طنز و مزاحمضامین

کچھ اخلاقی کچھ غیر اخلاقی

نصرت فاطمہ

جب یہ اخلاقی اصول ہمارے زیر مطالعہ آئے تو ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ہمارے قارئین کو ان سے مستفید کیا جائے.. چونکہ ہم اصولوں کی دھجیاں اڑانے والوں کی قوم سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے بر سبیل تذکرہ ہم جیسوں کا بھی ذکر خیر ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
1 )کسی شخص کو مسلسل دو بار سے زیادہ کال مت کریں۔۔ اگر وہ آپ کی کال نہیں اٹھاتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی اور ضروری کام میں مصروف ہیں۔
”بڑے لوگاں بھائی، کیکو ا ٹھاتے فون۔ ہمارکو کاماں نئیں ہیں ناں جو ہم یاد کرے آپ کو“
”سوتے رہتے جی، سب ہمارے جیسے رہتے.. ہم تو سوتے اچ نئیں۔“ (نہیں آپ کو تواقوام متحدہ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے)
2) کسی سے لی گئی ادھار رقم یا ان کی مزدوری ان کے یاددلانے سے پہلے ادا کردیں۔۔ 1 روپیہ ہو یا 1 کروڑ، یہ آپ کے کردار کی پختگی دکھاتا ہے۔
” ارے دے دینگے جی کہاں جارے پیسے.. ابھی تھک کے آئے شاپنگ سے۔ کل نئیں تو پرسوں آجاو¿۔“
”ایسا جان پہ آرے کیا.. چار پیسے دے کے اتّا احسان؟ ( مت بھولیں کہ آپ کی ضرورت پر چار پیسے کی مدد معمولی بات نہیں اور آپ کی شاپنگ سے زیادہ اہم کسی غریب کی مزدوری ہے)
3) کسی کی دعوت پر مینو پر مہنگی ڈش کا آڈر نہ دیں۔۔ اگر ممکن ہو تو ان سے پوچھیں کہ آپ کے لیے کھانے کا اپنی پسند کا آڈر دیں۔
”یہی موقع ہے ، آج ہاتھ لگے آپ۔ کوئی بڑی زبردست ”پوش“ ہوٹل کو جائیں گے جی۔ جہاں پہ چائے اچ سو روپے میں ملتی اور ایک پلیٹ بریانی ہزار روپے کی۔ کھلائے تو ایسی جگہ کھلانا۔نئیں؟
(لیجیے آپ جناب فیصلہ بھی کرچکے اور اس پر یہ تائیدی انداز.. اب بیچارے کے پاس چارہ ہی کیا ہے)
4) مختلف سوالات کسی سے مت پوچھیں جیسے ‘اوہ تو آپ ابھی تک شادی شدہ نہیں ہیں’ یا ‘آپ کے بچے نہیں ہیں’ یا ‘آپ نے گھر کیوں نہیں خریدا؟’ خدا کے لیے یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے۔۔("ارے کب سے دیکھ رے جی رشتے، جلدی پسند کرلینا کوئی تو بھی۔ فلاں کی بچی کو دیکھے۔ شادی ہوگئی پرسوں۔ باہر سے آئے بھی رشتہ بھی دیکھ لیے، پسند کرکے فٹافٹ شادی بھی کردیے۔ آپ لوگاں کیا اتّا دیکھرے۔“
”ارے چار سال ہوتے نیں آپ کی شادی کو؟ فلانے کی بھی جب ہی ہوئی تھی، اب دیکھو دو بچے ہیں ان کو۔ علاج کراو جی۔“
”کرائے کا گھر اچ ہے اب تک؟ ذاتی نیں بنائے؟ یہ وہ فضول خرچی بہت کرتے بھئی آپ لوگ، فلانے کو دیکھو۔ معمولی نوکری تھی مگر آج بنگلہ بنالیے سکون سے۔“
(اب بندہ پوچھے ان سے جو یہ سارے مسائل کسی مجبور سے پوچھ پوچھ کر اس کی پریشانی میں مزید اضافہ کرکے نیند ا±ڑا دینے کا سبب بنتے ہیں۔)
6) اگر آپ کسی دوست کے ساتھ ٹیکسی لے لیں ، اورکرایہ وہ ادا کرتا ہے تو آپ اگلی بار ادا کریں یا مل بانٹ کر ادا کریں!
