مضامین

کیا ہم ایک بیمار معاشرے میں تبدیل ہو رہے ہیں؟

شراون گرگ

حیرت کی بات نہیں، وزیر اعظم نریندر مودی نے 26 اپریل کو نئی دہلی میں ایک باوقار میڈیا انسٹی ٹیوٹ کے پروگرام میں ایک پروفیسر کی بیٹی کی خودکشی کے بارے میں سنا گیا ایک لطیفہ شیئر کیا۔ اس واقعہ کا زیادہ تکلیف دہ منظر یہ تھا کہ ہال میں موجود اشرافیہ سامعین نے اپنے چہروں پر کھلکھلاہٹ بکھیرتے ہوئے تالیو ںکی گونج میں اس لطیفے کو قبول کیا!
(وزیراعظم کا بتایا گیا لطیفہ کچھ اس طرح تھا: ‘بچپن میں ہم ایک لطیفہ سنا کرتے تھے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں! ایک پروفیسر تھے، ان کی بیٹی نے خودکشی کر لی، اس نے ایک چٹ چھوڑی-: "میں زندگی سے تنگ آچکی ہوں اور جینا نہیں چاہتی اس لیے کانکریا تالاب میں چھلانگ لگا کر مر جاو¿ں گی۔“ صبح پروفیسر نے دیکھا کہ اس کی بیٹی وہاں نہیں ہے، اسے خط بستر پر ملا تو باپ بہت غصے میں تھا۔ : ”میں ایک پروفیسر ہوں، میں نے اتنے سالوں تک محنت کی اور پھر بھی اس نے کنکریا کے ہجے غلط کیے“) کانکریا ایک دلکش تالاب ہے جو احمد آباد، گجرات میں واقع ہے۔
وزیر اعظم کے بچپن میں سنے گئے لطیفے کا مذکورہ پروگرام میں تناظر یہی سمجھا جاسکتا تھا کہ جس ٹی وی چینل کے وزیراعظم مہمان خصوصی تھے، اس کے غیر ہندی داں سربراہ نے اب ”شاندار ہندی بولنا شروع کردیا ہے۔“
پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا پروگرام میں ایسا ہونا مکمل طور پر ناممکن تھا کہ وزیراعظم کے کہے جانے والے لطیفے کے اختتام کے ساتھ ہی ہال میں ایک لمحے کے لیے ہی سہی تھوڑا سا سناٹا ، خاموشی چھاجاتی؟ حاضر ناظرین بالخصوص ”بیٹیوں“ کی پیٹھ اپنی کرسیوں سے چپک جاتی؟ اپنی بات پر اس فوری ردعمل کو فوری بھانپ کر لطیفے کے پیچھے چھپے کسی نامعلوم معنوں کی وضاحت وزیراعظم کو کرنی پڑ جاتی؟ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تقریب کے بارے میں ایک ویب سائٹ پر جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم کو حاضرین کی تالیوں کی گونج میں ہنستے ہوئے بھی دیکھا گیا۔
وزیر اعظم نے لطیفہ چاہے کسی اور تناظر میں یاد کرتے ہوئے پروگرام میں سنایا ہو لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم سامعین اور ناظرین کے طور پر بالکل بے حس ہو رہے ہیں؟ ہم نے کسی بھی قسم کے درد سے متاثر ہونا بند کر دیا ہے (جس میں کورونا کے دوران سینکڑوں میل پیدل بھوکے پیاسے شہری، ریل روڈ حادثات میں مرنا اور دن کی روشنی میں موب لنچنگ شامل ہو سکتی ہے) کیا زندگی سے تنگ آکر بیٹی کی خودکشی جیسا حساس موضوع بھی ہمارے لیے ہنسی کا موضوع بن گیا ہے؟
یہ نہ سمجھا جائے کہ دہلی اور ممبئی میں موجود جشن منانے والے ہندوستانیوں اور یوروپی ملک میں برسوں سے آباد این آر آئیز میں بڑا فرق ہے جہاں انسانی حقوق کے احترام اور حساسیت کے معاملے میں انسانوں اور جانوروں کے درمیان کسی قسم کا امتیاز نہیں کیا جاتا ہے۔ ایک ہی مثال کافی ہوگی۔
