دولت رام
1975 میں ملک بھر میں آنگن واڑی مراکز قائم کیے گئے تھے جس کا مقصد حاملہ خواتین اور 6 سال سے کم عمر کے بچوں کو غذائی قلت سے بچانا اور انہیں صحت مند ماحول فراہم کرنا تھا۔ چھوٹے بچوں کو بنیادی تعلیم فراہم کرنے اور حاملہ خواتین کو صحت مند رکھنے کے لیے یہ ایک انقلابی اسکیم تھی۔ اس کا وسیع اثر دیکھا گیا۔ خاص طور پر ملک کے دیہی علاقوں میں اس اسکیم کا سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ جہاں بچوں کو غذائی قلت اور بیماریوں سے بچانے میں مدد ملی۔ آنگن واڑی مرکز نے نہ صرف غذائی قلت کے خلاف جنگ میں مدد کی بلکہ بچوں کو ایک ہی جگہ پر مکمل ٹیکہ اندازی بھی فراہم کی گئی۔ جو ملک کے دور دراز دیہی علاقوں میں رہنے والے بچوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔لیکن تقریباً پانچ دہائیوں بعد ایسا لگتا ہے کہ یہ اسکیم اب اپنے ہدف سے ہٹ رہی ہے۔ جن مقاصد کے لیے آنگن واڑیوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا وہ پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اگرچہ ضرورت کے مطابق شہروں میں آنگن واڑی مراکز کھولنے کا انتظام ہے، لیکن یہ صرف دیہی علاقوں کے لیے مفید ثابت ہوا ہے۔ اب وہاں بھی اپنے ہدف سے دور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ریگستان کی سرزمین کہلانے والے راجستھان کے دیہی علاقوں کو دیکھیں تو کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔ جہاں بچوں اور حاملہ خواتین کو مکمل خوراک اور دیگر سہولیات میسر نہیں ہیں۔ اگرچہ راجستھان کی وزیر بہبود خواتین و اطفال ممتا بھوپیش نے ریاست کے جغرافیائی محل وقوع کے پیش نظر مرکزی حکومت سے 5000 نئے آنگن واڑی مراکز کی منظوری کا مطالبہ کیا تھا، لیکن اب تک صرف 215 نئے مراکز کھولنے کی منظوری دی گئی ہے۔ ریاستی حکومت نے تب کہا تھا کہ راجستھان کے گا¶ں دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں اور آنگن واڑی مراکز کی محدود تعداد کی وجہ سے بہت سے بچے فوائد سے محروم رہتے ہیں کیونکہ بچے اور مائیں عام طور پر 10-12 کلومیٹر کا سفر نہیں کر سکتیں۔ لیکن جن علاقوں میں آنگن واڑی مراکز چل رہے ہیں، گا¶ں والوں کا الزام ہے کہ انہیں اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ریاست کے ادے پور ضلع سے 70 کلومیٹر دور سالمبر بلاک کے تحت مل پور گا¶ں بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ یہ ایک بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ایک گا¶ں ہے، جو بلاک سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس گا¶ں میں تقریباً 200 گھر ہیں۔ اس کی آبادی 1150 کے لگ بھگ ہے۔ یہ گا¶ں پہاڑی علاقے پر واقع ہے۔ گا¶ں میں صرف ایک آنگن واڑی سنٹر ہے۔ جس میں 3 سال کے بچے کا داخلہ ہوتا ہے۔ سینٹر کے ملازمین کے مطابق بچوں کو ماہ میں ایک بار غذائیت سے بھرپور خوراک بھی دی جاتی ہے۔ غذائیت دینے سے پہلے تمام گھروں کو معلومات بھیجی جاتی ہیں۔ غذائیت کے تحت تین سال کے بچوں کو میٹھا دلیہ، نمکین دلیہ اور کھچڑی کے چاول وغیرہ دیے جاتے ہیں۔ لیکن گا¶ں والے اس سے خوش نہیں ہیں۔ ان کے مطابق حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ گا¶ں کی ایک خاتون کملا دیوی (تبدیل شدہ نام) کہتی ہیں کہ” ہمیں آنگن واڑی سے غذائیت کی خوراک سے متعلق کوئی معلومات نہیں ملتی ہیں۔ یہ جاننے کے لیے ہمیں بار بار وہاں جانا پڑتا ہے۔ جب آس پاس کے لوگ وہاں سے کھانا لاتے ہیں تو ہم بھی اسے لینے چلے جاتے ہیں۔ معلومات دو یا تین ماہ میں ایک بار آتی ہیں۔“ اس نے الزام لگایا کہ کوئی بھی دیہاتی نہیں جانتا کہ وہ مرکز سے کیا حاصل کرنے کا حقدار ہے؟ ان کے مطابق اس آنگن واڑی سنٹر میں 3 سے 6 سال کی عمر کے بچوں کی تعداد 46 ہے۔ جن میں سے صرف 10-12 بچے سنٹر میں آتے ہیں۔ ان بچوں کی نشوونما اور تعلیم سے متعلق مرکز میں کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ بچوں کی کم تعداد کی وجہ یہ ہے کہ ان کے گھر آنگن واڑی سنٹر سے بہت دور ہیں۔ یہاں بہت سے بچوں کے گھر مرکز سے 5-6 کلومیٹر دور ہیں۔کچھ دوسرے والدین کا بھی یہی الزام تھا کہ اس آنگن واڑی مرکز سے متعلق کوئی بھی معلومات گا¶ں والوں یا والدین کے ساتھ شیئر نہیں کی جاتی ہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک والدین نے الزام لگایا کہ یہاں بچوں کے والدین کو کبھی کوئی اطلاع نہیں دی جاتی۔ سنٹر میں بچوں کی تعداد بہت کم ہے۔ کبھی کبھی 4-5 بچے سنٹر میں آتے ہیں۔ جب کھانے کی تقسیم کا وقت آتا ہے تو کچھ بچوں کو تقسیم کیا جاتا ہے اور اس کی تصاویرلے لی جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2020 تک اس آنگن واڑی سنٹر میں بہت سی سہولیات دستیاب تھیں۔ بچوں کی تعداد بھی پوری تھی اور انہیں تمام غذائیت سے بھرپور کھانا بھی وقت پر فراہم کیا جاتا تھا۔ لیکن اب کوئی سہولت نہیں ہے۔ اب بچوں کو اس قدر ناقص خوراک دی جاتی ہے کہ والدین بچے کو کھانا کھلانے کے بجائے اسے جانوروں کو دینا ہی بہتر سمجھتے ہیں تاکہ ان کا بچہ صحت مند ہو سکے۔ دوسری طرف آنگن واڑی سے وابستہ لوگ ایسے کسی بھی الزام سے انکار کرتے ہیں اور ہر ماہ کھانا دینے کی بات کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کسی بچے کے والدین کھانا لینے ایک مہنے نہیں آتے ہیں تو ہم انہیں اگلے مہینے دونوں مہینوں کا کھانا دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم ہر ماہ مرکز میں نیوٹریشن ڈے بھی مناتے ہیں۔ تاہم والدین یا سینٹر کے ملازمین کی باتوں میں کتنی صداقت ہے، یہ تحقیقات کا معاملہ ہے، لیکن آنگن واڑی سنٹر کے کام کاج کو لے کر اکیلے مالپور گا¶ں میں پیدا ہونے والا یہ پہلا معاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی دیگر ریاستوں کے دیہی علاقوں سے بھی اس طرح کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ ایسے میں مقامی انتظامیہ اور ریاستی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس میں شفافیت لانے کے لیے مزید سخت اقدامات کرے۔ وقتاً فوقتاً معائنہ کرنے اور پنچایت کی طرح ہر ماہ گا¶ں کے تمام ممبران کی میٹنگ بلا کر کام میں شفافیت لائی جا سکتی ہے، کیونکہ یہ نہ صرف آنگن واڑی مرکز کی ساکھ کا سوال ہے بلکہ ملک کے بچوں کی صحت سے متعلق بھی ایک مسئلہ ہے،جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