طنز و مزاحمضامین

”ک “ کاکمال

مظہرقادری

شادی شدہ مردہی نہیں بلکہ بچپن سے ہی حرف ”ک“ مردکے لیے ایک عذاب کا لفظ ہوتا ہے اورمردکے حصہ میں بس اسی حرف سے شروع ہونے والے سارے سوال آتے ہیں۔ بچپن میں ماں کا صبح صبح سوال شروع ہوجاتا‘کب اٹھتے،کب اسکول جاتے،کب کھانا کھاتے، کیا کرریں،کیوں دیر ہوری،کوئی ٹیچراسکول میں کوئی بات بولی توفوری ماں بولتی کون ٹیچر بولی۔ ”ک“ سے شروع ہونے والے سوالات کا یہ جو لامتناہی سلسلہ ہوتا ہے،سارادن چلتاہی رہتااوربچہ کبھی خوشی سے اورکبھی غصے سے ماں کو جواب دیتا رہتا۔بہرحال جوان ہونے تک یہ ”ک“سے شروع ہونے والے سوالوں کا سلسلہ اس کے ساتھ لگارہتا۔تھوڑا جوان ہوا تو پھر کہیں بھی جانا چاہا توپھر وہی ”ک“کے سوا ل شروع ہوجاتے جوباپ کی طرف سے ہوتے ہیں۔کیوں جاریں،کب تک آتے،کس کس کے ساتھ جاریں،کہاں جاریں،کیسا جاریں۔۔۔۔۔
اس کے بعد تیسرا اوربھیانک اسٹیج شادی کے بعد کا شروع ہوتا ہے۔بچپن اورجوانی میں ماں باپ کے ”ک“کے سوالوں کے جواب دیے توبھی چلتا اورنہیں دیے توبھی چلتا اورجوجواب دیتے تھے، اس کے لیے کوئی ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ماں باپ صرف جوا ب سے ہی مطمئن ہوجاتے تھے‘لیکن شادی کے بعد جو ”ک“کے سوالوں کا سلسلہ شروع ہوتاتواس میں ہرسوال کا جواب مستند ثبوت کے ساتھ دینا پڑتا۔ایک صاحب دفترسے واپسی میں بازارسے ترکاری لینے رک گئے۔ دوکا ن پرلوگ زیادہ تھے تھوڑی دیرہوگئی اوربیوی کا فون آیا۔ کہاں ہیں کیاکرریں تووہ بولے بازار میں ہوں، ترکاری خرید رہاہوں توبیوی فوری بولی ترکاری والے سے بات کراؤ توانہوں نے ترکاری والے سے درخواست کی کہ برائے مہربانی ایک منٹ کے لیے میری بیوی سے بات کرکے بتادوکہ میں تمہاری دوکا ن پر ترکاری لے رہاہوں‘تودوکان والے نے بُری صورت بناکر کہا صبح سے سوروپئے کا دھندا نہیں ہوا، لیکن اب تک بیس لوگوں کی بیویوں سے با ت کرنا پڑگیا۔۔۔۔۔
مردعورت سے کبھی ”ک“کا سوال کررہی نہیں سکتا۔اگرآپ کی بیوی شاپنگ کو جاکر دیرسے آئی اوراگرآپ پوچھے کہ کہاں گئے تھے توآپ کو جیسا صداقت نامہ اورثبوت کے ساتھ بیوی کو ہرسوال کا جواب دینا پڑتا‘بیوی کا معاملہ ایسا نہیں رہتا۔آپ اگر ”ک“کے استعمال کا حربہ استعمال کرکے بیوی سے سوال کریں توفوری بجائے جواب کے آپ کو پھر ایک ”ک“کا سوال ملتا‘کیاکام ہے آپ کو؟نہیں توآپ کو کائے کو؟اوراگرآپ پھرپوچھے کب آریں توجواب ملتا‘کب آسکتی نہیں بول سکتی کتی دیر ہوتی کی۔بہرحال آپ جو ”ک“کے سوال کرنے کی کوشش کریں، اس کے جواب کے بجائے الٹا آپ کو آدھے درجن ”ک“کے اورسوالات سننا اورپھرآپ ہی کو ایک بار مجرم کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر جواب دینا پڑتاکہ نہیں ایسے ہی پوچھ رہاتھا۔یاپھر ٹھیک ہے تمہاری مرضی۔غرض مردکو ”ک“کا سوال کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ اگرآپ بیوی سے سوال کریں کہ کہاں سے لائے اورکتنے کا ہے توفوری پھر ایک سوال آپ سے پوچھا جاتاآپ کیوں پوچھ ریں دام میں جمع کرے سوپیسے سے لائی‘کہیں سے بھی لائی ہوں گی۔
اگربیوی پوچھے کہ کہاں ہیں آپ، غلطی سے آپ بھی ”ک“کا استعمال کرکے سوال کریں کیوں کیابات ہے توفوری جواب آتا کیوں نہیں پوچھ سکتی کیا۔باہرسے آپ گھر آئے اوراگرگھر میں کچھ چیزیں اُلٹ پلٹ نظر آئیں اورآپ اپنی ہوشیاری بتانے کو پوچھے کہ کون آئے توبجائے جواب کے پھر آپ سے ”ک“کا سوال ہوتاکہ کیوں کیابا ت ہے، کیوں پوچھ رہے ہیں ایسا؟کوئی بھی نہیں آئے تھے اورمزید اپنی گردن کسی بھی مشکل سے بچانے کے لیے آپ خاموش بیٹھ جاتے۔اسی لیے کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے مردکو زیادہ سے زیادہ ”ج“ کا استعمال کرنا چاہیے۔ایک تواس کے جیب میں مایاہونا چاہیے اوردوسرے جب بیوی پکاری جی آیا بولنا چاہیے۔اس کے علاوہ بھی وہ جب بھی کوئی سوال کرے جواب میں جی اچھا جوآپ کی مرضی جیساآپ بولے،جب آپ بولے،جہاں سے بولے وہاں سے،جدھربولے اُدھر،جب تک مرضی ہے جی حضوری کرتے رہنا چاہیے۔
سوال ان کا جواب ان کا سخن ان کا کلام ان کا
ہم ان کی بزم میں سراپنا خم نہ کرتے توکیاکرتے
یاپھر
کہنے کو بہت کچھ تھا اگر کہنے پہ آتے
ان کو یہ شکایت ہے کہ ہم کچھ نہیں کہتے
٭٭٭