گورنمنٹ آرڈر(118) ‘ قبضوں کی باقاعدگی۔ مسلم بستیوں کو لسٹ سے خارج کیا گیا؟دستور کے آرٹیکل(14) کی خلاف ورزی میں جاری کیا گیا سرکاری حکمنامہ بذریعہ رٹ درخواست چیالنج کیاجاسکتا ہے
٭ لسٹ میں44کالونیوں میں صرف غیر مسلم افراد رہتے ہیں۔ ٭ یہ سہولت صرف غیر مسلموں کے لئے ہی کیوں فراہم کی گئی؟ ٭ چندرائن گٹہ اسمبلی حلقۂ انتخاب میںایک بھی کالونی لسٹ میں شامل نہیں ہے۔ ٭ حکومت کا مسلمانوں سے سوتیلی ماں والا سلوک ۔ گورنمنٹ آرڈر سے واضح ہورہا ہے۔
محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔
حکومتِ تلنگانہ نے کچھ روز قبل ایک گورنمنٹ آرڈر118 جاری کیا جس کی رو سے شہر حیدرآباد میں صرف44 کالونیوں میں سرکاری اراضیات پر قابض افراد جنہوں نے ان پر مکانات تعمیر کئے تھے ‘ ان کے قبضہ جات کو باقاعدہ بنانے کے لئے درخواستیں طلب کی گئی تھیں۔ متذکرہ گورنمنٹ آرڈر سراسر ظلم و ناانصافی پر مبنی ہے۔ کیوں کہ جن قابضین کو یہ سہولت بہم کی جارہی ہے‘ ان کا تعلق اکثریتی طبقہ سے ہے اور ایسی بستیاں جن میں مسلمانوں نے گورنمنٹ اراضیات پر اپنے مکانات بنائے ہیں اور عرصۂ دراز سے یہاں مقیم ہیں‘ انہیں اس سہولت سے یکسر محروم رکھا گیا ہے۔
گورنمنٹ نے آرڈر کے اجراء کی وجہ بتائی ہے کہ اس ضمن میں عوامی نمائندوں اور عوام کی جانب سے مسلسل نمائندگی کی جارہی تھی کہ ان کالونیوں میں بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کی گئی ہیں علاوہ ا زیں دیگر وجوہات یہ بھی ہیں کہ ان مکانات کی رجسٹری پر پابندی عائد کی گئی ہے اور تعمیری اجازت بھی نہیں مل رہی ہے لہٰذا حکومت نے ان 44 بستیوں میں مقیم افراد کو یہ سہولت بہم پہنچائی ہے کہ وہ درخواستیں پیش کرکے اپنے قبضہ جات کو ایک ہزار مربع گز کی حد تک باقاعدہ بناسکتے ہیں اور ان سے فی مربع گز 250 روپے قیمت وصول کی جائے گی۔
لیکن یہ سہولت ان علاقوںمیں رہنے والے افرادکو بہم نہیں پہنچائی گئی جن کا تعلق اسمبلی حلقہ جات چندرائن گٹہ‘ یاقوت پورہ‘ ملک پیٹ‘ نامپلی اور جوبلی ہلز سے ہے۔ صرف جوبلی ہلز میں بنجارہ دروازہ گولکنڈہ اور کچھ ملٹری کوارٹرس مانصاحب ٹینک کو یہ سہولت بہم پہنچائی گئی ہے۔ دوسری جانب یہ حقیقت ہے کہ شہر حیدرآباد میں ایسے ہزاروں مکانات ہیں جو گورنمنٹ اراضیات کی چھوٹی چھوٹی حدود پر تعمیر ہوئے ہیں ان کا تذکرہ اس گورنمنٹ آرڈرس میں نہیں ہے۔
ایسے ہزاروں گھروں کے مالکین بڑی مشکلات کا شکار ہورہا ہیں۔ ان کو مکان کی تعمیری اجازت نہیں مل سکتی اور دیگر سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ وہ اگر اپنا مکان فروخت کرنا چاہیں تو فروخت نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کی اراضی کو (Prohibited) لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔ ان کی زمین کی قیمت بھی بہت کم لگائی جارہی ہے۔ اگر فروخت ہو بھی تو نوٹری دستاویز پر ہوگی۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ قبل ازیں اس طرز کے کئی گورنمنٹ آرڈرس جاری کئے گئے تھے اور درخواستیں بھی طلب کی گئی تھیں اور ہزاروں افراد نے درخواستیں داخل کی تھیں اور اس کے ساتھ ایک دس ہزار روپیہ کا ڈیمانڈ ڈرافٹ بھی منسلک کیا گیا تھا۔ لیکن آج تک وہ درخواسیں معرضِ التواء میں پڑی ہوئی ہیں۔ نہ ان پر کوئی حکم جاری کیا گیا اور نہ ہی پیسے واپس کئے گئے لہٰذا وہ حضرات جو قبل ازیں جاری کردہ گورنمنٹ آرڈر کی روشنی میں اراضیات پر قبضہ جات کو باقاعدہ بنانے کی درخواستیں پیش کرچکے ہیں انہیں کسی بھی اقدام کی اس وقت تک ضرورت نہیں جب تک کہ ان درخواستوں پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔
زیرِ بحث گورنمنٹ آرڈر118دستور کی آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی میں جاری کیا گیا ہے کیوں کہ سماج کے ایک ہی طبقہ کو اس اسکیم کے تحت فائدہ پہنچایاجارہا ہے ۔ جبکہ دوسری جانب دیگر طبقات خصوصاً اقلیتی طبقہ کو اس سہولت سے محروم کیا گیا ہے۔ لہٰذا صرف اسی قانونی بنیادپر اس گورنمنٹ آرر کو بذریعۂ رٹ درخواست یا (PIL) چیالنج کیا جاسکتا ہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
وہ اس طرح کہ ہائیکورٹ حکومت کو احکامات جاری کرسکتا ہے کہ اس اسکیم کو دیگر طبقات اور مقامات پر لاگو کرے تاکہ سب کو فائدہ حاصل ہوسکے۔
گورنمنٹ آرڈر118 ثابت کرتا ہے کہ حکومتِ تلنگانہ اقلیتوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کررہی ہے۔
اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل اراضیات پر قابضین پریشان نہ ہوں
ایسے افراد جو اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل قرارشدہ اراضیات پر مکانات تعمیر کئے ہوئے ہیں اور ان میں رہائش پذیر ہیں‘ اس زیرِ بحث گورنمنٹ آرڈر سے پریشان نہ ہوں کیو ںکہ اب فاضل اراضیات پر 2008ء کے بعد حکومت کاکوئی حق باقی نہیں رہا۔ بہت سے حضرات اپنی فاضل اراضیات پر مکانات پر قبضہ جات کو باقاعدہ بنانے کی کوشش میں ہیں۔ گورنمنٹ آرڈر118 کا فاضل اراضیات سے کوئی تعلق نہیں۔ 2008ء کے بعد جو بھی قابض ‘ رہی اراضی کا مالک تصور کیا جائے گا اور اسے مکمل مالکانہ حقوق حاصل رہیں گے ۔ کچھ سال قبل شہرحیدرآباد کے چند تحصیلداروں خصوصاً آصف نگر‘ شیخ پیٹ اور عنبر پیٹ نے سینکڑوں بلکہ ہزاروں افراد کے نام نوٹس جاری کرتے ہوئے اراضیات کی قیمت طلب کی تھی لیکن ان نوٹسوں کا قانونی جواب دیا گیا جس کے بعد مسلسل خاموشی ہے ۔ اب چونکہ قانون ہی برخواست کردیا گیا ہے تو حکومت کسی بھی قابض کو نوٹس جاری نہیں کرسکتی۔ لہٰذا کسی بھی کوشش اور نقل و حرکت کی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہوتی ہے تو اس کا معقول جواب دیا جائے گا۔
سڑکوں کی توسیع میں اراضیات حوالے کرنے کی نوٹس۔ رضامندی کا اظہار خطرناک ثابت ہوگا
تمام ایسے حضرات جن کی جائیدادیں سڑک پر واقع ہیں جو سڑک کی کشادگی کی زد میں آرہی ہیںان کو رائے دی جاتی ہے کہ وہ متعلقہ ڈپٹی کمشنر میونسپل کارپوریشن کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کے جواب میں ان کے پیش کردہ رضامندی فارم پر دستخط نہ کریں یعنی اپنی رضا مندی کا اظہار نہ کریں ورنہ آپ کو اچھی قیمت نہیں ملے گی۔ اگر آپ کے انکار کے باوجود کسی بھی قسم کا دباؤ عہدیداروں یا سیاسی گماشتوں کی جانب سے ڈالا جارہا ہو تو آپ فی الفور ہائیکورٹ میں رٹ درخواست پیش کریں۔
بیٹے کے مجرمانہ عمل کا ذمہ دار باپ نہیں ہوسکتا
سوال:- میں ایک موظف گزیٹیڈ عہدیدار ہوں ۔ کچھ آبائی جائیدادیں ہیں جو میری ملکیت اور قبضہ میں ہیں اور مجھے ان جائیدادوں کا کرایہ ملتا ہے۔ کچھ جائیدادیں میری بیوی کے نام پر بھی ہیں جو ان کے والد نے انہیں دی تھیں۔
