کیا انڈیا کا پاکستانی وزیر خارجہ کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دینا غیرمتوقع اقدام ہے؟
نیاز فاروقی اور شہزاد ملک
ہندوستان نے پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو مئی میں ہندوستان کے شہر ’گوا‘ میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کے سینئر اہلکار نے یہ دعوت نامہ ملنے کی تصدیق کی ہے تاہم ابھی تک بلاول بھٹو زرداری کی شرکت کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اگر بلاول بھٹو یہ دعوت قبول کر لیتے ہیں تو یہ کسی پاکستانی وزیرِ خارجہ کا 12 برس کے وقفے کے بعد پہلا دورہ ہندوستان ہوگا۔ اس سے قبل سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سنہ 2011 میں ہندوستان آئی تھیں۔
رواں برس مئی کے مہینے میں شنگھائی تعاون تنظیم کا میزبان ہندوستان ہو گا۔ پاکستان اور ہندوستان سنہ 2017 سے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے مستقل رکن ہیں۔ ماہرین کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم میں رکن ممالک کو شرکت کی دعوت دینا میزبان ملک کے فرائض میں شامل ہوتا ہے، اس لیے پاکستان کو اس میں شرکت کی دعوت دینا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔
ایم ایم اے جے اکیڈمی آف انٹرنیشنل اسٹڈیز میں پروفیسر اجے درشن بہیرا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا کی ذمہ داری ہے کہ ایس سی او جیسے کثیر جہتی فورم میں بطور میزبان وہ سب کو مدعو کرے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم پاکستان کے وزیر خارجہ کو مدعو نہ کر یں کیوں کہ ہمارے درمیان اختلافات ہیں۔‘
اس سے قبل سنہ 2022 میں سمرقند میں ہونے والے ایس سی او کے سربراہی اجلاس میں توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ شہباز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات ہو گی تاہم ایسا نہیں ہوا تھا۔
چند روز قبل اپنے دورہ متحدہ عرب امارات کے موقع پر وزیرِاعظم شہباز شریف نے العربیہ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انڈیا اور پاکستان کو مذاکرات کے ذریعے اپنے تمام مسائل حل کرنے چاہیے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کو کشمیر کے متنازع خطے سمیت دیگر تمام معاملات پر مذاکرات کرنے چاہیے۔
ان کا کہنا تھا ’انڈین قیادت اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کو میرا پیغام ہے کہ آئیں میز پر بیٹھیں اور ہمارے درمیان موجود سنگین تنازعات مثلاً کشمیر کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اور مخلصانہ مذاکرات کریں۔‘
تاہم وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دفتر نے اس انٹرویو کے بعد ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ مذاکرات صرف تب ہو سکتے ہیں جب انڈیا اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرے جو اگست 2019 میں ختم کر دی گئی تھی۔
دونوں ممالک کے درمیان کئی برسوں سے جاری تناؤ کے بعد پاکستان کی جانب سے بات چیت کی اس پیشکش کو مثبت انداز میں دیکھا گیا۔
’یہ بیک چینل بات چیت کا اشارہ نہیں‘
پروفیسر رادھا کمار، جو کہ 2010 میں کشمیر میں مرکزی حکومت کے مذاکرات کاروں میں سے ایک تھیں، کہتی ہیں کہ ایس سی او اجلاس کے لیے پاکستان کو انڈیا کی دعوت کو ایک معمول کے اقدام کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ محض ایک دعوت نامے سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ لوگ شاید اسے دونوں ممالک کے درمیان بیک چینل بات چیت کے اشارے کے طور پر دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ’میرے خیال میں یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا بیک چینل پر بات چیت چل رہی ہے مگر موجودہ حکومت اور موجودہ صورتحال کے تناظر میں ایک نارمل نتیجہ اخذ کرنا تھوڑا مشکل ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میں کہوں گی کہ تھوڑی دیر اور انتظار کریں۔ اس دعوت سے فی الحال کوئی نتیجہ اخذ نہ کریں۔‘
اگرچہ مبصرین کا کہنا ہے کہ پوری وضاحت کے لیے مزید انتظار کرنے کی ضرورت ہے، لیکن انڈیا کے معروف انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ اگر پاکستان تعلقات میں بہتری کے لیے آگے آتا ہے تو انڈیا کو بھی ہاتھ بڑھانا چاہیے۔
’اگر واقعی اسلام آباد کی طرف سے ایس سی او کی دعوت قبول کی جاتی ہے یا دونوں دارالحکومتوں میں مشنز، جہاں 2019 سے سفیر نہیں ہیں، کو بحال کرنے کی تجویز کے ساتھ پاکستان آگے آتا ہے تو یہ امید کی جائے گی کہ نئی دہلی اس کا مثبت جواب دے گا۔‘
اخبار میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ایک ایسے وقت میں جب انڈین حکومت روس اور یوکرین کو ’مذاکرات اور سفارت کاری‘ کے مشورے دے رہی ہے اور طالبان سے ’عملیت پسندی‘ کے ساتھ بات کرنے پر زور دے رہی ہے تو ایسے موقع پر علاقائی استحکام کو بڑھانے کی خاطر اقدامات نہ لینا تھوڑا متضاد نظر آئے گا، وہ بھی ایک ایسے سال میں جب کہ ایک ’اسٹیٹس مین‘ کے طور پر انڈیا کے کردار کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔‘
انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر کہا کہ انھیں ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے باوجود پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں کوئی بہتری آئے گی تاوقتیکہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان کوئی دوطرفہ ملاقات نہیں ہوتی۔
عبدالباسط کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس تنظیم کے اجلاس میں انڈیا جانا چاہیے۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے انڈیا کے وزیر اعظم کو ’گجرات کا قصائی‘ قرار دیا تھا اور اس بیان پر انڈیا اور بالخصوص بھارتیہ جنتا پارٹی میں شدید غم وغصہ پایا گیا تھا اور انڈیا نے باضابطہ طور پر اس بیان کی شدید مذمت کی تھی۔
یاد رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ایجنڈے میں ہے کہ اس تنظیم کے اجلاس میں باہمی تنازعات کو زیر بحث نہیں لایا جائے گا۔