وزیر اعظم پچھلے سال لگ بھگ ان ہی دنوں (3 مئی) برلن کے دورے پر تھے۔ برلن اور اس کے آس پاس رہنے والی ہندوستانی کمیونٹی (ہندوستانی ڈائاسپورا) کے تقریباً 1,200 شہریوں کی شرکت کے ایک پروگرام میں مودی نے اپنی حکومت کی قیادت میں ترقیاتی کاموں اور کامیابیوں کے بارے میں حاضرین کو آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں حکومت کی جانب سے بدعنوانی کے خلاف کی گئی کارروائی کے ذکر کے دوران سابق وزیراعظم آنجہانی راجیو گاندھی کا نام لیے بغیر جو ریمارک کیا اور ان کے بیان پر سامعین نے جس طرح سے تالیاں بجائی تھیں اس کی گونج کا تقابل شاید میڈیا ادارہ کے پروگرام سے کیا جاسکتا ہے۔
اڑیسہ کے کالاہانڈی ضلع کے دورے کے بعد، جو اس وقت قحط اور فاقہ کشی کے لیے بدنام تھا، راجیو گاندھی نے کانگریس کے ممبئی اجلاس میں افسوس کا اظہار کیا کہ دلالوں کے کرپشن کی وجہ سے دہلی سے بھیجا گیا ایک روپیہ ضرورت مندوں کے ہاتھ میں پہنچنے تک کم ہو کر پندرہ پیسے رہ جاتا تھا۔ ۔ برلن تقریب میں، استفادہ کنندگان کے بینک کھاتوں میں مالی امداد کو براہ راست منتقل کرنے کے لیے اپنی حکومت کی ٹیکنالوجی کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے، مودی نے طنزیہ انداز میں کہا: "اب کسی بھی وزیر اعظم کو یہ نہیں کہنا پڑے گا کہ میں دہلی سے ایک روپیہ دے رہا ہوں۔ اور صرف پندرہ پیسے نیچے تک پہنچتے ہیں!وزیراعظم وہیں نہیں رکے! جب انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ کا پنجا پھیلا کر بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے چند لمحے رگڑ کر پوچھا: ”وہ کون سا پنجہ تھا جو 85 پیسے رگڑتا تھا“ تو برلن کے اس عظیم الشان ہال میں موجود ہندوستانیوں نے اپنی زبردست کھلکھلاہٹ کے ساتھ26 اپریل جیسی ہی گونج پیدا کی تھی۔
کورونا جیسی کسی قومی آفت کے وقت ملک کا ہیرو اگر اپنے شہریوں سے گھروں کے دروازوں پر دیپک جلانے یا بالکونیوں میں کھڑے ہو کر تھالیاں بجانے کی اپیل کرتا ہے یا کبھی کہتا ہے کہ جب وہ اپنے بھائی بہنوں کی طرف دیکھتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کیسا وزیراعظم ہے جس نے اتنی مشکلات میں ڈال دیا ہے “ تو عوام کی طرف سے انتہائی جذباتی ردعمل کی توقع کی جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر شہریوں سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ بے حس خوشامدی ہجوم بن جائیں جب ان کا ہیرو زندگی سے تنگ آکر خودکشی کرنے کا فیصلہ کرنے والی کسی پروفیسر کی بیٹی کا لطیفہ سنارہا ہو یا کہ ملک کی سیاسی تاریخ کے کسی بدقسمت دور میں قحط زدہ متاثرین کی مدد میں ہوئی بدعنوانی جیسے واقعات کے خاتمے کو اپنی حکومت کی حصولیابیوں میں اس طرح سے گنارہا ہو؟
ایک عالمی شہری ہونے کے ناطے، کیا ہم ایک بیمار معاشرے میں تبدیل ہو رہے ہیں؟ سب سے زیادہ آبادی کے لحاظ سے اب دنیا کے نمبر ون ملک کے لوگ کرہ ارض پر بسے باقی 192 ممالک میں سے صرف چند ہزار آبادی والے آخری نمبر والے ممالک کے شہریوں کے لیے کس قسم کی مثال قائم کرنا چاہتے ہیں؟