مضامین

کیا ایران، افغانستان میں طالبات کو زہر دینے میں کوئی مماثلت ہے؟

فریدون آژند

ایران کے مختلف شہروں کے اسکولوں میں زہریلی گولیوں کے واقعات نے طالبات کے اہل خانہ کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر واقعات صوبہ قم میں پیش آئے۔تاہم ایران کے کئی دوسرے شہروں سے طلبہ کو زہر دیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ گذشتہ دو ہفتوں میں اس عمل میں تیزی آئی ہے اور مزید طلبہ کو مبینہ طور پر زہر دیا گیا ہے۔
ایران کی وزارت تعلیم کے حکام نے پہلے تو ان واقعات کی خبروں کی تردید کی اور اسے افواہ قرار دیا، لیکن زہر کے واقعات میں اضافے کے باعث وہ ان واقعات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے اور ان کی وجوہات جاننے کے لیے ایک ٹیم تشکیل دے دی۔ان واقعات کی علامات میں سر چکرانا، متلی، کمزوری اور سستی اور بعض صورتوں میں سر اور ٹانگوں میں شدید درد ہے۔
طالبات کو زہر دینے کے حوالے سے ابھی تک کوئی واضح وجہ نہیں بتائی گئی، لیکن ایران کے سرکاری ذرائع نے مختلف واقعات منتخب کیے ہیں، جن میں سے کچھ زیادہ قابل اعتبار نہیں۔مثال کے طور پر صوبہ لرستان کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ نے بتایا کہ صوبے کے شہر بوروجرد میں احمدیہ اسکول کے طلبہ کی بیماری کی وجہ شہر میں گیس کے اخراج سے کاربن مونو آکسائیڈ گیس کا اضافہ تھا۔
ایک ایرانی وزیر کے مطابق ایران میں لڑکیوں کو اسکولوں سے باہر رکھنے کے لیے ’کیمیائی مرکبات‘ کا استعمال کرتے ہوئے جان بوجھ کر زہر دیا جا رہا ہے۔ ایران کے نائب وزیر صحت یونس پناہی نے اتوار کو مزید تفصیلات فراہم کیے بغیر کہا کہ ’بعض افراد نے تمام اسکولوں، خاص طور پر لڑکیوں کے اسکولوں کو بند کرنے کی کوشش کی۔‘
گزشتہ سال نومبر سے لے کر اب تک اسکول کی طالبات میں ایسے سینکڑوں واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، خاص طور پر قم میں درجنوں لڑکیاں ہسپتال داخل ہو چکی ہیں۔ حکام کے مطابق دارالحکومت تہران اور اردبیل کے شمال مغربی شہر سمیت چار شہروں میں کم از کم 14 اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ملک کے اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری نے قم پراسیکیوٹر کے نام ایک خط میں اس زہر کو جان بوجھ کر حالات خراب کرنے کی کوشش قرار دیا۔ ایرانی میڈیا نے بھی طالب علموں کو زہر دینے کا تعلق ان گروہوں سے بتایا ہے جو لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے خلاف ہیں۔
ایرانی ٹیلی گرام گروپس میں فدائیان ولایت نامی گروپ کے بارے میں خبریں شائع ہوئیں جس نے ان زہریلے حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ گروپ نے اس کا مقصد لڑکیوں کو گھر پر رکھنا اور انہیں تعلیم حاصل کرنے سے روکنا بتایا۔ کہا جاتا ہے کہ گروہ نے رات کو پمفلٹ بھی تقسیم کیے، جن میں لڑکیوں کی تعلیم کو حرام اور ’امام زمان کے خلاف جنگ‘ سمجھا۔
اسکول کی طالبات کو زہر دینے کی وجوہات کے بارے میں ابھی تک کوئی سرکاری رپورٹ شائع نہیں ہوئی، لیکن ایران میں رائے عامہ پر جو سوال چھایا ہوا ہے وہ یہ کہ کیا یہ نقطہ نظر ایران کے اندر مذہبی تحریکوں پر طالبان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ہے؟