میرا ایک بیٹا ہے۔ پوسٹ گریجویٹ ہے اور شادی شدہ ۔ اس کے دو بیٹے بھی ہیں۔ اس نے کچھ سال قبل ایک رئیل اسٹیٹ کمپنی کھولی تھی اور حیدرآباد کے باہر اس نے پلاٹنگ کی تھی اس نے پٹہ دار سے صرف معاہدہ کیا تھا۔ زمین پٹہ دار سے خریدی نہیں تھی۔ اس کے اور پٹہ دار کے درمیان ایک معاہدہ تھا کہ جو بھی خریدار آئے گا پٹہ دار اس کے نام رجسٹری کردے گا۔ اس طرح میرے بیٹے نے کم و بیش چالیس پچاس لوگوں سے اراضی کے پلاٹس فروخت کرنے کا معاہدہ کیا اور بہت بھاری رقومات خریداروں سے وصول کیں ۔ جب وہ پٹہ دار سے رجسٹری کے لئے کہنے لگا تو پٹہ دار نے رجسٹری کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ رجسٹری کرنے کا پابند نہیں ہے۔ درایں اثناء چالیس پچاس افراد نے میرے بیٹے پر دباؤ ڈالا کہ یا تو پلاٹس کی رجسٹری کرواؤ یا ہمارے پیسے واپس کردو۔ ایسی ہیبات دو ماہ تک چلی ۔ میرے بیٹے نے اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک ملک کا ویزا حاصل کیا اور غائب ہوگیا۔ مجھے پتہ نہیں وہ کس ملک کو گیا مگر یہ بات مسلمہ ہے کہ اس نے کئی کروڑ روپیہ خریداروں سے حاصل کئے۔
دو ماہ سے بیٹے کا کوئی پتہ نہیں۔ اب وہ تمام خریدار میرے گھر پر آرہے ہیں اور پیسوں کی واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ان کا کہنا صرف یہ ہے کہ ہم نے آپ کی صورت دیکھ کر آپ کے بیٹے کو بھاری رقومات ادا کی تھیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ آپ کی جائیداد کا جو بھی حق بیٹے کا بنتا ہے اسے فروخت کرکے پیسہ ہمیں واپس کردیں۔ میں اپنے بیٹے کے کسی عمل کا ذمہ دار نہیں ۔ وہ کبھی بھی میرا اطاعت گزار نہیں رہا اور ہر کام اپنی مرضی سے ہی کرتا تھا۔
میرے بیٹے نے اس ناجائز کمائی میں سے مجھے ایک پیسہ بھی نہیں دیا۔ بلکہ وہ خود مجھ سے کبھی کبھی پیسے مانگ لیا کرتا تھا۔
ان لوگوں نے مجھے دھمکی دی ہے کہ اگر میں نے رقم ادا نہیں کی تو میرے خلاف پولیس کارروائی کریں گے ۔ میں اس ضمن میں بہت ہی پریشان ہوں۔ میں کسی بھی طرح سے ذمہ دار نہیں ہوں۔ نہ میں کسی معاملت کا گواہ ہوں اور نہ یہ غیرقانونی معاملت میرے سامنے ہوئی۔ میرے گھر پر بھی یہ معاملات نہیں ہوئی کیوں کہ اس کا ایک کرایہ کا آفس تھا جہاں یہ کاروبار کیا کرتا تھا۔
آپ سے استفسار ہے کہ اگر یہ لوگ میرے خلاف کوئی قانونی کارروائی کریں گے یا غنڈہ گردی کریں گے تو کیا مجھ پر کوئی ذمہ داری عائد ہوگی۔ اگر اس ضمن میں پولیس مجھے طلب کرے تو مجھے کیا کرنا ہوگا۔
امید کہ جواب کی اشاعت سے ممنون کریں گے تاکہ میں ان لوگوں پر قانونی موف کو ظاہر کردوں۔ یہ بھی بتائیے کہ کیا میں اپنے بیٹے کو عاق کرسکتا ہوں۔؟
X-Y-Z حیدرآباد
جواب:- آپ پر آپ کے بیٹے کے اس مجرمانہ عمل کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوسکتی۔ ہر شخص اپنے عمل کا آپ ذمہ دار ہے۔ کوئی معاملت آپ کے گھر پر نہیں ہوئی اور نہ آپ اس بات سے واقف ہیں کہ کیا کچھ ہوا۔
اگر وہ لوگ آپ کے گھر پر آکر غنڈہ گردی کریں تو فی الفور ٹیلی فون نمبر 100 ڈائل کرکے پولیس کی مدد طلب کریں۔ پولیس آپ کو طلب نہیں کرسکتی کیوں کہ آپ کسی بھی طرح ذمہ دار نہیں ۔
علاوہ ازیں کم از کم دو اخبارات میں اعلان بے تعلقی کا اشتہار جاری کیجئے اور اس اشتہار میں وارننگ بھی جاری کیجئے کہ اگر کسی نے کوئی شرارت کی تو اس کے خلاف پولیس کارروائی کی جائے گی۔ اس بات کااعلان کیجئے کہ آپ اپنے بیٹے کے کسی بھی مجرمانہ عمل کیلئے ذمہ دار نہیں۔
آپ اپنے بیٹے کو عاق نہیں کرسکتے کیوں کہ شریعت میں اس بے بنیاد چیز کی کوئی گنجائش نہیں۔ وارث کو اس کا حق یقینی طور پر مل کر رہے گا۔
اگر بیٹے سے شخصی طور پر یا ٹیلی فونی ربط قائم ہو تو اسے تلقین کیجئے کہ جس کا بھی پیسہ ہڑپا ہے ‘ اسے واپس کردے۔ یہ بات آپ کے حق میں اور آپ کے بیٹے کے حق میں اچھی ثابت ہوگی۔