”چِلّر ہے آپ کے پاس؟ پانچ سو کی نوٹ ہے۔ آپ دے دو ابھی تو….“
(خدا کرے کہ آپ کی پانچ سو کی نوٹ کا افتتاح ہو ہی جائے آج)
7) مختلف سیاسی نظریات کا احترام کریں۔۔
ارے کیا بات کررے بھائی، ایک نمبر کی غنڈہ پارٹی ہے اور آپ اس کی حمایت کررے؟ آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے اچ یہ دن دیکھنا پڑرا۔ ہم دیکھو کسی کو سپورٹ نہیں کرتے۔“
( ہوسکتا ہے یہ ”برے دن“ ہمیں آپ کی وجہ سے نصیب ہوئے، جو شاید اپنا حق استعمال کرتے تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا)
8) لوگوں کی بات نہ کاٹیں بلکہ انہیں اپنی بات مکمل کرنے کا موقع دیجئے۔
”ارے ایسا؟ طبیعت خراب ہے؟ کب سے ہے؟ معمولی مت سمجھو… “
(اگلا سانس لینے کے لیے رکا، وہاں ہم شروع ہو گئے ۔ پہلے حال بھی ہم ہی پوچھتے ہیں اور جب وہ سنانا شروع ہی کرتے ہیں کہ پچھلے دنوں وہ کسی صحت کے مسئلہ سے دوچار رہے، وہیں ہمیں ہمارے وہ تمام رشتہ دار یاد آجاتے ہیں جو بیچارے اسی قسم کے مسئلے سے لڑتے لڑتے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ وہ حال سنانے والا بیچارہ تو دم سادھ لیتا ہے۔ بہتر ہے کہ انہیں بولنے دیں اور کچھ اچھے الفاظ میں انہیں حوصلہ دیں۔)
9) اگر آپ کسی کو تنگ (مذاق) کر رہے ہیں، اور وہ اس سے لطف اندوز نہیں ہو رہا تو رک جائیں اور دوبارہ کبھی ایسا نہ کریں۔
” اوہو یہ کلر پہنے وہ پارٹی والے پیسے دیئے کیا۔یا باجے والے دکھرے، ویٹر دکھرے۔ آجکل ایسا ماڈل چلرا.. ایسا“( آپ کی باتوں پہ مسکرانا تو درکنار، وہ خون کے گھونٹ پیتے نظر آرہے ہیں تو خدا کے لیے رک جائیں۔ ہماری عادت ہوتی ہے کہ یا تو ہم جسمانی عیب نکال کر یا پھر کپڑوں یا اسٹائل کو لے کر مذاق شروع کردیتے ہیں۔یقین کریں ایسے مذاق کسی کو پسند نہیں آتے۔ )
10)جب تک آپ سے پوچھا نہ جائے مشورہ نہ دیں۔۔
(مفت میں تو آپ دے دیتے ہیں مگر بسا اوقات بڑا مہنگا ثابت ہوتا ہے)
فی الحال ہم آپ کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ان ہدایات پر عمل کریں ۔
11) جب کوئی آپ کی مدد کرے تو آپ اس کا شکریہ ضرورادا کریں۔
”شکریے کا کیا ہے غیر تھوڑی ہیں۔ مدد تو اپنے لوگ ہی کرتے۔“
”چائے، کھانا یہ سب تو روز ہی بناتے تم، شکریہ بولنا اب اس کے لیے؟“
”گھر کا سامان لانے پہ کاہے کا شکریہ جی! سب ہی لاتے ناں یہ تو۔ تم کون سے تیس مار خاں ہیں“
(جی ہاں! ہم شکر گزار نہیں ہوتے بلکہ کوئی اگر ہمارے لیے کچھ کرے تو اپنا جائز حق سمجھ کر وصول کرتے ہیں۔
بعض اوقات ان کو شکریہ کہنا یہ سوچ کر نظر انداز کردیتے ہیں کہ بھلا اپنوں کو شکریہ کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تکلفات تو غیروں کے ساتھ برتے جاتے ہیں ۔ معاشرے میں پائی جانے والی یہ سوچ سراسر غلط ہے ۔ اپنوں کو شکریہ کہنا اور ان کا احسان مند ہونا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا دوسروں کا۔ اس سے انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ لاپروا نہیں ہیں بلکہ ان کی طرف سے ملنے والی توجہ اور محبت کا مکمل ادراک رکھتے ہیں ۔ ہمارے دوست ، احباب ، عزیز واقربا اور خاندان والے ہماری طرف سے شکریے کے حق دارہیں ۔ کہنے کو تو یہ ایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن دوسروں کے لیے آپ کے احساسات و جذبات کا ترجمان بن جاتاہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ لفظ محض اجنبیوں کی حد تک محدود کردیا گیا ہے، گویا ہمارے اپنے ، ہمارے گھر کے افراد شکریے کے مستحق نہیں ۔ یہ چھوٹا سا جادوئی لفظ آپ کی نرم مزاجی ، انکساری اور خوش اخلاقی کو ظاہر کرتا ہے ۔ اس لفظ سے آپ کی قدروقیمت گھٹتی نہیں بلکہ بڑھ جاتی ہے اور آپ کے اپنوں کو مزید قریب لے آتی ہے۔
شکریہ کسی چیز کا بدلہ دے کر یا تعریف یا دعا کر کے ادا کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بہترین دعا سکھائی ہے ”جزاک اللہ خیرا۔“ کوشش کریں کہ شکریہ ادا کریں..)
