے اپنے معاشی حالات مستحکم کرنے پر توجہ دے رہا ہے۔ اب خارجہ پالیسی کے منیجرز کو یہ فیصلہ نہیں کرنا کہ کس کا ساتھ دینا ہے، بلکہ یہ طے کرنا ہے کہ اپنے عوام کے لیے خوش حالی کی راہیں کہاں سے تلاش کی جائیں۔