افغانستان پر قبضہ کرنے کے ابتدائی دنوں سے طالبان گروپ نے مڈل سکول اور اس سے اوپر کے لڑکیوں کے اسکول بند کرتے ہوئے لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا تھا۔ لڑکیوں پر پابندیوں کو بعد میں بڑھا کر طالبات کو شامل کیا گیا۔ آخر کار طالبان نے گھروں سے باہر خواتین کی سرگرمیوں اور کام پر پابندی عائد کر دی اور غیر سرکاری تنظیموں بالخصوص بین الاقوامی امدادی اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو گھروں میں رہنے پر مجبور کر کے انہیں بظاہر باضابطہ طور پر معاشرے سے خارج کر دیا۔
دوسری جانب افغانستان میں طالبات کو زہر دینے کی ایک تاریخ ہے۔ 2012 اور 2016 کے درمیان افغان اسکولوں میں طالبات کو بار بار زہر دیا گیا۔یہ رجحان ہرات میں زیادہ تھا، جو ایران سے متصل ہے۔ قم کی طرح یہاں لڑکیوں کو سب سے زیادہ زہر دینے کے واقعات ہوئے۔ ہرات میں دیے جانے والے زہر کی علامات بھی اسی طرح کی ہیں جو ایران میں سامنے آئیں۔افغانستان میں طالبات نے چکر آنا، متلی، انتہائی کمزوری اور شدید سر درد کی بھی شکایت کی۔
اس وقت (2015) ہرات کے مختلف علاقوں میں ایک ماہ کے اندر لڑکیوں کے اسکول کی طالبات کو چار مرتبہ زہر دیا گیا تھا۔اس وقت حکومتِ افغانستان نے ایران کے حکام کی طرح پہلے تو ان زہر کو افواہیں اور جھوٹ قرار دیا اور اس کو وسعت دے کر اس معاملے میں نفسیاتی مسائل کو شامل کرنے کی کوشش کی لیکن آخر کار یہ مہم ناکام ہوئی۔افغانستان کی وزارت داخلہ نے اسکول کی طالبات کو زہر دینے کے الزام میں متعدد افراد کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا۔ افغانستان کی نیشنل سکیورٹی ایڈمنسٹریشن نے اپنے شائع کردہ ایک بیان میں طالبات کو زہر دینے میں غیرملکی انٹلی جنس ایجنسی سے متعلق عوامل کو بھی ملوث قرار دیا،لیکن افغانستان میں اس سلسلہ وار زہر دینے کی مہم کی سب سے بڑی وجہ لڑکیوں کو تعلیم سے روکنے کی کوشش تھی۔ایسا لگتا ہے کہ ایران میں اسکول کی طالبات کو زہر دینے میں ملوث گروہ افغانستان میں استعمال کیے جانے والے طریقوں سے متاثر تھے یا پھر افغانستان میں یہ کارروائیاں کرنے والوں کو ایران میں لڑکیوں کو زہر دینے کا سبق سکھایا گیا تھا، کیوں کہ وہ افغانستان کی طرح اس مادے کا استعمال کرتے تھے جو زیادہ اثر نہیں چھوڑتا تھا۔
دو ہمسایہ ممالک کے ان دو رجحانات کے مجموعے سے جو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ انتہا پسندی آہستہ آہستہ خطے کے مختلف ممالک اور جغرافیوں کو متاثر کر رہی ہے۔حتیٰ کہ ایرانی میڈیا نے بھی یہ اطلاع دی کہ ’ہزار سالہ‘ کے نام سے جانا جانے والا ایک گروہ اس فعل کا ذمہ دار تھا۔ میلینیالسٹ ایک ایسا گروہ ہے جو دنیا کے قریب آنے اور انصاف، اچھائی اور ہم آہنگی پر مبنی ایک نئے نظام کے قیام پر یقین رکھتا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ لڑکیوں کو اسکول نہیں جانا چاہیے اور وہ صرف تیسری جماعت تک ہی پڑھ سکتی ہیں۔ہزارہ کو طالبان کے شیعہ ورژن کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم، مذہبی انتہا پسندانہ افکار کی تشکیل اور ایران میں خواتین مخالف تحریکوں کا زور پکڑنا تشویش ناک نظر آتا ہے۔