12) کسی کی تعریف کرنی ہو تو لوگوں کے سامنے کریںاور تنقید تنہائی میں کیجئے۔
"ارے یہ کس کا بچہ ہے۔ اچھا ہوا اماں باوا پہ نئیں گیا۔“کسی کے پیارے سے بچے کو دیکھ کر پوچھا جاتا ہے۔ یہ کہنے کا تو ہمارا ظرف ہی نہیں کہ ”ماشااللہ بڑا پیارا بچہ ہے۔“ تعریف کرنے کے معاملے میں ہم بحیثیت قوم بڑے کنجوس ہیں ۔ ”سوٹ اچھا دکھرا۔“ یہ نہیں کہیں گے کہ آپ اچھے لگ رہے ہیں۔
اور تنقید تو ماشاءاللہ! بڑے کھلے دل سے بھری محفل میں کی جاتی ہے۔”اکلوتی بیٹی کی شادی اور مہمانوں کو کھانا بھی ڈھنگ سے نہیں کھلائے۔“
(ہوسکتا ہے اسی لیے انہیں مشکل پیش آئی ہو کہ انہیں اس کام کا تجربہ نہیں تھا)
13) کسی کے وزن پر کچھ تبصرہ کرنے کی کوئی ت±ک نہیں بنتی۔ بس کہیں ، ”آپ اچھے نظر آتے ہیں“ اگر وہ وزن کم کرنے کے بارے میں بات کرنا چاہیں تو شوق سے کیجئے۔
” سب کے حصے کا تم اچ کھا لیتے شاید، ایسا وزن بڑھ جارا۔“ ( ہو سکتا ہے انہیں موٹاپے کا مسئلہ ہو۔ آپ بس اپنے وزن پر توجہ دیں)
جب کوئی آپ کو اپنے فون پر کوئی تصویر دکھاتا ہے تو بائیں یا دائیں سوائپ نہ کریں، آپ نہیں جانتے کہ آگے کیا ہے۔(جی! اور آپ کو جاننا چاہیے بھی نہیں)
14)جس طرح آپ اپنے سی ای او یا باس کے ساتھ احترام سے پیش آتے ہیں، اسی طرح اپنے آفس بوائے یا چوکیدار کے ساتھ پیش آئیں۔ اپنے سے کم حیثیت لوگوں کے ساتھ آپ کا برتاو¿ آپ کی شخصیت اور آپ کے کردار کا آئینہ دار ہے۔
یقین کریں کہ اس کے بڑے اچھے نتائج سامنے آتے ہیں۔ اس تعلق سے شیخ عبدالرحمن العریفی اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے دفتر کے ملازم کے سلام کا مسکراکر جواب دیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ ملازم ان کے سامنے آیا کہ وہ پریشان لگ رہا تھا۔ انہوں نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ آپ کیا مجھ سے ناراض ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں۔ تو اس نے کہا کہ آپ ہر روز مسکرا کر سلام کا جواب دیتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ آج آپ نے مسکرا کر جواب نہیں دیا؟انہوں نے اس سے معذرت کی اور بتایا کہ وہ کسی وجہ سے مصروف یا الجھے ہوئے تھے اور اس بات نے انہیں احساس دلایا کہ ملازمین پر مالک کا مزاج کتنا اثر انداز ہوتا ہے کہ صرف ایک مسکراہٹ اس کے لیے تمام دن آسودگی کا باعث تھی۔
15) اگر کوئی آپ کو بتائے کہ اسے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے،تو یہ نہ پوچھیں کہ کس لیے۔۔ بس آپ اچھی صحت کی دعا دیں۔۔ اگر وہ اس کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیںتو آپ بھی کیجئے۔
(ہم تو جب تک ان ڈاکٹر صاحب کا شجرہ نہیں پوچھ لیتے ہمیں چین نہیں آتا۔) ”ارے وہ ڈاکٹر، انوں ڈاکٹر نہیں حجام ہے۔ فلانے ڈاکٹر کو دکھائیے۔“